Asaye Musa
عصاۓ موسیٰ
عصر حاضر میں متوسط طبقہ بہت مشکل زندگی گذار رہا ہے۔ کہیں بچوں کے تعلیمی اخراجات آسمانوں کو چھو رہے ہیں۔ کہیں دفاتر اور کارخانہ میں سازشی عناصر موجود ہیں، کہیں قریبی رشتے دار جینا محال کئے دیتے ہیں۔ بعض اوقات انسان کا جی چاہتا ہے کہ اس کے پاس کوئی جادو کی چھڑی آجائے جسے وہ گھمائے اور چشم زدن میں سب کچھ ٹھیک ہوجائے۔ لوگ جلد بازی میں اپنے مقاصد کو پانے کے لئے شارٹ کٹ تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں، جائز ناجائز کی پہچان بھلا دی گئی ہے۔
انسان میں صبر وتحمل عنقا ہے۔ بعض لوگ تو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے عاملوں اور جادوگروں کے آستانوں پر جانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ عامل، نجومی اور جادوگر انسانی فطرت کی کمزوریوں کو جانتے ہیں۔ ناقص علم والے حضرات اور خواتین اپنی مشکلات لے کر ان آستانوں پر چلے جاتے ہیں۔ وہ عامل کبھی تعویذ دھاگہ دیتے ہیں، کبھی سوٹیاں مار کے جن اتارتے ہیں کبھی سائل سے قبرستان میں جا کر کوئی عمل کرنے کو کہتے ہیں۔ جادو توڑنے کے عوض بھاری معاوضہ لیا جاتا ہے۔ (ماسوائے چند بندگان خدا کے جو مخلوق کو تکلیف سے نجات دلوانے کے لیے قرآنِ پاک سے علاج کرتے ہیں)۔
بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ خیر و شر تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے مگر تدبیر جائز طریقے سے کریں۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور وہ لگے ان چیزوں کی پیروی کرنے جو شیاطین، سلیمانؑ کی سلطنت کا نام لے کر پیش کیا کرتے تھے حالانکہ سلیمان نے کبھی کفر نہیں کیا، کفر کے مرتکب تو وہ شیاطین تھے جو لوگوں کو جادو گری کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ وہ پیچھے پڑے اس چیز کے جو بابل میں دو فرشتوں، ہاروت و ماروت پر نازل کی گئی تھی حالانکہ وہ (فرشتے) جب کبھی کسی کو اس کی تعلیم دیا کرتے تھے تو پہلے صاف طور پر متنبہ کردیا کرتے تھے کہ "دیکھ ہم محض ایک آزمائش ہیں تو کفر میں مبتلا نہ ہو "۔ پھر بھی یہ لوگ ان سے وہ چیز سیکھتے تھے جس سے شوہر اور بیوی میں جدائی ڈال دیں۔ ظاہر تھا کہ اذن الہی کے بغیر وہ اس ذریعے سے کسی کو بھی نقصان نہ پہنچا سکتے تھے مگر اس کے باوجود وہ ایسی چیز سیکھتے تھے جو خود ان کے لئے نفع بخش نہیں بلکہ نقصان دہ تھی اور انھیں خوب معلوم تھا کہ جو اس چیز کا خریدار بنا، اس کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ کتنی بری چیز تھی جس کے بدلے انھوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا، کاش انھیں معلوم ہوتا" (بقرہ، 102)۔
حضرت بجالہ بن عبید کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے دور میں انھوں نے اپنے فرمان میں لکھا تھا کہ ہر جادوگر مرد عورت کو قتل کردو، چنانچہ ہم نے تین جادوگروں کی گردنیں ماریں۔ (بخاری شریف)۔
معوذتین کی شان نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر بھی جادو کیا گیا تھا جو آپ کی کنگھی کے بالوں پر جادو کی پھونکیں اور گرہیں لگا کر کیا گیا تھا۔ سورہء فلق اور سورہ والناس پڑھ کے اس جادو کا توڑ کیا گیا۔ (بحوالہ تفہیم القرآن از سید ابوالاعلیٰ مودوی)۔
لمحہء فکریہ ہے کہ عصر حاضر کا میڈیا، جادو (magic) کو دلکش بنا کر پیش کرتا ہے۔ بچوں کے لئے بنائی گئی فلم سیریز "ہیری پوٹر" اسی تھیم پر مشتمل ہے۔
قرآن پاک میں حضرت موسیٰؑ کا واقعہ ملتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "پھر فرعون لوٹ گیا اور اپنے ہتھکنڈے جمع کئے، پھر آ گیا۔ موسیٰ نے ان سے کہا: تمہاری شامت آ چکی ہے، اللہ تعالیٰ پر جھوٹ اور افترا نہ باندھو کہ وہ تمہیں کسی عذاب سے ملیا میٹ کر دے۔ وہ کبھی کامیاب نہ ہوگا، جس نے جھوٹی بات گھڑی۔ پس یہ لوگ آپس کے مشوروں میں مختلف رائے ہو گئے اور چھپ کر چپکے چپکے مشورے کرنے لگے"۔ (سورہءطہٰ: 60 تا 63)
"کہنے لگے: اے موسیٰ! یا تو تُو پہلے ڈال یا ہم پہلے ڈالنے والے بن جائیں"۔ (طہٰ: 65)
"حضرت موسیٰؑ نے کہا: "تم ہی پہل کرو"۔
