Dil Ke Dareeche Mein Utarti Chandni (1)
دل کے دریچے میں اترتی چاندنی(1 )
اس چاندنی نے انسان کی کتنی تاریک راتوں کو روشن کیا ہو گا؟ یہ راز کوئی بھی تو نہیں جانتا۔ لیکن میں تو فقط یہ چاہتا ہوں کہ یہ روشنی ان نہاں خانوں تک بھی پہنچے، جہاں محبت کے جلائے گئے چراغ بجھ چکے ہیں، جس بت کدے میں فقط چند مورتیاں رکھی ہیں، جنہوں نے برسوں سے کسی بچاری کو نہیں دیکھا۔
لاکھوں میل دور سے آنے والی اس ٹھنڈی چاندنی کو میں اپنے سینے کی ان گہری گھاٹیوں میں اتار لینا چاہتا ہوں، جہاں گُھپ اندھیرا ہے۔ آسمان پر چاند کھڑا مسکرا رہا ہے۔ کبھی ٹکڑوں میں بٹے سرمئی بادلوں کی اوٹ میں چلا جاتا ہے اور کبھی کسی مرمریں چہرے والی حسینہ کی طرح آہستہ آہستہ رخ سے نقاب اتارتے ہوئے اپنا منور مکھڑا لیے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔
اپنے پیروں میں گھنگرو باندھے سردیوں کی آمد کی اطلاع دینے والی شمال کی تازہ ہوا بلا تکلف گلے ملتی جا رہی ہے، جسم میں جھرجھری پیدا کرنے والے ٹھنڈے بوسے کی طرح گردن سے لپٹتی جا رہی ہے، نرم گداز انگلیوں کی طرح بالوں کو بے ترتیب کرتی جا رہی ہے۔ چاند کی روشنی میں دور دور تک پھیلی چاول کی فصلیں دکھائی دے رہی ہیں۔ آج اونچی نیچی چھتوں پر چارپائیاں بھی کم ہی دکھائی دے رہی ہیں۔ شاید لوگ آج چھتوں کی بجائے کمروں، برآمدوں یا ڈیوڑھیوں میں سوئیں گے۔
گاؤں کے پُرسکون ماحول کی یہ ایک طلسماتی رات ہے، صرف ستاروں کی آنکھیں کھلی ہیں لیکن وہ بولتے کب ہیں، ہر طرف ایک سکوت چھایا ہوا ہے، سناٹا ہے اور تیز ہوا کی سرسراہٹ ہے۔ کبھی کبھار اس پُر اسرار سناٹے کو کسی بھولی بھٹکی ٹٹیری (ٹٹیولی) کی آواز توڑ رہی ہے۔ ﭨِﭧ ﭨِﭧ ﭨﭩﺎ، ﭨِﭧ ﭨِﭧ ﭨﭩﺎ کا شور مچاتی ہوئی یہ نازک سی ٹٹیری اپنی ڈار سے جدا ہو چکی ہے۔ میں چھوٹا ہوتا تھا تو یہی سوال پوچھا کرتا تھا کہ یہ کیوں چاندنی راتوں میں پاگلوں کی طرح چکر کاٹتی اور شور مچاتی رہتی ہے، یہ اپنے گھر کیوں نہیں جاتی؟
تایا ابو بڑے پیار سے سمجھایا کرتے تھے کہ یہ اپنے خاندان سے بچھڑ گئی ہے اور یہ اپنے ساتھیوں کو آوازیں دیتی رہتی ہے کہ تم کدھر ہو، تم کدھر ہو؟ اب میں سوچتا ہوں کہ انسان بھی تو ایسا ہی کرتے ہیں۔ جن سے محبت ہوتی ہے، جو آپ کے دکھ سکھ کے ساتھی ہوتے ہیں، جدائی کے بعد آپ ساری زندگی انہی کے تذکرے کرتے ہیں، انہی کی باتیں ہوتی ہیں اور بند ہونٹوں کی سلاخوں کے پیچھے خودکشی کرنے والی خاموش سسکیاں انہی کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہیں۔
یہ صرف پچیس برس پہلے کی بات ہے کہ ہم اکتوبر میں ہی رضائیاں نکال لیتے تھے۔ اکتوبر کی شامیں اور صبحیں اپنے ساتھ خنکی بھری سرد ہوائیں لے کر آتی تھیں۔ اکتوبر، نومبر میں دھان کی فصل کٹتی تھی تو ہر کوئی پرالی (چاول الگ کرنے کے بعد بچ جانے والے سٹرا) اپنی اپنی چھتوں یا گھر کے کسی کونے میں رکھ لیتا تھا۔ صبح صبح ٹھنڈ لگتی تو چادر اوڑھے اور ٹھٹھرتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ چائے کی پیالیاں ہاتھوں میں پکڑ کر پرالی پر بیٹھ جاتے۔
بارش کی وجہ سے سردی زیادہ ہوتی تو حویلیوں یا کچے صحن والے گھروں میں ہی پرالی اور اُپلوں کو آگ لگائی جاتی اور ہاتھ سینکنے کا عمل شروع ہو جاتا۔ جن کو حقہ پینے کا شوق ہوتا، وہ وہیں سے حقے کے لیے آگ لے لیتے، حقہ تازہ کرتے اور پھر گُڑ گُڑ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ لیکن یہ پچیس برس پہلے کی بات ہے۔ تب کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ مستقبل کا اکتوبر اتنا گرم ہو گا۔ تب تو کوئی موسمیاتی تبدیلیوں کے نام تک سے واقف نہ تھا۔
ابھی آدھ گھنٹہ پہلے تک بڑی باجی اور امی چھت پر میرے ساتھ ہی بیٹھی تھیں۔ ان کو پتہ ہے کہ میں ماضی کے قصے بڑے شوق سے سنتا ہوں اور وہ دونوں ہی میری انگلی پکڑ کر ماضی کی سیر کروا رہی تھیں۔ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ میں اپنی چھت پر ہوں لیکن میری روح پچاس ساٹھ سال پہلے کے کچے مکانوں کے اُن صحنوں میں پہنچ چکی ہے۔
جہاں سُکھ چَین کے گرے پتے بکھرے پڑے ہیں، اُپلوں سے آگ جلائی جا رہی ہے، چارپائیوں پر تکیے رکھ دیے گئے ہیں، ایک طرف بکریاں بندھی ہوئی ہیں، مٹی والی بڑی ہنڈیا میں دودھ کاڑھا جا رہا ہے، کوئی نلکے سے منہ ہاتھ دھو رہا ہے، کوئی بھینسوں کے لیے چارہ کاٹ رہا ہے اور بچے دنیا و مافیہا سے بے خبر کوکلا چھپاکی کھیل رہے ہیں۔
امی بتا رہی تھیں کہ شادی کے بعد وہ پھمہ سراء آئیں تو بے بے ورک نے انہیں چائے پر بلایا۔ وہاں چائے کی پیالیوں کے ساتھ بھی کچھ رکھا ہوا تھا۔ انہیں اور دادی کو پتہ ہی نہ چل رہا تھا کہ اسے کھاتے کیسے ہیں؟ وہ شرمندگی سے پوچھ بھی نہیں رہی تھیں کہ اسے کیوں پلیٹ میں رکھا ہے؟ پھر بے بے ورک نے خود ہی بتایا کہ اسے رس کہتے ہیں اور اسے چائے میں ڈبو کر کھاتے ہیں۔ چائے بھی اس وقت صرف گُڑ کی بنتی تھی اور چینی ایک لگژری آئٹم تھی۔
اس زمانے میں زیادہ تر لوگ اپنا سفر پیدل، گھوڑوں یا پھر سائیکلوں پر کرتے تھے۔ امی کہتی ہیں کہ نہروں کے ساتھ ساتھ چلنے والے کچے راستے بنے ہوتے تھے، میکے یا کسی دوسرے رشتہ دار کے پاس جانے کے لیے وہ سب تہجد کے وقت سر پر گٹھڑیاں اٹھائے پیدل نکل کھڑے ہوتے اور پچاس پچاس میل پیدل سفر کرتے۔ پھمہ سراء سے پیدل چلتے تو ٹھٹھہ قلندر شاہ (امی کے گھر) تک جاتے۔ اندھیرے میں وہ تواتر سے یہ آواز لگاتے جاتے، "جاگتے رہنا، ہم مسافر ہیں"۔
موسم خراب ہوتا تو رات کے وقت کسی بھی گاؤں میں ٹھہر جاتے تھے۔ گاؤں میں پہنچ کر مسافر یہ آواز لگایا کرتے، "ہم مسافر ہیں، رات رہنا ہے"۔ کسی نہ کسی گھر میں مسافروں کو ٹھہرا لیا جاتا تھا، کھانے اور دودھ وغیرہ سے تواضع بھی کی جاتی، پنجاب کے زیادہ تر دیہات کا یہی رواج تھا۔ امی جی چمکتی آنکھوں سے یہ قصے سنا رہی تھیں، شاید انہیں اپنا ماضی، اپنے سیاہ بال، اپنے ماں باپ، ان کی محبت اور اپنی سَکھیاں یاد آ رہی تھیں۔