Jamaat e Islami, Taaruf, Tareekh Aur Vision
جماعتِ اسلامی، تعارف، تاریخ اور وژن
انیس سو تئیس میں خلافتِ اسلامیہ کے ختم ہونے کے بعد امتِ مسلمہ کے رو بہ زوال ہونے کے ساتھ کفار کے مسلح اور نظریاتی حملوں میں تیزی آگئی تھی۔ اب مسلمانوں کے لئے دنیا میں نہ صرف اپنی اجتماعی قوت کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہوگیا بلکہ انھیں اپنے تاریخی ورثے، تہذیب و تمدن، علم و ادب بلکہء نظریہء حیات پر طاغوتی طاقتوں کی یلغار کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ مسلمان منتشر اور بغیر کسی مضبوط ریاستی سرپرستی کے زندگی گذارنے پر مجبور کردئیے گئے تھے، اپنی شناخت اور بقا کو لاحق اس خطرے نے کئی تحریکوں کو جنم دیا، برصغیر پاک و ہند کی تاریخ ان تحریکوں کے تذکرے سے روشن ہے۔
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال جیسے مفکر اور حکیم الامت نے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست کے قیام کی ضرورت پر زور دیا، ان حالات میں جماعتِ اسلامی پاکستان کا قیام 26 اگست 1941ء میں وجود میں آیا۔ بانئی جماعت سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے صرف پچھتر نفوس اور چوہتر روپے چودہ آنے کے سرمائے کے ساتھ جماعتِ اسلامی کی داغ بیل ڈالی، اس سے قبل وہ "رسالہ ترجمان القرآن" اور "ادارہ دارالاسلام" کے ذریعے دین کو تحریک کی صورت دینے کے لئے رائے سازی کا کام کر رہے تھے۔
اس موقع پر اپنے تاریخی خطاب میں بانیء جماعتِ اسلامی نے اس تحریک اور دوسری تحریکوں کے مابین فرق واضح کیا: اول یہ کہ ہم اسلام کے کسی جزو یا کسی دنیوی مقصد کو نہیں بلکہ پورے کے پورے اسلام کو لے کر اٹھ رہے ہیں۔ دوم: ہم جماعت میں کسی کو شامل کرنے سے پہلے اس سے کلمہء طیبہ اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے کا اقرار (حلف) لیتے ہیں۔ سوم ہماری دعوت ساری انسانیت کے لئے ہے (کسی خاص قوم یا ملک تک محدود نہیں ہے)۔ ہم نے قرآن وسنت سے سب انسانوں کے مسائل کا حل پیش کرنا ہے۔
(ماخوذ: روداد جماعتِ اسلامی، حصہ اول)۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی، جماعت اسلامی کے پہلے امیر منتخب ہوئے، اس وقت ان کی عمر اڑتیس سال تھی۔ اس کے بعد ہیڈ کوارٹر لاہور سے پٹھان کوٹ منتقل ہوگیا۔ جماعتِ اسلامی کے قرآن وسنت کے پیغام پر مشتمل ادب (لٹریچر) کی تیاری کا کام، اولین ترجیح کے طور پر شروع کردیا گیا بلکہ مختلف علاقائی اور بین الاقوامی زبانوں میں ان کتب کے تراجم کا بھی آغاز ہوگیا۔ 1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد جماعتِ اسلامی کا نظام بھی دو حصوں پر مشتمل ہوگیا۔ جماعتِ اسلامی کے کارکنان، مہاجرین کی بحالی اور دیکھ بھال کے لئے مصروف عمل تھے، اسی دور میں بانیء پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے کہنے پر سید ابوالاعلیٰ مودودی کی ریڈیو پاکستان پر پہلی تقریر نشر کی گئی (بحوالہ ڈاکٹر اشتیاق احمد، ممتاز قانون دان)۔