"جب انہوں نے (جادو) ڈالا تو لوگوں کی نظر بندی کر دی اور ان پر ہیبت غالب کر دی اور ایک طرح کا بڑا جادو دکھایا"۔ (الاعراف: 116)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "اچانک موسیٰ کو انکے جادو کی وجہ سے خیال گزرنے لگا کہ انکی رسیاں اور لکڑیاں دوڑ بھاگ رہی ہیں، لہٰذا موسیٰ نے اپنے دل میں ڈر محسوس کیا۔ ہم نے فرمایا: کچھ خوف نہ کر یقیناََ تو ہی غالب و برتر رہے گا اور تیرے دائیں ہاتھ میں جو(عصا) ہے اسے ڈال دے کہ وہ انکی تمام کاری گری کو نگل جائے۔ انہوں نے جو کچھ بنایا ہے، یہ صرف جادوگروں کے کرتب ہیں اور جادوگر کہیں سے بھی آئے، کامیاب نہیں ہوتا"۔ (طہٰ: 66.69)۔ اس وقت حضرت موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنا عصا پھینک دیا۔ جیسے ہی عصا پھینکا تو اس نے ایک زبردست اژدھے کی شکل اختیار کر لی اور جادوگروں کی تمام رسیاں نگل گیا۔
"جادوگر سجدے میں گر پڑے (اور) کہنے لگے کہ ہم ہارون اور موسیٰ کے رب پر ایمان لائے۔ (فرعون) بولا: پیشتر اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں تم اس پر ایمان لے آئے۔ بیشک وہ تمہارا بڑا (استاد) ہے جس نے تم کو جادو سکھایا ہے، سو میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے کٹوا دونگا اور تمہیں کھجور کے تنوں پر سولی چڑھا دونگا۔ اس وقت تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ ہم میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیر تک رہنے والا ہے۔ انہوں نے کہا: جو دلائل ہمارے پاس آ گئے ہیں، ان پر اور جس نے ہمیں پیدا کیا اس پر ہم تجھے ہر گز ترجیح نہیں دیں گے، سو تجھے جو حکم دینا ہے، دے دے اور تُو جو حکم دے سکتا ہے وہ دنیا ہی کی زندگی میں (دے سکتا) ہے۔ بیشک ہم اپنے پروردگار پر ایمان لائے ہیں تاکہ وہ ہمارے گناہوں کو معاف کرے اور جو تو نے ہم سے زبردستی جادو کروایا اور اللہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ جو شخص اپنے پروردگار کے پاس گنہگار ہو کر آئے تو اسکے لئے جہنم ہے جس میں نہ مرے گا اور نہ جیے گا اور جو اسکے روبرو ایمان دار ہو کر آئیگا اور اس نے عمل بھی نیک کئے ہونگے تو ایسے لوگوں کے لئے اونچے اونچے درجے ہیں (یعنی) ہمیشہ رہنے کے باغ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہ اس شخص کا بدلہ ہے جو پاک ہوا"۔ (طہٰ: 70.76)۔
اس سارے واقعہ پر غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کا بادشاہ خود سب سے بڑا سرپرست تھا جادوگروں کا۔ اس میں ایک اہم بات تو حکم الہی ہے یعنی جادو کا توڑ اللہ تعالیٰ کے بتائے گئے طریقے سے کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اپنے بندے اور پیغمبر حضرت موسیٰؑ کے ساتھ تھی۔ دوسری اہم بات حضرت موسیٰؑ کا پاکیزہ، کھرا اور طاقتور کردار تھا۔ وہ اپنی بات کے سچے اور پکے انسان تھے۔ ایک مظلوم کی مدد کرنے کے لئے اس کی لڑائی میں کود گئے، ظالم کو مکا مارا جس سے وہ مرگیا۔ پھر قوم شعیبؑ کی طرف ہجرت کرگئے۔ وہاں کنویں کے پاس کھڑی دو حیادار لڑکیوں کی مدد اس طرح کی کہ دیگر مسافر مردوں کے ہجوم میں، ان کے پیاسے جانوروں کو کنویں سے پانی نکال کر پلا دیا۔ ان لڑکیوں کے والد حضرت شعیبؑ نے انھیں اپنے ہاں ملازم رکھا تو حضرت موسیٰؑ نے اپنی ملازمت کو اتنی محنت فرض شناسی سے سر انجام دیا کہ حضرت شعیبؑ نے انھیں اپنا داماد بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ جب پیغمبری عطا ہوئی تو انھوں نے اپنے ایمان کی تصدیق کے لئے کوہ طور پر خود اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی تمنا ظاہر کی۔ (تفہیم القرآن)۔
کبھی اے حقیقتِ منتظر، نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبینِ نیاز میں!
ان کی پاکیزہ سیرت کے مزید بھی ان گنت پہلو ہیں۔ موجودہ دور کے انسانوں سے مسئلہ پوچھیں تو وہ کہیں گے کہ ہم تو بہت گنہگار ہیں اور فلاں پیر صاحب بہت قریب ہیں اللہ تعالیٰ کے، اس لئے ہم ان کے پاس دم کروانے جاتے ہیں۔ ان کی زبان میں اثر ہے۔ ہمارا ایمان اتنا مضبوط نہیں ہے کہ جنات اور جادوگروں کا مقابلہ کرسکیں۔ ایسے لوگوں سے عرض ہے کہ آپ بھی اپنا ایمان مضبوط کرسکتے ہیں اگر قرآن پاک کو سمجھ کے اس پر عمل کریں۔ ہمارے دور کا معجزہ قرآن پاک ہے مگر ہم اس معجزے کی طاقت سے ناواقف ہیں۔ اگر جادو منتر کے چند بول انہونے کام کرواسکتے ہیں تو قرآن پاک کلام الہی ہے، اسے پکڑ لیں آپ کے پاس سب سے مضبوط عصا آجائے گا جو ہر جادوکا توڑ کرسکے گا!
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان
اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار!