Mabadolat
مابدولت
ہم یعنی ما بدولت ظلِ سبحانی جناب احمد سلیم فاضل صاحب المعروف ابن فاضل قدسرہ و مدظلہ، رحمۃ اللہ علیہ ملک کی نامور جانی مانی مادی روحانی اوربہت بڑی کاروباری وسماجی شخصیت ہیں۔ نامور اس لیے کہ نام پیدائش کے اگلے روز ہی رکھ دیا گیا تھا۔ گویا کہ تا حیات ہمارے ماتھے کا جھومر رہنے والے اس انتخابِ غیر مترقبہ میں ہماری منشا ورضا مندی ہرگز شامل نہ تھی اور غالباََ نہ ہی ہم سے اس قدر اہم ملکی امر کے بارے میں رائے لی گئی تھی۔
تاہم واقفانِ حال کے ایک گروہِ کبیر کا گمانِ واثق ہے کہ ہم سے رائے حاصل کی گئی تھی لیکن اس وقت ہمارا جواب کسی کی سمجھ میں نہیں آیا سو یکطرفہ فیصلہ کر دیا گیا۔ اور ہمیں بھی یہی گمان قرینِ صدق دکھائی دیتا ہے کیونکہ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے خیر سے آج بھی اہم قومی اور بین الاقوامی امور پر ہماری پر مغز آرا کسی کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ الحمدلله!
جانی مانی اس لیے کہ جس جس نے بھی کہا "جانی"۔ اس کی پھر ہرہر بات مانی۔ اور خیال رہے کہ مادی مادہ (ٹھوس مائع اور گیس والا) سے ہے نر مادہ والا سے نہیں۔ روحانی شخصیت ہونے کا احساس ہمیں تب ہوا جب کثیر تعداد میں مہربانوں نے تواتر سے کہنا شروع کردیا کہ آپ تو سوہانِ "روح"ہیں۔ اور بڑی شخصیت ہونے کا احساس ترازو سے لے کر درزی تک گاہے دلاتے رہتے ہیں۔
عام فرشی غسل خانہ ترازو تو خیر ہماری شخصیت کے بڑے پن کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے البتہ درزی چنن دین کو ہماری بے تحاشہ شخصیت کے احاطہ کیلئے دورانِ کار سانس کی بحالی کیلئے ایک آدھ پڑاؤ کرنا پڑتا ہے۔ خیر سے اواخر مارچ میں باون برس کے ہوچکے ہیں۔ اور آپ کو یہ جان کر اصولی طور پر حیرت یا خوشی وغیرہ بالکل نہیں ہونی چاہیے کہ ہمارا شمار روئے زمین کے ان چند خوش قسمت لوگوں میں ہوتا ہے جو محض باون سال کی عمر میں ہی پوری ساڑھے باون بہاریں دیکھ چکے ہیں، کہ عالمِ آب و خاک میں ہمارا ظہور عین وسطِ بہار میں ہوا اور محض صفر سال کی عمر میں ہم پوری آدھی بہار دیکھ چکے تھے۔
اولین وجوہاتِ ظہور تو یقیناً والدین کی خواہشِ پسر اور عوامل حیاتیات وغیرہ ہی رہے ہوں گے لیکن وسوسہ عدو مبین ہے کہ عالمِ اسلام چونکہ قائد اعظم کے سانحہ ارتحال کے بعد قحط الرجالی کا شکار تھا سو قدرت کوہماری صورت میں رحم آگیا۔ گو کہ یہ وقوعہ بھی ہماری منشا کے برخلاف ہی ہوا تھا اور اس پرہم نے بھی معروف رسمِ اولادِ آدم کو نبھاتے ہوئے رو روکر بر وقت اور پرزور احتجاج کیا تھا لیکن ہماری کسی نے نہ سنی، اور یہ اعزاز ہمیں آج بھی حاصل ہے کہ آج بھی ہماری کوئی نہیں سنتا، بطور خاص بعد از سانحہ عقد!
