Major Shabbir Sharif Shaheed Nishan e Haider
میجر شبیر شریف شہید نشان حیدر
کسی ملک و قوم کی حفاظت کا تصور اس کی فوج کے بغیر کیا ہی نہیں جاسکتا۔ پاک فوج پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہے کہ اسے اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت کی فوج ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ پاک آرمڈ فورسز نہ صرف وطن عزیز کی سلامتی بلکہ اس کی جغرافیائی اور نظریاتی حدود کی محافظ بھی ہیں بلکہ بھارت جیسے ازلی دشمن کے خطرناک عزائم کے راستے میں حائل واحد دفاعی حصار بھی ہیں۔
پاکستان کا دفاعی بجٹ تقریباً 7.5 بلین ڈالر جب کہ بھارت کا دفاعی بجٹ 75 بلین ڈالر ہے (بحوالہ ہلال پبلی کیشنز)۔ اس نسبت میں زمین آسمان کا فرق ہونے کے باوجود اگر پاک فوج نے دشمن پر اپنی دھاک بٹھا رکھی ہے اور بھارت کی جانب سے مسلط کردہ ہر جنگ اور ہر حملہ کا بھرپور جواب دیا ہے اور اسے خاک چٹائی ہے تو اس کا واحد سبب ہمارے سپاہیوں کی بے مثال جرات و بہادری اور جذبہء شہادت ہے جس سے سرشار ہوکر یہ بیٹے سر پر کفن باندھ کے نکلتے ہیں اور مادر وطن کی حفاظت کی خاطر ہنود و یہود سے چومکھی لڑائی لڑتے ہیں۔
ایسی ہی ایک لڑائی 1971ء میں لڑی گئی جس کا ذکر بہت کم کیا جاتا ہے جب ہندوستان کی افواج ایک گہری سازش کے تحت مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے کاٹنے کے لئے 3 دسمبر 1971ء کو پاکستان پر حملہ آور ہوئیں۔ میجر شبیر شریف اس وقت "ہیڈ سلیمان کی" سیکٹر میں اپنی کمپنی کی جانب سے دفاع پر مامور تھے۔ بھارتی فوج کنکریٹ کے بنکر بنا کر اپنے تئیں مطمئن ہوچکی تھی، اسے یہ معلوم نہ تھا کہ پاک فوج کے سامنے یہ کنکریٹ کے بنکر کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔
میجر شبیر شریف نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان بنکروں پر دلیرانہ حملہ کیا اور دشمن سے دوبدو مقابلہ کیا، بھارتی سپاہی کچھ دیر کی معرکہ آرائی کے بعد پسپا ہوگئے اور ان کی اہم فوجی چوکی "جھانگر" بھی پاکستان کے قبضے میں آگئی۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں بھارتی جرنیل بیٹھ کے پاکستان کے خلاف مشاورت اور پلاننگ کیا کرتے تھے۔ میجر شبیر شریف اپنی کمپنی کے ہمراہ پیش قدمی کر رہے تھے اگرچہ ان کے دشمن کے پاس خودکار اسلحہ موجود تھا مگر پاک فوج جیسا جگر کسی کے پاس نہ تھا۔۔
بقول شاعر
جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا!
ایسی ہی یادگار لڑائی پاک فوج کے بہادر بیٹے لڑ رہے تھے، انھوں نے دشمن کا تعاقب جاری رکھا حتیٰ کہ وہ "بیری والا گاؤں" تک پہنچ گئے۔ یہاں دشمن کی خاصی نفری موجود تھی۔ کانٹے دار مقابلہ ہوا مگر دشمن یہاں بھی ٹک نہ سکا اور اس کے سپاہی بھاگ کھڑے ہوئے۔ پاک فوج کے جوانوں کا مورال بلند تھا، وہ ہاتھ دھو کے ہندوؤں کے پیچھے پڑ گئے اور انھیں گاؤں " گور مکھیڑہ" کی جانب پسپا کردیا۔
سبز ہلالی پرچم سے مزین وردیوں میں ملبوس یہ خدائی فوج آگے بڑھتی چلی جارہی تھی، اب اس کے سامنے نہر کا سخت سرد پانی تھا، چشم فلک نے کیا منظر دیکھا کہ دسمبر کی سخت سردی میں، اس نہر کو پار کرنے کے لئے وطن کے رکھوالے بیٹے نہر کے ٹھنڈے پانیوں میں اتر گئے۔ نہر کی دوسری جانب بھارت کا توپ خانہ ان پر مسلسل بمباری کر رہا تھا۔ پاک فوج کے سپاہیوں کے سامنے تین چیلنج تھے، انھیں نہر پار کرنی تھی، اپنے اسلحہ اور جنگی سامان کو بھی دوسری طرف لے جانا تھا اور دشمن کے توپ خانے سے خود کو بچانا بھی تھا۔
بقول شاعر
زمانہ یہی دے رہا ہے گواہی
سپاہی کے قدموں میں ہے تاج شاہی
کبھی نور بن کے یہ زنداں میں پہنچا
کبھی حق کی خاطر بیاباں میں پہنچا
کبھی موج کی طرح طوفاں میں پہنچا
کبھی رنگ و بو بن کے بستاں میں پہنچا
اسی کے لہو سے بہار _چمن ہے
حقیقت میں یہ شمع بزم وطن ہے!
ایک لیڈر کی سب سے بڑی خوبی ہر طرح کے مشکل حالات میں، اپنے ساتھیوں کے حوصلے اور مورال کو بلند رکھنا ہوتا ہے اور میجر شبیر شریف اپنے سپاہیوں کے حوصلوں میں مسلسل اضافہ کرتے ہوئے جنگی حکمت عملی تیار کرتے جارہے تھے۔ فوج کی کامیابی کا ایک راز ان کے ٹیم ورک اور یکجہتی میں پنہان ہے کہ سب قالب یکجان بن جاتے ہیں۔ یہ اتحاد ہی قوت میں ڈھل جاتا ہے۔
نہر عبور کرنے کے بعد پاک جوانوں نے آہنی بنکروں کا پھر سامنا کیا، اب تو وہاں توپ خانے کے علاوہ ٹینکوں کا ایک سکواڈرن بھی موجود تھا۔ نعرہء تکبیر فضا میں بلند ہوتے ہی یہاں گھمسان کا رن پڑا۔ زبردست مقابلے کے بعد پاک فوج نے خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت سے اس چوکی پر بھی فتح حاصل کرلی۔ 43 بھارتی فوجی مارے گئے جب کہ 28 کو زندہ قیدی بنالیا گیا۔ ان کے چار ٹینک بھی جلا کے بھسم کردئیے اور علاقے میں نہر کے پل پر بھی پاک فوج کا قبضہ ہوگیا۔
یہ پل گاؤں "گور مکھیڑہ" تک پہنچنے کا واحد راستہ تھا۔ اس طرح دشمن کی رسد کا راستہ بند ہوچکا تھا مگر مکار دشمن نے علاقے میں جگہ جگہ بارودی سرنگوں کا جال بچھا رکھا تھا۔ اگلے دن کا سورج طلوع ہوا تو ان بارودی سرنگوں کی وجہ سے پاک سپاہیوں کی کثیر تعداد میں شہادتوں کا پیغام لایا۔ دشمن کی ٹڈی دل فوج نے ہمارے غازیوں پر گھات لگا کے حملہ کیا۔ ایک ہندو سپاہی کسی طرح میجر شبیر شریف کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہوگیا اور آپ کا اس سے دوبدو مقابلہ ہوا، ہمارے شیر نے اسے دبوچ لیا اور ہلاک کر ڈالا۔ اس ہندو سپاہی کے پاس سے قیمتی دستاویزات بھی برآمد کیں۔
پاک فوج کے پاس اسلحہ کم پڑچکا تھا مگر بہادر نوجوان سینہ تانے دشمن کا مقابلہ کرتے رہے۔ ایک مقام آیا جب میجر شبیر شریف کا توپچی شہید ہوگیا تو آپ نے اس کی توپ سنبھال کے دشمن کا مقابلہ کیا۔ آپ دشمن پر مستقل گولہ باری کروارہے تھے کہ دشمن کا ایک گولہ آپ کے سینے پر آلگا اور آپ کلمہء شہادت پڑھتے ہوئے زمین پر گر گئے۔ جب جوان آپ کے پاس پہنچے تو آپ شہید ہوچکے تھے! یہ 6 دسمبر 1971ء کا دن تھا جب دھرتی کا یہ بیٹا مادر وطن پر قربان ہوا۔ بعد ازاں آپ کو فوج کا اعلیٰ ترین اعزاز " نشانِ حیدر" دیا گیا جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لقب "حیدرِ کرار سے منسوب ہوتا ہے۔
یہ تمغہ محض ایک سپاہی کی قدردانی کی علامت ہی نہیں ہوتا بلکہ پوری قوم کے جذبہء ایمانی پر مہر تصدیق کی حیثیت رکھتا ہے۔ میجر شبیر شریف نے اکیس سال کی عمر میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کی تھی۔ آپ کا خاندان کشمیر سے ہجرت کرکے گجرات کے گاؤں کنجاہ میں آباد ہوا تھا۔ آپ کی والدہ نے آپ کا نام "شبیر" رکھا اور آپ نے ساری زندگی اس نام کی لاج رکھی۔ آپ وہ واحد فوجی ہیں جنھیں" ستارہء جرات اور نشانِ حیدر" کے دو اعزازات ملے۔ ستارہء جرات آپ کو 1965ء کی جنگ میں دادِ شجاعت دینے پر ملا تھا۔ ایک سپاہی کے لئے "شہادت" بذاتِ خود سب سے بڑا اعزاز ہے۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مالِ غنیمت، نہ کشور کشائی!