Anaa Ke Bande Na Banain
انا کے بندے نہ بنیں
ہے کون کون اہلِ وفا دیکھتے رہو
دیتا ہے کون کون دغا دیکھتے رہو
انجام ہے تباہی، تکبر ہو یا غرور
ہر شخص بن گیا ہے خدا، دیکھتے رہو
بارشوں کے سیلاب کے بعد اس وقت قوم سیاسی سیلاب کے مدوجذر کا سامنا کر رہی ہے۔ ہر آنے والا دن خبروں کا ایک نیا طوفان لے کر آتا ہے۔ عوام الناس مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں پریشان تھے ہی لیکن سیاسی عدم استحکام نے انھیں مذید پریشان کردیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ پچاس ساٹھ سال کے معمر افراد، غمِ روزگار میں خون پسینہ بہا رہے ہیں جب کہ بیس تیس سالہ بیٹے سوشل میڈیا پہ بحثوں میں سر کھپا رہے ہیں۔
ہر کوئی دوسری پارٹی کو غلط اور اپنی پارٹی کو درست ثابت کرنے پہ تلا ہوا ہے۔ اب یہ بحثیں، انا کی جنگ میں تبدیل ہوگئی ہیں، تعلق داریاں، منہ ملاحظے جو ہمارے بزرگوں کی خاندانی روایات تھیں، وہ بھی اس طوفانِ بلاخیز میں غرق ہوتے نظر آرہے ہیں۔ باہمی احترام، اخلاق و تہذیب جیسی سنہری قدریں کہیں خفا ہوکے چلی گئ ہیں۔ ہر کوئی دوسرے کے عیب دیکھنے میں لگا ہے اور کیچڑ میں پتھر پھینکنے سے اپنا لباس بھی آلودہ کر رہا ہے۔
اس دور میں الہی محبت کو کیا ہوا؟
چھوڑا وفا کو ان نے، مروت کو کیا ہوا؟
اے میری قوم، واپس آجاؤ، خود کو انا کی بھینٹ مت چڑھاؤ، یہ وطن ہم سب کا ہے، ہم کسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں، باہمی لڑائی جھگڑے سے کچھ حاصل نہ ہوگا، یہ ادارے بھی پاکستان کی پہچان ہیں، ان کے خلاف باہم دست و گریبان ہوکے دشمن ملک بھارت کو خود پہ ہنسنے کا موقع نہ دیں، وطن کا امیج خراب نہ کریں۔ آپس کے تعلقات، رشتے ناطے، حقِ ہمسائیگی کو پامال نہ کریں۔
جس طرح ایک چمن کے پھول اپنی خوشبو اور رنگ میں مختلف ہوتے ہوئے بھی ایک باغ کو خوب صورت بناتے ہیں، اس طرح ہم بحیثیتِ قوم ایک دوسرے سے مل کے کام کرنا سیکھیں، طرزِ فکر مختلف ہوسکتی ہے، پسندیدگی کے اصول مختلف ہوسکتے ہیں لیکن یہ سوچیں کہ مل جل کر وطن کو سنبھالنا ہے، اس کی تعمیر کرنی ہے، اسے ترقی کے راستے پہ لے جانا ہے۔
اس دنیائے فانی میں کوئی چیز ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے۔ ہر عروج کو زوال ہے، ہر طاقت کے بعد کمزوری ہے۔ ہر عقلمندی کے بعد نسیان ہے۔ زندہ وہی رہے گا جو دلوں میں زندہ رہے گا۔ باب العلم حضرت علیؑ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک لڑائی میں کسی کافر کے سینے پہ چڑھے اور اسے نیچے گرالیا، جب تلوار چلانے لگے تو اس کافر نے آپ کے چہرے پہ تھوک دیا۔ حضرت علیؑ نے تلوار واپس میان میں ڈالی اور اسے چھوڑ کے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس کافر نے حیران ہوکر وجہ پوچھی تو فرمایا کہ میں شیرِ خدا ہوں، اپنے نفس کا شیر نہیں ہوں! (ماخوذ حکایاتِ رومی)۔
اب اپنی حالت کا موازنہ، حضرت علیؑ شیرِ خدا سے کرلیں۔ ہر وقت اپنی بڑائی ثابت کرنا ضروری نہیں ہوتا، کبھی جھک کے رشتے ناطے کو بچا لینا بھی بڑائی ہوتا ہے۔ میرا ہمسایہ جس پارٹی کا سپورٹر ہو، اس کےحق و باطل پر ہونے کی جانچ رب العالمین نے کرنی ہے لیکن اگر میرا ہمسایہ رات کو بھوکا سوگیا تو اس کا سوال رب نے مجھ سے کرنا ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ رب العزت فرماتا ہے کہ کبریائی میری چادر ہے جو اسے مجھ سے چھینے گا، میں اسے عذاب دوں گا۔ (بحوالہ مسلم، بخاری)
اگر دل میں تھوڑا بہت بھی اخلاص رکھتے ہیں تو انا کے سنگھاسن سے نیچے اتریں اور قوم کے اجتماعی مفاد کے بارے میں سوچیں۔ خدارا نفرتوں اور تعصبات کی گھٹن سے باہر نکلیں، رب پہ توکل کے ساتھ اپنے حصے کے فرائض خوش اسلوبی سے سرانجام دیں، تاکہ قوم سانس لے سکے، پاکستان زندہ باد۔