Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ibn e Fazil/
  4. Sanp Serhi

Sanp Serhi

سانپ سیڑھی

لوہے کے نسبتاً موٹے سریے سے تار بنانے کے عمل کو وائر ڈرائنگ wire drawing کہتے ہیں۔ وائر ڈرائنگ کی بیشتر فیکٹریاں مشاہرے پر کام کرتی ہیں۔ یعنی کوئی بھی بیوپاری اپنا مال لے کر آئے اور فی ٹن مجوزہ رقم دےکر اپنا مال تیار کروا لے۔ سال انیس سو اٹھانوے میں نواز شریف صاحب نے اس وقت واپڈا میں معاشی معاملات کی زبوں حالی کے باعث فوج کی مدد طلب کی۔ ایک کپتان علاقے کے ایس ڈی کے ساتھ مختلف علاقوں میں فیکٹریوں کا دورہ کرتا اور بجلی چوری اور دیگر بے ضابطگیوں کا اپنے تئیں کھوج لگانے کی کوشش کرتا۔

اس وقت وائر ڈرا کروانے کی مزدوری فی ٹن چھ سو روپے رائج تھی۔ جب فوجیوں کے ہمراہ سروے شروع ہوا تمام وائر ڈرا کی فیکٹریاں بند ہوگئیں۔ کئی ہفتے بند رہنے کے بعد اور ان کے مالکان کے آپس میں بہت طویل صلاح مشورے کرنے کے بعد جب دوبارہ کھلیں تو مزدوری بائس سو روپے فی ٹن مقرر ہوئی۔ مطلب سو فیصد فیکٹریاں چوری کی بجلی پر چل رہی تھیں۔ جیسے ہی انہیں بل دینے پر پابند کیا گیا چھ سو روپے فی ٹن میں وائر ڈرا کرنا ممکن نہ رہا مجبوراََ نئے نرخ کا اجراء کرنا پڑا۔

یہ ہمارا عمومی معاشرتی چلن ہے۔ کسی محلے کی بڑی گلی، سڑک پر یوٹرن سے فاصلہ پر ہو تو سارا محلہ ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے الٹی طرف سے آتا جاتا ہے اور یہ بے قاعدگی باقاعدہ تسلیم کرلی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ پولیس کے اہلکار بھی اس پر اعتراض کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ٹیکس رجسٹریشن کے بغیر کام کرنا یا رجسٹریشن کروا کر انتہائی کم ٹیکس دینا بھی اسی عمومی معاشرتی چلن کا حصہ ہے۔

پچھلے دنوں کراچی میں عدالت نے غیر قانونی عمارتوں کے متعلق نوٹس لیا تو لگا شاید شہر بھر کی عمارتیں مسمار کرنا ہوں گی، کہ سب کی سب غیر قانونی تھیں۔ یہی حال ہر بڑے شہر کا ہے۔ کچھ علاقوں کو چھوڑ کر شہر بھر کی عمارتیں بنا نقشہ جات کے بنی ہیں کبھی قانون کی عمل داری لازم ہوئی تو ہر طرف کھنڈرات کے ڈھیر ہوں گے۔ شہروں میں تجاوزات، رہائشی علاقوں کا تجارتی استعمال، سرکاری اراضی پر قبضے وغیرہ روزمرہ کے مشاہدے ہیں۔

اس کے علاوہ بجلی، گیس اور دیگر سرکاری محکمہ جات میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی بے قاعدگیاں اس پر سوا ہیں۔ یہ عالم تو عوام کا ہے تو خواص اور اثرورسوخ رکھنے والوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ خوامخواہ قانون پر عملدرآمد کرتے پھریں؟ جس کی سب سے بڑی مثال یہ ہےکہ ہمارے ہر دل عزیز سابق وزیر اعظم عمران خان صاحب کا گھر بھی جرمانہ ادا کرکے ریگولیرائز کروانا پڑا تھا، کہ قانونی بے قاعدگی اس میں بھی تھی۔ اور ہم نے بحیثیت قوم اس کو قبول کرلیا ہے۔

