Afiya Se Rishta Kya?
عافیہ سے رشتہ کیا؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی، عالم اسلام کا قیمتی سرمایہ ہیں، وہ پاکستان کی بیٹی اور قوم کی آبرو ہیں۔ ان کی نسبت حضرت ابو بکر صدیقؓ سے ہے، یہ جان کر ان کا احترام دوچند ہوجاتا ہے مگر افسوس صداقت کا پرچم تھامنے والے اکثر آزمائشوں کی بھٹی میں ڈالے جاتے ہیں، انھیں شمع کی مانند جلنا پڑتا ہے اور کبھی خاک بن کے بکھرنا پڑتا ہے لیکن ان کے کردار کی خوشبو کو پھیلنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔
رب العالمین نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سیرت و کردار کی ان خوبیوں سے مالا مال کیا تھا جن کی بدولت وہ دینی علوم اور دنیاوی تعلیم کے عروج تک پہنچیں۔ حافظہء قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ امریکہ کی صف اول کی یونیورسٹیوں MIT اور Brandies سے پی ایچ ڈی کرنے تک ان کا شاندار ریکارڈ اس بات کی علامت ہے کہ وہ کوئی عام خاتون نہیں تھیں۔ قدرت ان سے کوئی خاص کام لینا چاہتی تھی اور وہ خاص کام دین کی ایمبیسیڈر بننا تھا۔ ڈاکٹر عافیہ اپنی خوبصورت شخصیت، اعلی اخلاق اور حسنِ کردار کی بدولت، لوگوں کو اپنی گفتگو سے متاثر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی تھیں اور اس صلاحیت کو انھوں نے دین کی تبلیغ کے مشن کی خاطر فی سبیل اللّٰہ استعمال کیا۔
ڈاکٹر عافیہ نے پاکستان میں انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ اینڈ ٹیچنگ قائم کیا تھا۔ وہ رقیق القلب ہونے کے باعث انسانیت کے دکھوں اور مسائل کے بارے میں فکرمند رہا کرتیں۔ انھوں نے جہاں بچوں کے لئے تربیتی کلاسز کا انعقاد کیا بلکہ اولڈ ویمن ہاؤس میں اعزازی خدمات بھی انجام دیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکی جیلوں میں موجود قیدیوں تک اسلام کی دعوت پہنچائی اور قیدیوں کو انگریزی زبان میں ترجمہ والے قرآن پاک تقسیم کئے۔ جب ڈاکٹر عافیہ کی کچھ وجوہات کی بنا پر اپنے شوہر سے علیحدگی ہوگئی تو وہ اپنے تین معصوم بچوں کو لے کر پاکستان آگئیں۔ 30 مارچ 2003ء کو وہ کراچی سے اسلام آباد جانے کے لئے روانہ ہوئیں مگر امریکی ایجنسیوں نے انھیں راستے سے ہی اغوا کرلیا۔
اس وقت پاکستان پر جنرل پرویز مشرف حکمران تھے۔ ڈاکٹر عافیہ کا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل کرکے بھلادیا گیا۔ وقت گزرتا گیا، پانچ سال بعد، امریکی صحافی آیون ریڈلی نے 6 جولائی 2008ء کو ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ افغانستان کے بگرام ائر بیس پر قیدی نمبر 650، ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہیں جنہیں امریکی فوجیوں کی جانب سے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
گوانتاناموبے کے ٹارچر سیل سے رہا ہونے والے معظم بیگ نامی قیدی جو پاکستانی اور برطانوی شہریت رکھتے تھے، انھوں نے بتایا کہ جب وہ بگرام جیل میں قید تھے تو قید خانے میں ایک قیدی خاتون کے چیخنے چلانے کی آوازیں آتی تھیں جس کا نمبر 650 تھا، اس مسلمان بہن کی کرب ناک صداؤں اور بھائیوں کو پکارنے کی وجہ سے تمام مسلمان مرد قیدی بھوک ہڑتال کردیا کرتے تھے اور راتوں کو سو نہیں پاتے تھے۔ جب میڈیا پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں خبریں نشر ہوئیں تو امریکہ نے ڈاکٹر عافیہ کو بگرام سے امریکہ منتقل کردیا جہاں ان پر امریکی فوجی پر گن چلانے کا الزام عائد کردیا گیا حالانکہ ڈاکٹر عافیہ خود شدید زخمی حالت میں تھیں۔
ستمبر 2010ء میں انھیں چھیاسی سال عمر قید کی سزا سنادی گئی، حالانکہ ڈاکٹر عافیہ پہ کوئی جرم ثابت نہیں ہوسکا تھا!ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سنائی گئی سزا سے امریکی اخلاقیات، انسانی حقوق کے دعوے اور امریکی عدالتوں کی اصل حالت کا بھانڈا تو پھوٹ ہی گیا لیکن پاکستانی حکمرانوں کی بے حسی بھی روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی جنہوں نے پاکستانی شہری، نہتی خاتون کے اغوا، ٹارچر سیل میں تشدد اور امریکی عدالت کے فیصلے کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ امریکی کانگریس کی سیاہ فام رکن سنتھیا نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ اگر انھیں پاکستان کا ویزہ بروقت مل جاتا تو عافیہ صدیقی سزا سے بچ سکتی تھی۔ میں عافیہ صدیقی کے حوالے سے اہم معلومات لے کر پاکستان جانا چاہتی تھی لیکن مجھے ویزہ جاری نہیں کیا گیا۔
2008ء میں مقدمے کی سماعت کے دوران ڈاکٹر عافیہ کا یہ بیان بھی قابلِ غور ہے کہ ایک یہودی سازش مجھے انصاف دلانے کے راستے میں حائل ہے اور یہ کہ نائن الیون کے واقعہ میں خود اسرائیل ملوث ہے۔ ڈاکٹر عافیہ نے 6 جولائی 2009ء کو عدالت میں پیش میں یہ بھی بتایا کہ میرے قدموں میں قرآن پاک ڈالا جاتا ہے اور مجھے کہا جاتا ہے کہ نعوذ باللہ اس پر چلوں۔ میں دنیا میں امن و آشتی پھیلانا چاہتی ہوں اور امریکہ سمیت کسی ملک کے خلاف نہیں ہوں۔
کسی آزاد ملک میں مجرم کو گرفتار کرنے کے کچھ اصول ہوتے ہیں، عدالتی نظام ہوتا ہے، کسی کے خلاف ثبوت و شواہد موجود ہوں تو مقدمہ چلایا جاتا ہے لیکن یوں کسی کو راہ چلتے اغوا کرلینا، خود اس شخص کی بے گناہی کی دلیل ہے۔ گزشتہ سالوں کئ ایسے لاپتہ افراد کو رہا کیا گیا ہے جن کو عقوبت خانوں میں تشدد کا نشانہ بنانے کے باوجود ان کا ریکارڈ صاف نکلا اور انھیں رہا کردیا گیا مگر ابھی بھی لاپتہ افراد کی ایک طویل فہرست موجود ہے جن کے ماں باپ، بچے، بہن بھائی ان کی جدائی میں تڑپ رہے ہیں۔
چند روز قبل ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ عصمت صدیقی، اپنی بیٹی کی راہ تکتے تکتے دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ موجودہ پاکستانی حکومت پر معصوم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکی جیل سے رہائی قرض ہے۔بقول شہلا صدیقی
عورت ہوں مگر صورت کہسار کھڑی ہوں
ایماں کے لئے قوت باطل سے لڑی ہوں
پتھرا گئیں آنکھیں میری، تکتے ہوے راہیں
میں خالد و قاسم کی لئے آس کھڑی ہوں!