یہ تقاریر جو قائد اعظم کے ایماء پر عامتہ المسلمین کی فکری راہنمائی کے لئے نشر کی گئیں، کتاب "اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات" کے آخری باب "اسلامی نظامِ حیات" میں موجود ہیں۔ اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ بانیء جماعتِ اسلامی اور بانیء پاکستان نظریاتی اور عملی طور پر متحد و یکسو تھے، پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے نصب العین کی خاطر، ان میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ مولانا کی شہرہ آفاق تفسیر "تفہیم القرآن" کے مطالعہ سے "فکرِ مودودی" کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔
1948ء میں قائد اعظم کی وفات کے بعد سیکولر طبقے نے سر اٹھالیا تو جماعتِ اسلامی پاکستان ان کے مشن کو لے کر اٹھی اور نہ صرف" نظامِ اسلامی" کا مطالبہ پیش کیا بلکہ "کشمیری مسلمانوں کے حقِ خود ارادیت" کی بھی حمایت کی۔ اسی دور میں"قراردادِ مقاصد" منظور ہوئی جو ملک کا دستور "اسلامی" بنانے کی طرف اہم پیش رفت تھی۔ 1950ء میں مولانا مودودی نے اسلامی دستور کا خاکہ پیش کیا تو حکومت نے ان کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی لگادی اور جماعت کے ہم خیال اخبارات بھی بند کردئیے۔ 1951ء میں جماعتِ اسلامی نے اپنے ویژن "حکومتِ الٰہیہ کے قیام" کی خاطر پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا اگر چہ ان میں ایک نمائندہ ہی منتخب ہوسکا۔
1952ء میں مسئلہء ختمِ نبوت کے دفاع اور قادیانی سازشوں کے خلاف کتاب لکھنے پر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کو گرفتار کرلیا گیا اور سزائے موت سنائی گئی۔ مولانا نے رحم کی اپیل کرنے سے انکار کردیا۔ بعد ازاں عالمی سطح کے احتجاج اور دباؤ کے سبب سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا گیا۔ کارکنان نے بھرپور احتجاجی مہم چلائی، بالآخر مولانا کو 1955ء میں ہائی کورٹ کے حکم پر رہا کردیا گیا۔ ملک کے دستور کی تیاری کا مرحلہ پیش نظر تھا، اس میں مولانا مودودی نے حکومتِ وقت کے ساتھ کام بھی کیا اور راہنمائی بھی فرمائی۔ 1958ء میں پہلا مارشل لاء لگا تو تمام سیاسی جماعتوں پر بھی پابندی لگادی گئی۔
کبھی اس مکاں سے گزر گیا، کبھی اس مکاں سے گزر گیا
تیرے آستاں کی تلاش میں، میں ہر آستاں سے گزر گیا
کبھی تیرا در، کبھی دربدر، کبھی عرش پر، کبھی فرش پر
غمِ عاشقی تیرا شکریہ، میں کہاں کہاں سے گزر گیا!
ابتدا ہی سے جماعتِ اسلامی کا نصب العین "عملاً اقامتِ دین" حکومتِ الٰہیہ اور اسلامی نظام زندگی کا قیام اور حقیقتاً رضائے الہی اور فلاحِ اخروی" کا حصول قرار پایا تھا۔ اس عظیم الشان مشن کو ایسے افراد درکار تھے جو نہ صرف پاکیزہ سوچ، صالح اعمال سے مزین ہوں بلکہ زمانے کی تیز رفتار میں قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کی صلاحیتوں سے بھی مالامال ہوں، اس لئے افرادِ کار کی تیاری، تربیت اور ٹریننگ اول روز سے نظمِ جماعت کے پیشِ نظر رہی ہے۔ اس مقصد کی خاطر باقاعدہ تربیتی نصاب تیار کیا جاتا ہے، حلقہء دروس اور اجتماعات کے ذریعے قرآن وسنت کا فہم اور حالات حاضرہ کا شعور پیدا کیا جاتا ہے۔ یہ خاصیت، کسی اور سیاسی پارٹی میں دکھائی نہیں دیتی۔
جماعت کا تربیتی نظام، کارکنان کے اندر ایمان اور جذبہ کا وہ ایندھن بھر دیتا ہے کہ اس کے بعد انھیں جس شعبہء زندگی اور جس محاذ پر کھڑا کردیا جائے وہ اس میں کامیابی کی خاطر تن، من، دھن کی بازی لگا دیتے ہیں۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ہمیشہ اپنے حصے کا کام جسم و جان کی پوری قوت اور اخلاقی اصولوں کی پاسداری سے کرنے پر زور دیا اور انتخابات میں کامیابی کی خاطر کسی بھی خفیہ سرگرمی یا زیر زمین کارروائی سے منع فرمایا۔ 1960ء میں مولانا مودودی نے قرآن کریم میں مذکور مقامات کے دورے کئے اور ان جگہوں کا مشاہدہ کیا۔ 1962ء میں سیاسی جماعتوں سے پابندی ہٹا لی گئی تو اسلامی جمعیت طلبہ بھی فعال ہوگئی اور مختلف یونیورسٹیوں کے اندر انتخابات میں حصہ لیا۔ اسی دوران مولانا خلیل احمد حامدی ناظم دارالعروبہ مقرر ہوئے، وہ بیرونی وفود کے دوروں کے موقع پر مولانا مودودی کے مترجم کے فرائض بھی انجام دیتے تھے اور آپ کی کئی کتب کا انھوں نے عربی میں ترجمہ کرکے جماعتِ اسلامی کے لٹریچر کو دور دراز کے ممالک تک پہنچایا۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ میں جماعتِ اسلامی نے حکومت کے شانہ بشانہ کام کیا، طبی کیمپ قائم کئے گئے۔ مسئلہ کشمیر پر پانچ زبانوں میں لٹریچر شائع کیا گیا۔ 1968ء میں سوشلزم کا مقابلہ کرنے کے لئے "ادارہ دائرۃ الفکر" قائم کیا گیا، لٹریچر کے ذریعے سوشلزم اور کمیونزم کو شکست سے دو چار کردیا گیا۔ 1971ء کی جنگ کا معرکہ، مشرقی پاکستان کے دفاع کی خاطر، جماعتِ اسلامی کی ذیلی تنظیم "البدر" نے پاک فوج کے ہمراہ، بھارتی افواج اور مکتی باہنی کے خلاف لڑا، شہادتیں بھی ہوئیں اور گرفتاریاں بھی مگر سقوطِ ڈھاکہ ہوگیا، پاکستان دو لخت کردیا گیا۔ مولانا مودودی نے نوے ہزار قیدیوں کی بھارتی عقوبت خانوں سے رہائی کے لئے 250 سربراہانِ مملکت کو خطوط لکھے اور عالمی رائے ہموار کی۔ مولانا مودودی اور مولانا خلیل احمد حامدی نے یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے دورے بھی کئے۔ "بنگلہ نامنظور" مہم چلائی گئی۔