ابتدائی پرورش شیرِ مادر اور ابتدائی تربیت آغوشِ مادر اور علم و حکمتِ پدر سے ہوئی۔ جی ہاں نصف صدی قبل ابھی فکری دقیانوسیت اور سائنس کی زبوں حالی کا یہی عالم تھا کہ شیرِ مادر کی جگہ ہنوز اعلیٰ ترین علمی، تجرباتی و تحقیقاتی بیش قیمت کیمیائی دودھ نے نہ لی تھی۔ سو شیرِ مادر مادی کے ساتھ ساتھ مابعدالطبیعی پرورش، اخلاقیات اور اعلیٰ معاشرتی اقدار کی ماں سے اولاد کو منتقلی کا ذریعہ مانا جاتا تھا۔
ادھر ماؤں کو بھی ابھی عارضہ سماجی پھیلاؤ لاحق نہیں تھا اور وقت کی سب سے بڑی نسوانی تفریح خواتین کی تلاش و تدارک ِ جوواں کے دوران کی جانے والی گپ شپ اور سب سے زورآور واٹس ایپ گروپ ماسی بختاں کی تندوری ہوا کرتی تھی۔ سو نہ طفلانِ کم سن کو سنبھالنا وبالِ جاں کے زمرے میں آتا تھا اور نہ ہی ڈے کئیر اور پلے گروپ جیسی نعمت ہائے بے مایہ ہی دستیاب تھیں سو صد شکر رحمن کہ پانچ سال تک درس گاہ حدتِ ممتا اور شفقت و سنگتِ پدری رہی۔
بڑے چھوٹے سے برتاؤ، سچ جھوٹ اور حرام حلال کی اہمیت دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح اور صفائی کی اہمیت و دیگر بنیادی امورِ اخلاقیات کے ابتدائی اسباق زبانی اور عملی طور پر اسی درسگاہ سے حاصل کیے جاتے تھے۔ ابتدائی تعلیم کیلیے پانچ برس کی عمر میں گھر کے قریب ترین دستیاب سرکاری سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ کہنے کو اس کا نام ایم سی بوائز پرائمری سکول تھا لیکن عرفِ عام میں اس کو لاہور میں ماضی انتہائی قریب میں نئی صنفِ لحم کر طور پر متعارف کروائے گئے۔
شریف جانور کی مادہ کے پنجابی نام سے پکارا جاتا تھا۔ لوگ اکثر ہم سے پوچھتے ہیں کہ لکھنا کب سے شروع کیا تو حضراتِ گرامی منتظر جواب عرض ہے کہ لکھنا تو ہم نے دو تین سال کی عمر سے شروع کر دیا تھا۔ لکھنے کا اتنا شوق تھا کہ کبھی جھاڑو کے تنکے سے تازہ لپائی کیے فرش پر لکھتے، کبھی کوئلے سے برآمدہ کی دیواروں پر لکھتے اور کبھی تو بڑے بہن بھائیوں کے مشقت سے کئے ہوم ورک پر ہی لکھ ڈالتے۔
یہ الگ بات ہے کہ اس لکھے کو ہم یا اور کوئی پڑھ نہیں پاتا تھا۔ اور اپنی اس کم علمی کی داد کم فہم لوگ کبھی ڈانٹ اور کبھی مار کی شکل میں دیتے۔ البتہ ڈھنگ کا اور قابلِ دادو تحسین لکھنا ہم نے چوتھی پانچویں میں شروع کیا، مضامین، سوانح، تاریخ، فلسفہ، مذہب، کس کس موضوع پر نہیں لکھا اور کیسا خوب لکھا، بس جس مضمون کا کام ملتا تھا، پہلے متعلقہ کتب سے از بر کرتے اور پھر بے تکان لکھ ڈالتے۔ ہاں بے ڈھنگا اور ٹوٹا پھوٹا چند سال ہوئے لکھتے ہوئے
(جاری ہے)