Faisal Masjid Ki Pukar
فیصل مسجد کی پکار
مساجد سے محبت اور انھیں آباد رکھنا، ایمان کی علامت ہے۔ ہر مسجد اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا گھر ہے جس میں پانچ وقت دنیا کے مالک کی کبریائی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ جہاں محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر رب العالمین کے بندے ہونے کا اظہار کرتے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں مسجد کو مرکزی مقام حاصل ہے۔
قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "اللہ کی مساجد کو صرف وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے، پس قریب ہے کہ یہی لوگ ہدایت پانے والوں میں ہوں گے" (سورہء توبہ آیت نمبر 18)۔
حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے محلوں میں مسجدیں بنانے اور انھیں صاف ستھرا اور خوشبودار رکھنے کا حکم دیا "(ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)۔
فیصل مسجد پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں واقع پاکستان کی قومی مسجد ہے جو اپنی انوکھی طرزِ تعمیر اور خوبصورت ڈیزائن کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ ہر سال لاکھوں مسلمان یہاں آتے ہیں اور سینکڑوں مسلمان یہاں اعتکاف کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ اس مسجد کی بہت منفرد تاریخ ہے۔
1960ء میں جب وطنِ عزیز پاکستان کے نئے دارالحکومت اسلام آباد کو بسایا جارہا تھا تو ایک عظیم الشان مسجد کی تعمیر بھی زیرِ غور تھی۔ 19 اپریل 1966ء کو سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل بن عبد العزیز اسلام آباد کے دورے پر تشریف لائے تو انھوں نے اس مسجد کے تمام مصارف خود اٹھانے کا اعلان کیا۔ مسجد کے ڈیزائن کے لئے سرکاری طور پر ایک بین الاقوامی مقابلہ کروایا گیا جس میں تیرہ ممالک سے مسلمان آرکیٹیکٹس نے حصہ لیا اور 39 نقشوں میں سے، ڈیزائن کا مقابلہ ترکی کے آرکیٹیکٹ " ویدت دلوکے" نے جیت لیا، انھیں مبلغ 90 ہزار روپے کا انعام پیش کیا گیا۔
اس مسجد کا بنیادی خیال ایک وسیع و عریض خیمے جیسا ہے جس کے چار کونوں پر مینار اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس ڈیزائن کی تعمیر خاصا مشکل کام تھا مگر " پاکستان نیشنل کنسٹرکشن کمپنی " نے اس مشکل کام کا بیڑہ اٹھایا۔ مارچ 1975ء میں شاہ فیصل شہید کردئیے گئے اور 1976ھ میں شاہ خالد بن عبد العزیز نے اپنے دورہء پاکستان کے دوران فیصل مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ مسجد کی تعمیر کا کام جون 1986ء میں پایہء تکمیل کو پہنچا۔ اس کے مرکزی ہال میں نصب ساڑھے چھ ٹن وزنی فانوس، دوست ملک چین کے مسلمان کاریگروں کی محنت کا شاہکار ہے، جب کہ سفید دیواروں پر آیاتِ قرآنی، پاکستانی خطاط " صادقین" کی فنی مہارت کا نمونہ ہیں۔
اس مسجد کو ایشیا کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا ہے اور اس وقت یہ پاکستان کی دوسری بڑی مسجد ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ مسجد ناگفتہ بہ حالت میں ہے۔ مجھے اہل خانہ کے ہمراہ کئی سال بعد یہاں آنے کا موقع ملا تو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی عظیم الشان مسجد ہے۔ سیاحوں کی بھیڑ سے کسی پکنک پوائنٹ کا سا منظر پیش کر رہی تھی۔ صفائی ستھرائی کا کوئی نظام موجود نہیں تھا۔
مسجد کا حوض ٹھہرے ہوئے پانی کے سبب کسی جوہڑ کی مانند لگ رہا تھا جس میں جا بجا سیاحوں نےشاپرز پھینکے ہوئے تھے۔ وضو خانوں کی غالباً کافی عرصہ سےکسی نے صفائی نہیں کی تھی اور وہاں کیچڑ جماہوا تھا۔ میں ری حکام بالا، محکمہ اوقاف اور عامتہ المسلمین سے اپیل ہےکہ مسجد کے تقدس، صفائی اور پاکیزگی کے خاطر خواہ انتظامات کئے جائیں۔ اسے سیلفی پوائنٹ اور سیر گاہ نہ بنایاجائے۔ سیاحوں کی آمدورفت کے اوقات مخصوص کئے جائیں اللہ تعالیٰ کے گھر سے یوں بے اعتنائی نہ برتی جائے۔
مسجد تو بنادی شب بھر میں، ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی تھا، برسوں میں نمازی بن نہ سکا!