Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ismat Usama
  4. Ghaza Mein Bhook Ki Cheekh

Ghaza Mein Bhook Ki Cheekh

غزہ میں بھوک کی چیخ

غزہ، جو کبھی زیتون، کھجور اور انگور کے باغات کی سرزمین تھی۔ صاف ہوا اور نیلگوں سمندر اس کی پہچان تھا، آج بھوک، پیاس قحط اور افلاس کی مہیب تاریکیوں میں گھرا ہوا ہے۔ یہاں کے لوگ کئی برس سے گولہ بارود کے دھماکوں اور طیاروں کی گھن گرج کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ حالت یہ ہوگئی ہے کہ روٹی کے ایک ٹکڑے اور پانی کے ایک قطرے کے لیے ترس رہے ہیں۔ بچوں کے چہرے، جو کبھی مسکراہٹوں سے روشن ہوتے تھے، اب کمزوری اور غذائی قلت کے سبب زرد پڑ چکے ہیں۔ جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئے ہیں۔

ماؤں کی آنکھوں میں آنسو سوکھ چکے ہیں اور باپ اپنے بچوں کے لیے رزق کا بندوبست نہ کر پانے کی بے بسی میں ٹوٹ چکے ہیں۔ جنگی محاصرے نے خوراک، دوائی اور صاف پانی کی فراہمی ناممکن بنا دی ہے۔ کھیت اجڑ چکے ہیں، بازار سنسان ہیں اور امدادی قافلے اکثر راستے میں ہی روک دیے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہزاروں خاندان کئی دنوں تک بھوکے رہنے پر مجبور ہیں۔ غذائی قلت کی وجہ سے بچوں میں بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں اور اسپتالوں میں علاج کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

یہ قحط صرف ایک خطے کی کہانی نہیں، بلکہ پوری دنیا کی انسانیت کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔ جب ٹیکنالوجی کے اس دور میں ترقی یافتہ دنیا میں خوراک ضائع ہو رہی ہے، وہیں غزہ کے معصوم انسان بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔ عالمی برادری کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ کب ان بے قصور انسانوں کے لیے انصاف اور بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بنائے گی؟ غزہ کی بھوک اور قحط ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں کہ امن، روٹی، ہوا اور پانی انسان کے بنیادی حقوق ہیں جنھیں سر عام پامال کیا جارہا ہے۔ قیامت تو یہ ہے کہ جب کوئی امدادی ٹرک آٹے کے تھیلے لے کر غزہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور بھوک کی شدت سے انتظار میں کھڑے لوگ آٹا لینے آتے ہیں تو صہیونی طیارے ان پر بمباری کر دیتے ہیں۔

غزہ میں ایک آٹے کے تھیلے کی قیمت ایک انسان کی جان ہے۔ پاکستانی روپوں میں ایک آٹے کا تھیلا 15 ہزار روپے کا ہے جسے خریدنے کی طاقت کسی کے پاس نہیں ہے۔ تقریباً بیس لاکھ قیمتی جانیں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ اس وقت وہاں "پانی اور نمک" کے سہارے زندگی کی ٹوٹتی ڈور کو تھامنے کی کشمکش ہے۔ الجزیرہ کے نمائندہ معروف صحافی "انس شریف" نے پہلی بار بتایا کہ میں بھوک کی شدت سے لڑکھڑا رہا ہوں، کانپ رہا ہوں۔ ہم کیمرے کے سامنے کھڑے رہنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ غزہ مر رہا ہے اور ہم سب مر رہے ہیں"۔

"اے مسلمانو۔ اے عربو۔

ہم بھوکے نہیں ہیں، ہمیں بھوکا رکھا گیا ہے۔ پہلے ہمارے دشمنوں اور پھر ہماری امت کے بیٹوں کی بےوفائی کے سبب۔

ہمیں نہ تو تمہاری دعاؤں کی ضرورت ہے نہ ہی آنسوؤں کی۔

ہمیں اللہ کے بعد تمہارے عمل، تمہاری کوشش، تمہارے جہاد کی ضرورت ہے۔

سرحدیں کھولو۔ غزہ کی طرف آؤ۔

اپنے فلسطینی بھائیوں تک کھانا پہنچاؤ۔

جیسے تم ہمارے دشمن تک پہنچاتے ہو جو تمہارا بھی دشمن ہے۔ یہی کافی ہے۔۔

بس اتنا کرو اور تاریخ کے مجرموں کی فہرست سے باہر آجاؤ۔۔

غزہ کی طبی دنیا کے ایک عظیم ستون ڈاکٹر مروان الہمص ‬کا اغواء اور جبری گمشدگی سے قبل یہ آخری پیغام تھا جو انہوں نے شئیر کیا۔ رب تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے اور سلامتی کے ساتھ اہل خانہ کے پاس لوٹا دے۔

کئی مہینوں کے وقفے کے بعد مجاہدین کے سالار "ابو عبیدہ" نے میڈیا کے سامنے خطاب کیا۔ ان کے لہجے میں نقاہت محسوس کی جاسکتی تھی، انھوں نے کہا کہ "ہم اپنے بہتے خون کی ذمہ داری سے کسی کو بری نہیں کرتے"۔

ان الفاظ سے پوری امت مسلمہ کے خلاف مقدمہ دائر ہوگیا ہے۔ اے انصار اللہ۔ تم کہاں ہو؟ غزہ میں بھوک کی چیخ سنو۔ لوگ سڑکوں پر غش کھا کے گر رہے ہیں، اس وقت غزہ کے غم سے بڑا کوئی غم نہیں ہے۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan