Behtareen Shareek e Hayat
بہترین شریکِ حیات
شریکِ حیات کا انتخاب، زندگی کا اہم ترین معاملہ ہے جس پر آئندہ وقت کا دارومدار بھی ہوتا ہے۔ بیوی نہ صرف دکھ سکھ کی ساتھی ہوتی ہے بلکہ نئی نسل کی امین بھی ہوتی ہے۔ حضرت خدیجہؓ، خاص الخاص خوبیوں کی مالک تھیں اور ان کو ربِ کائنات نے اپنے محبوب حضرت محمد ﷺ کے لئے منتخب فرمایا۔ حضرت خدیجہؓ، مکہ مکرمہ کے ایک معزز اور مال دار تاجر گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ آپ کی عفت مآب شخصیت کی وجہ سے طاہرہ کا لقب دیا گیا۔
آپ کا دور بت پرستی کا دور تھا لیکن آپ، اس وقت بھی بت پرستی سے دور رہیں آپ رشتہ داروں کا خیال رکھتیں، غرباء و مساکین کی امداد فرماتیں۔ آپ کے والد خویلد بن اسد، قریش کے مشہور تاجر تھے، انھوں نے اپنی وسیع تر تجارت کا انتظام، اپنی سمجھ دار بیٹی حضرت خدیجہؓ کے سپرد کر رکھا تھا۔ جب آپ کے والد گرامی دنیا سے رحلت فرما گئے تو سب معاملات کی ذمہ داری آپ پہ آن پڑی۔
انھی دنوں حضرت خدیجہؓ کو سامانِ تجارت کو ملک شام کے جانے کے لئے ایک قابل اور امانت دار شخص کی ضرورت تھی۔ اس وقت حضرت محمد ﷺ کو صادق اور امین کے لقب سے پکارا جانے لگا تھا چنانچہ حضرت خدیجہ نے آپ کو یہ پیغام بھیجا کہ اگر آپ میرا مال تجارت، شام تک لے جایا کریں تو دوسرے لوگوں سے دوگنا معاوضہ دوں گی۔ حضور اکرم ﷺ نے اپنے چچا کے مشورے سے یہ پیشکش قبول فرمالی۔ حضرت خدیجہ نے اپنا غلام میسرہ، آپ کے ساتھ کردیا۔
شام کے سفر سے واپس آتے ہوئے ایک یہودی راہب نے آپ کے بارے میں نبوت کے آثار کی گواہی دی۔ دورانِ سفر، میسرہ حضورﷺ کے حسنِ اخلاق، حسن تدبیر، امانت و صداقت سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے یہ حیرت انگیز منظر بھی دیکھا کہ دو فرشتے، اپ کے سر پر ساۓ کے لئے سائبان تانے جارہے ہیں تاکہ دھوپ کی وجہ سے آپ کو تکلیف نہ ہو۔ آپ اس سفر سے وافر منافع کے کر واپس لوٹے۔ میسرہ نے سفر کی روداد حضرت خدیجہؓ سے بیان کی تو وہ بھی متاثر ہوئیں۔
سونے پہ سہاگہ، حضرت خدیجہ نے خواب میں دیکھا کہ چمکتا ہوا سورج ان کے گھر کے آنگن میں اتر آیا ہے، جس سے پورا گھر جگمگا اٹھا ہے ان کے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل نے تعبیر بیان کرتے ہوئے کہا کہ خوش ہوجاو یہ چمکیلا سورج جو تمہارے آنگن میں اترتا دکھائی دیا، یہ نور نبوت ہے جو تمہارے نصیب میں آۓ گا اور تم اس سے فیض حاصل کروگی۔
اس خواب کے چند روز بعد، حضرت خدیجہ نے اپنی سہیلی کے ذریعے حضورﷺکو نکاح کا پیغام بھیجا جسے حضور ﷺ نے اپنے چچا حضرت ابو طالب کے مشورے سے قبول فرمالیا۔ اس وقت حضور ﷺ کی عمر مبارک پچیس برس اور حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس سال تھی اور آپ بیوہ تھیں۔ نکاح کے بعد حضرت خدیجہؓ نے حضور ﷺ کی دل و جان سے خدمت کی۔ غارحرا میں نزول وحی کے واقعہ کے بعد جب آپ گھبراۓ ہوئے گھر تشریف لائے تو وفا شعار بیوی نے آپ کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے بہت تسلی دی اور کہا کہ اللہ آپ کو تنہا نہ چھوڑے گا!
جب حضورﷺ نے دین اسلام کی دعوت کھلے عام دینا شروع کی تو کفار مکہ نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو طرح طرح کی تکالیف سے دوچار کیا۔ ایسے کٹھن وقت میں حضرت خدیجہ، آپ کی بہترین انداز سے غمگساری کرتیں۔ حضورِ اکرمﷺ فرمایا کرتے: کوئی رنج ایسا نہ تھا جو خدیجہ کی باتوں سے آسان اور ہلکا نہ ہوجاتا!
حضرت خدیجہؓ نے قبولِ اسلام کے بعد اپنی دولت کو "اقامت دین" کے مشن کی خاطر حضور ﷺ کے قدموں میں ڈھیر کردیا۔ ایک بار رب العالمین نے حضرت خدیجہؓ کو حضرت جبرائیلؑ کے ذریعے سے سلام بھیجا! بحوالہ بخاری شریف۔
جب تک حضرت خدیجہؓ، زندہ رہیں، آپ ﷺ نے ان کی زندگی میں دوسری شادی نہیں کی۔ حضرت خدیجہؓ سے آپ کی چار بیٹیاں اور دوبیٹے تھے۔
حضرت خدیجہؓ کی زندگی اور خدمات ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ ام المومنینؓ کے عظیم کردار، اخلاق حسنہ، جاں نثاری اور صبروتحمل کی مثالوں کا بار بار نہ صرف مطالعہ کرنے کی اشد ضرورت ہے بلکہ اپنی نوجوان نسل کو بھی ان روشن مثالوں سے آگاہ کرنا چاہیے۔