Dua Zahra Ke Waldain Ko Salam
دعازہرہ کے والدین کو سلام
ماہ رمضان میں کراچی کے ایک متمول خاندان نے سوشل میڈیا پہ احتجاج شروع کیا کہ ان کی چودہ سالہ بیٹی دعا زہرہ اغوا ہوگئی ہے۔ چونکہ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں، اس لئے رفتہ رفتہ ہر صاحبِ اولاد نے دامے، درمے، سخنے اس مہم میں حصہ لیا۔ بچی کی تصاویر فیس بک، ٹویٹر، انسٹا ہر جگہ وائرل ہوگئیں۔ کچھ ٹی وی چینلز نے دعا زہرہ کے والدین کو ٹی وی شوز میں بھی بلایا اور شاید ہی کوئی گھر ہو جہاں دعا زہرہ کے والدین کی تکلیف محسوس نہ کی گئی ہو اور دعائیں نہ مانگی گئی ہوں، شاید انھی دعاؤں کا اثر تھا کہ کچھ دنوں بعد دعا زہرہ کے بارے میں خبریں آنے لگیں کہ اس نے پسند کی شادی کرلی ہے اور پھر پولیس نے اسے اور اس کے شوہر کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس اگر کوئی کام کرنا چاہے تو وہ کر کے دکھا سکتی ہے، اس کے پاس صلاحیت ہے۔
بات شاید یہاں ختم ہو جاتی اگردعا کو اس کے والدین کے حوالے کر دیا جاتا لیکن ایسا کرنے کی بجائے دعا سے ایسے بیانات دلواۓ گئے جیسے اسے کسی نے سمجھا پڑھا کر بیان دلوایاگیا ہو۔
ایک بیان تو یہ تھا کہ میری عمر اٹھارہ سال ہے اور میں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ والدین سے زیادہ بچے کی عمر کون جانتا ہے؟ اس بیان کے بعد دعا کے والد نے برتھ سرٹیفکیٹ پیش کیا جس کے مطابق اس کی عمر تقریباً چودہ سال کے لگ بھگ ہے۔ اب عدالت کے حکم پہ جو میڈیکل ٹیسٹ کیا گیا ہے اس کے مطابق بھی بچی کی اتنی ہی عمر یعنی چودہ پندرہ سال ہے۔۔
دعا کی گمشدگی کے بارے میں اہم بات یہ ہے کہ دعا کے گھر کے آگے گلی کے کناروں پر تین سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں لیکن دعا کی گمشدگی کے وقت کی ویڈیو تینوں کیمروں سے غائب ہے۔ دعاکے والدین سندھ ہائی کورٹ میں اور پھر سپریم کورٹ تک گئے ہیں لیکن بیٹی کی بازیابی سے تاحال محروم ہیں۔ دعا کی والدہ کورٹ میں میری بچی، میری بچی کی دلدوز صدائیں دیتی، روتی ہوئی بے ہوش ہوگئیں۔ دعا زہرہ کیس کے بارے میں پریشانی یہ ہے کہ اسے محبت کی کہانی کا رنگ دیا جارہا ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہے جس پہ فریب کی ملمع کاری کی گئی ہے۔
دعا کے بارے میں ظہیر اور اس کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ دعا خود کراچی سے لاہور آئی، جبکہ اکیلی بچی اتنا طویل سفر کر ہی نہیں سکتی۔ پھر دعا کا اپنا بیان ہے کہ وہ گھر سے کچھ لے کے نہیں نکلی تو پھر ٹیکسی کا کرایہ کس نے ادا کیا جبکہ راستے میں ٹول ٹیکس بھی دینا ہوتا ہے؟ اگلی بات وہ کہتے ہیں کہ دعا سیدھی پنجاب یونیورسٹی پہنچی اور اسے ظہیر کا نمبر یاد تھا، اس نے کسی سٹوڈنٹ سے موبائل لے کے ظہیر کو کال کی۔ دعا اتنی کمسن ہے کہ اس کی والدہ کے بقول اسے اپنے والد کا نمبر بھی یاد نہیں ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دعا جس دن پنجاب یونیورسٹی پہنچی وہ اتوار کا دن تھا جب یونیورسٹی بند ہوتی ہے۔ تیسرا پوائنٹ یہ ہے کہ بقول ظہیر کی والدہ کہ دعا خود کراچی سے لاہور آئی تھی، بالفرض اگر کسی کی بیٹی خود بھی آجاۓ تو شریف لوگ بچی کے والدین سے بات کرتے کہ آپ کی بیٹی یہاں ہے کیوں کہ ہمارے معاشرے کی روایت ہے کہ ہمسایوں کا پالتو جانور بھی آجاۓ تو فون کرکے ہمسائے کو بتایا جاتا ہے۔ مگر ظہیر اور اس کے گھر والے دعا کو لے کر ایک شہر سے دوسرے شہر بھاگتے رہے اور تیزی سے جگہیں بدلتے رہے کیوں کہ ہر جگہ پولیس انھیں ڈھونڈ رہی تھی۔
آفرین ہے دعا زہرہ کے والد پر کہ انھوں نے بیٹی کے بارے میں اتنے منفی پروپیگنڈہ کے باوجود ہمت نہیں ہاری اور نہ صرف پولیس اور دیگر قانونی اداروں کو متحرک کئے رکھا بلکہ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی بھرپور مہم چلائی۔ ان کے صبرو ہمت اور تقریباً تین ماہ کی ان تھک کوششوں کی وجہ سے دعا کے اغوا کار مجبور ہوکے اسے منظر عام پہ لے آئے چاہے اس کے لئے انھیں نکاح کا ڈرامہ کرنا پڑا۔
پاکستان کے قانون کے مطابق اتنی چھوٹی بچی کا نکاح ممکن نہیں ہے۔ شرعی لحاظ سے بھی ولی کے بغیر بیٹی کا نکاح نہیں ہوتا۔ پولیس کی تحقیقات کے نتیجے میں یہ بھی انکشاف ہوا جب نکاح خواں غلام مصطفیٰ کو پولیس نے اپنی تحویل میں لے کر پوچھ گچھ کی تو نکاح خواں نے بتایا کہ اس نے تو یہ نکاح پڑھایا ہی نہیں اور اس کے دستخط شدہ کاغذ کو استعمال کیا گیا ہے!
ایک یو ٹیوبر جس کا چینل سٹرانگ عظمی کے نام سے ہے، اسے ایک دن کسی مالک مکان کا فون آیا کہ دعا زہرہ ان کے مکان میں ہے، جب عظمیٰ وہاں پہنچی تو انتہائی تنگ اور خراب کمرے میں ظہیر کی والدہ، دو بھائی اپنی فیملیوں کے ساتھ دعا کو لے کے وہاں رہ رہے تھے، پھر وہ لوگ وہاں سے بھی کہیں چلے گئے۔ عظمیٰ نے کہا کہ ان کے جانے کے بعد جب وہ اس گھر میں گئی تو اس نے متعدد سرنجیں وغیرہ پڑی دیکھیں، شاید وہ اس بچی دعا کو نشے کے انجکشن لگاتے ہیں لہذا یہ کیس اتنا سادہ نہیں ہے جتنا بظاہر دکھائی دیتا ہے۔
ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں، انٹرنیٹ کے آنے کے بعد ہماری اخلاقی اقدار اور روایات خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ ظہیر کا کہنا ہے کہ اس کی دوستی تین سال پہلے پب جی گیم کھیلتے ہوئے دعا سے ہوئی تھی، یہ اتنا مضحکہ خیز بیان ہے کہ تین سال پہلے دعا صرف دس گیارہ سالہ بچی تھی جسے اس طرح کی دوستی کی ضرورت نہیں تھی۔ معاشی لحاظ سے بھی دعا اچھے خوش حال گھرانے سے تعلق رکھتی ہے جب کہ ظہیر کا گھرانہ دعا کے والد مہدی کاظمی صاحب کے معیار سے بہت پیچھے ہے۔ عقل اس دلیل کو تسلیم نہیں کرتی کہ ایک امیر گھرانے کی بچی کسی غریب اور شکستہ حال گھرانے کے لڑکے کو پسند کرے گی۔
ایک تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ کچھ یوٹیوبرز دعا اور ظہیر کے معاملے کو محبت کی شادی کا رنگ دے کر نوجوان نسل کو ترغیب دلا رہے ہیں کہ اس طرح بھاگ کے شادی کر لینی چاہئے اور والدین کے بارے میں انتہائی نفرت انگیز سوچ پیدا کی جارہی ہے، یہ نوجوان نسل کے لئے زہر قاتل سے بھی زیادہ مہلک ہے۔ دنیا میں ماں باپ سے زیادہ کوئی محبت دینے والا نہیں ہوتا۔ ایک یوٹیوبر ماریہ علی کی تحقیقات کے مطابق جس دن دعا اغوا ہوئی ہے، ظہیر اور اس کے دیگر بھائی، اس سے ایک ہفتہ قبل کراچی میں موجود تھے اور وہ ایک ہوٹل میں مقیم تھے، جہاں سے وہ روزانہ دعا کے گھر کے باہر ریکی کرکے معلوم کرتے رہتے تھے کہ ان کے گھر کون آتا جاتا ہے اور پھر جیسے ہی انھیں موقع ملا، انھوں نے بچی کو اغوا کرلیا۔
اسے زبردستی ٹیکسی میں بٹھا کے نشے کا انجکشن لگادیا گیا اور ان کے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی۔ پھر یہ سب فیملی ہونے کا دکھاوا کرکے دعا کو بے ہوشی کی حالت میں کراچی سے لاہور تک لے کے آئے۔ ان تحقیقات کی روشنی میں دعا کے والدین کا خدشہ درست لگتا ہے کہ یہ اغوا کاروں کا کوئی منظم گروہ ہے اور اس کے پیچھے کچھ مافیاز ہیں، یہ صرف ایک بیٹی کا کیس نہیں ہے۔ دعا کے والد نے کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی بچی کے بیرون ملک سفر پر پابندی لگائی جائے، پاکستانی عوام ایک باپ کی جدوجہد میں ان کے ساتھ ہے!
اسے کرنا تھی بیٹی کی حفاظت
سپاہی سے وہ لشکر بن گیا ہے