1972ء میں میاں طفیل محمد صاحب کو جماعتِ اسلامی کے امیر کے طور پر منتخب کیا گیا۔ جماعتِ اسلامی میں امارت کا معیار صرف تقویٰ اور کارکردگی ہے۔ جماعت کے دستور کے مطابق اراکینِ جماعت، خفیہ رائے دہی کے ذریعے سے اپنے امیر کو منتخب کرتے ہیں۔ 27 فروری 1979ء کو سعودی عرب میں شاہ فیصل فاؤنڈیشن کی جانب سے مفسرِ قرآن سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو ان کی علمی و ادبی خدمات پر ایوارڈ دیا گیا۔ اس ایوارڈ سے پہلے دنیا بھر کی اسلامی تنظیموں، مؤثر شخصیات اور بین الاقوامی اداروں کو ایک سوالنامہ بھیجا گیا تھا کہ جس میں ایسا نام تجویز کرنے کی درخواست کی گئی تھی جسے پہلا شاہ فیصل ایوارڈ دیا جاسکے۔ ان سوالناموں میں تقریباً نوے فیصد نے جواب میں مولانا مودودیؒ کا نام لکھا تھا (بحوالہ سید حمید مودودی)۔
بانیء جماعتِ اسلامی بوجوہ ناسازیء طبیعت خود نہ جاسکے، انھوں نے اپنے بیٹے حیدر فاروق کے ساتھ ڈائریکٹر امور خارجہ مولانا خلیل احمد حامدی کو اپنے نمائندے کی حیثیت سے بھیجا جنہوں نے وہاں عربی زبان میں تقریر کی اور مولانا مودودی کا خط پڑھ کر سنایا۔ خط میں مولانا مودودیؒ نے سعودی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا تھا کہ انھوں نے جو کام بھی کیا ہے، اسے دینی فریضہ سمجھ کے کیا ہے اور ایوارڈ کی رقم اقامتِ دین کی جدوجہد میں استعمال کی جائے گی۔ بعد ازاں مولانا خلیل احمد حامدی کی تجویز پر اس رقم سے حالیہ "مرکزِ جماعت منصورہ" کو آباد کیا گیا۔ یہاں دفاتر کی تعمیرات، اداروں کی تشکیل اور انسانی وسائل کی فراہمی مولانا خلیل احمد حامدی کا ذمہ قرار پائی جنہوں نے اپنی پوری جان لگا کے اس سرسبز و شاداب منصورہ کو بسایا۔ (راقمہ کے سامنے، محترمہ زبیدہ بیگم، اہلیہ مولانا خلیل احمد حامدی کی گواہی)۔
جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو جماعتِ اسلامی نے کفار کے خلاف نقارہء جہاد بلند کیا۔ عالمی طاقتوں کو اسی لئے جماعت ہمیشہ کھٹکتی ہے۔ بانیء جماعتِ اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی کا وژن "احیائے اسلام" کا عالمگیر وژن تھا جس کی خاطر انھوں نے ان تھک محنت کی اور اس صدی کے مجددِ دین قرار پائے۔ آپ کی شخصیت علم و عمل، گفتارو کردار کا متاثر کن مجموعہ تھی، آپ 1979ء میں بوجوہ گردوں کے مرض انتقال فرماگئے۔ آپ کی نمازِ جنازہ حرمِ کعبہ کے علاوہ دنیا کے تین براعظموں میں ادا کی گئی۔
آپ اپنے مشن کی صورت میں آج بھی زندہ ہیں۔ مولانا طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن، مولانا سراج الحق اور اب حافظ نعیم الرحمن کی صورت میں امرائے جماعتِ اسلامی نے کلمہء طیبہ والے پرچم کو اٹھا رکھا ہے۔ مردانہ تنظیم کے ساتھ اب حلقہء خواتین بھی بزم آراء ہے۔ ویمن ونگ کی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر حمیرا طارق کی قیادت میں تعلیم یافتہ، دین دار مائیں، بہنیں اور بیٹیاں قوم کی خاطر محوِ جدوجہد ہیں۔
اسلاف کی قربانیوں کے پیشِ نظر، شہیدوں کی امانت نظریہء پاکستان اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ہر شعبہء ہائے حیات میں کوشاں ہیں، نظام کو بدلنا ہے، ٹرانسجینڈر ایکٹ جیسے انسانیت دشمن قوانین کو چیلنج کرنا ہے، اسلامی تہذیب و تمدن کا دفاع کرنا ہے، اقتدار کو کرپٹ لوگوں کے ہاتھ سے لے کر صالحین کے ہاتھ میں دینا ہے۔ مساجد اور محلوں میں جماعت کے مدرسین اور مدرسات کو سنیں، اقتدار کے ایوانوں میں ڈاکٹر کوثر فردوس، عائشہ سید، ڈاکٹر وسیم اختر، سینیٹر مشتاق احمد خان، سید عبد الرشید جیسے قابل عوامی نمائندوں کی مثالیں دیکھیں، قدرتی آفات، سیلاب، زلزلوں میں الخدمت فاؤنڈیشن کو اپنے اردگرد پائیں، الیکٹرانک میڈیا پر جناب امیر العظیم اور سوشل میڈیا پر ویمن ونگ سے آمنہ عثمان کے پوڈ کاسٹ سنیں، جماعتِ اسلامی کے فیس بک پیجز اور ٹویٹر ایکس ہینڈلز کو سکرول کریں تاکہ آپ جان سکیں کہ جماعتِ اسلامی دراصل آپ کی دنیا وآخرت کی فلاح کا مکمل پیکج رکھتی ہے۔ یہ حب الوطنی کے جس درجہ پر ہے، کوئی اور پارٹی نہیں ہے۔
جماعتِ اسلامی اتحادِ امت کی داعی ہے اور ہر قسم کی فرقہ واریت سے مبرہ ہے۔ امت مسلمہ کے زخم کبھی کشمیر و فلسطین ریلیوں کی صورت میں، کبھی پارلیمنٹ میں قراردادوں کے ذریعے سے، کبھی بیرونِ ملک کانفرنسوں میں اجاگر کرتی رہتی ہے۔ جسے سپریم کورٹ آف پاکستان نے کرپشن فری پارٹی ہونے کا سرٹیفیکیٹ دیا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اور پلڈاٹ نے جماعتِ اسلامی کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو کارکردگی میں نمبر ون قرار دیا۔ خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی کے سینیئر وزیر خزانہ نے قرضہ فری بجٹ بناکے اور اپنے وسائل سے صوبے میں ریکارڈ ترقی یافتہ کام کرواکے ورلڈ بنک کے ماہرین کو بھی حیران کیا ہے۔ سود کے خلاف جماعتِ اسلامی نے کئی سال عدالت میں مقدمہ لڑا ہے۔ پانامہ لیکس کے مقدمات میں جماعت اسلامی وطن کے محافظوں کی صورت کھڑی رہی ہے، چوروں کا محاسبہ کیا ہے۔
جماعت قوم کے مفاد میں خدمتِ خلق کا وسیع تجربہ رکھتی ہے۔ عوام کے مسائل، مہنگائی، بجلی کے زائد بل، بیروزگاری، غربت، سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت، سودی قرضوں اور آئی ایم ایف کے ناجائز مطالبات کے خلاف میدان میں ہوتی ہے۔ اسلام کے نظامِ عدل و انصاف کی علمبردار، ترازو کے نشان والی صرف جماعتِ اسلامی ہے۔ حال ہی میں شروع کیا گیا "بنو قابل" پروگرام، نوجوانوں کو آئی ٹی، فری لانسنگ اور دیگر جدید مہارتوں کے ذریعے سے روشن مستقبل کا مژدہ سنارہا ہے۔ جماعتِ اسلامی میں پی ایچ ڈیز کی ایسی ہائی کلاس موجود ہے جو آنے والے ہر چیلنج کا سامنا کرنے کی حکمت عملی تیار کرسکتی ہے۔ جماعت کا ویژن، پاکستان کے روشن مستقبل کا ویژن ہے۔ جماعتِ اسلامی کا حصہ بنئیے۔ اسلام کی ٹھنڈی چھاؤں آپ سب کی منتظر ہے۔
اسلام کی ٹھنڈی چھاؤں میں، ہر سو خوشحالی لائیں گے
جس ارضِ وطن پہ ظلم نہ ہو، وہ پاکستان بنائیں گے!