اب دیکھیں یہی سب لوگ جو زندگی کے ہر معاملے میں قانون پر عمل درآمد کو عملی طور پر غیر ضروری سمجھتے ہیں، جب کسی حکومت کا حصہ بنتے ہیں اور کسی بات پر اصولی موقف پر ڈٹ جانے کی کوشش کرتے ہیں تو ایک تو وہ خود بھی اندر سے کمزور ہوتے ہیں اور دوسرا مخالفین یا دیگر ادارے جیسے عدلیہ یا اسٹیبلشمنٹ ان کی ان بے قاعدگیوں کو بنیاد بناکر یا تو اپنی مرضی کا فیصلہ لے لیتے ہیں یا نااہل قرار دلوا دیتے ہیں۔

عمران خان صاحب بدعنوانی کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔ ان کو تیس فیصد ووٹ پڑے۔ کیا ان کے سارے چھوڑ، آدھے ووٹر بھی ایسے ہوں گے جو اپنے دائرے میں کبھی اوپر بیان کی گئی بدعنوانی کے مرتکب نہ ہوئے ہوں؟ ووٹر تو چھوڑیں ان کے اپنے معتمد خاص اور کئی معزز ممبران قومی و صوبائی اسمبلی پر مختلف چارجز لگے۔ بلکہ کئی وزرا تک سے انہوں نے خود استعفے بھی لیے۔ ایسے لوگوں کے لیے اصولوں کی پاسداری یا حق پر کھڑے رہنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔

پچھلے پچاس سال سے ہم نے وطن عزیز میں یہی دیکھا ہے۔ عمران خان کے دور حکومت کے آغاز میں سینیٹ میں برتری کے لیے چودہ ووٹ درکار تھے، مل گئے۔ اب عدم اعتماد ہدف تھی ہوگئی۔ گویا ہمارے نظام سے الیکش جیت کر آنے والے سو نہیں تو نوے فیصد نمائندے ایسے ہیں جن کے اصولی موقف وہی ہے جو طاقت کے منبع کا اصول ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسے میں ہم اس بھنور سے نکلیں کیسے؟ تو میرے خیال میں اس کا حل ہے ایک عدد قومی این آر او۔

قومی سطح پر ہم سب ایک نئی شروعات کریں۔ پچھلی سار ی بے قاعدگی دفن ہو اور آئندہ کے لیے سخت قوانین اور سزاؤں کا اطلاق ہو۔ سب پارٹیوں پر مشتمل ایک قومی حکومت بنے، نیک نیتی پر مبنی آئینی اصلاحات جس میں بے حد درست اور فول پروف ووٹنگ کا طریقہ کار طے کیا جائے جس کے نتائج طاقت کے مراکز بھی تبدیل نہ کرسکیں اور جس پر سب کو اعتماد ہو۔ پھر لوگ بھی حتی الامکان صاف ستھرے کھرے لوگوں کو ووٹ دیں۔

اور ان عوامی نمائندوں کے سروں پر پچھلے گناہوں کی فائلوں کی تلواریں نہ لٹک رہی ہوں تب ہی ممکن ہے کہ اسمبلیاں کٹھ پتلیوں سے آزاد ہوں اور جمہوریت مذاق، کھیل یا گالی نہ ہو بلکہ ہمارے لیے اعزاز اور طاقت کا باعث ہو۔ اور یہی طاقتور جمہوریت اداروں کو ان کی حدود میں رکھ سکے گی، ورنہ خاکم بدہن یہی سانپ سیڑھی کا کھیل ہماری آنے والی نسلوں کا بھی مقدر رہے گا۔

Check Also

Haqeeqi Tasawuf Aur Faqeer Logon Ki Baatein (1)

By Amir Khakwani