Monday, 18 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hussnain Nisar
  4. Zuban e Such Aur Jhoot

Zuban e Such Aur Jhoot

زبانِ سچ اور جھوٹ

زبان سے لوگوں کو زخم پہلے بھی پہنچائے جاتے تھے۔ گالیاں وجود میں اس لیے آئیں کہ اپنے مخالفین کی تذلیل کی جائے۔ پچھلے 30 برسوں میں ٹیکنالوجی نے اطلاعات اور ابلاغ کا ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ چند دہائی پہلے تاروں والا ٹیلی فون لگانا ایک بہت بڑا مسئلہ ہوا کرتا تھا۔ اعلیٰ افسروں تک جن کی رسائی ہوتی تھی ان کو فون کی سہولت میسر ہو جایا کرتی تھی باقی لوگ اس "نعمت" سے محرم رہا کرتے تھے۔

ٹیلی فون لگ جائے تو ایک شہر سے دوسرے شہر یا ایک ملک سے دوسرے ملک رابطہ کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ ٹرنک کال بک کرانے کے بعد گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔ تب کہیں جا کر چند منٹوں تک بات کرنی ممکن ہو سکتی تھی۔ خط و کتابت کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا خط روانہ کرنے اور جواب وصول کرنے میں ہفتوں بلکہ مہینوں بھی لگ جایا کرتے تھے۔ تار خوف کی علامت ہوا کرتا تھا کیوں کہ کسی بڑے واقعے سے مطلع کرنے کے لیے اس ذریعے کو کام میں لایا جاتا تھا۔

جب تک یہ صورت حال تھی اس وقت تک زبان کو بہت بڑے پیمانے پر تذلیل اور تضحیک کے لیے استعمال کرنا عملاً ممکن نہیں تھا۔ اب معاملہ بالکل تبدیل ہو گیا ہے، ہر دوسرے فرد کے ہاتھوں میں سیل فون ہے، وہ جب چاہے کسی سے بات کر سکتا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی رہنے والے کسی فرد کو کوئی پیغام بھیج سکتا ہے۔ تصویر اور وڈیو بنا کر ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کو شیئر کیا جا سکتا ہے۔

یہ ایک غیر معمولی سہولت ہے جو انسان کو 21 ویں صدی میں حاصل ہوئی ہے، لیکن اس کے ذریعے جو زبان استعمال کی جا رہی ہے اور جس نوعیت کی کردار کشی کی جا رہی ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ہو سکتا ہے یہ عارضی مظہر ہو اور وقت گزرنے کے ساتھ اعتدال اور توازن پیدا ہو جائے۔ ایک دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ اطلاعاتی انقلاب کے ذریعے تاریخ کے وہ "سچ" بھی سامنے آ رہے ہیں جن سے پہلے بہت کم لوگ ہی واقف ہوا کرتے تھے۔

ماضی قدیم سے لے کر 21 ویں صدی کی موجود دہائی تک زبان اکثر ظلم کے خلاف ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر کام آتی ہے۔ اس کی بالکل سامنے کی مثال سقراط کی ہے۔ اس کے خیالات اور خطبات سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایتھنز کی شہری ریاست نے اسے زہر کا پیالہ پلایا اور اپنے حسابوں اس کی آواز خاموش کر دی لیکن آج ڈھائی ہزار برس بعد بھی اس کے خیالات دنیا کی تمام بڑی اور چھوٹی زبانوں میں موجود ہیں، اس کے سچے الفاظ کی فصلیں ہر زمین اور ہر زمانے میں لہلہاتی رہی ہیں اور اس بات کا اظہارکرتی رہی ہیں کہ ذہنوں کو مسخر کرنے کے لیے زبان سے بڑا اور موثر ہتھیار دنیا میں پایا نہیں جاتا۔

دس لاکھ سال یا شاید اس سے بھی پہلے جب ہم گروہ در گروہ جنگلوں میں رہتے تھے تو ہم نے بولنے کا آغاز کیا تھا۔ پہلے ہم بھی دوسرے جانوروں کی طرح محض آوازیں نکالتے ہوں گے لیکن جیسے جیسے ہماری ضرورتیں پیچیدہ ہوتی گئیں، ہم ان آوازوں کو ایک ترتیب اور تفہیم دیتے گئے اور اب دنیا کے مختلف خطوں میں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں۔

ہزاروں برس سے فطرت ہمارے وجود میں آتے ہی سماعت کے ذریعے زبان کا بیج ہمارے ذہن کی زرخیز فضاء میں بو دیتی ہے، یہ بیج دو سے تین برس کی عمر کے دوران پہلا پھول لے آتا ہے اور پھر عمر، تجربے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ ہماری زبان کی پھلواری ہری بھری ہوتی جاتی ہے۔ بلوغت کے بعد جب ہم سماجی تضادات اور ان سے ابھرنے والے ردّ عمل کا اظہار کرتے ہیں تو زبان آپس میں صرف بول چال اور تبادلہ خیال کا ہی ذریعہ نہیں رہتی، یہ ایک اوزار اور ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کی جاتی ہے۔

زبان تبدیلی لانے کا ایک نہایت اہم اور مؤثر ذریعہ رہی ہے، اسی لیے تاریخ میں باضمیر شاعر، ادیب اور مؤرخ، مقتدر طبقات کے لیے ایک ناپسندیدہ عنصر رہے ہیں۔ قدیم مصری ادب کی تاریخ اٹھا کر پڑھیے تو اس میں ہمیں ایسے کئی ادیب نظر آئیں گے جنھوں نے زبان کا باغیانہ استعمال کیا اور ساری عمر قید خانوں میں گزار دی اور کچھ ایسے بھی تھے جو اس زمانے کے فرعون کے حکم سے قتل کیے گئے۔

زبان صرف ظلم کے خلاف لڑنے کے لیے ہی نہیں، ظلم کو فروغ دینے اور جھوٹ کو پھیلانے کے لیے بھی استعمال ہوئی ہے لیکن زبان کو غلط طور پر برتنے کا رویہ آخرکار پسپا ہونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ بہت سے امید پرست لوگوں کا کہنا ہے کہ آج کی دنیا ماضی سے بہت مختلف ہے۔ بہت سے حقائق کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔ مثلاً یہ کہ کسی بھی ریاست میں رہنے والے شہری کو بلاتفریق یکساں حقوق اور یکساں مواقع حاصل ہونے چاہیے۔

بنیادی انسانی حقوق کرہ ارض پر رہنے والے ہر فرد کا ناقابلِ تنسیخ حق بن چکا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کو عالمی پذیرائی مل چکی ہے، انتہا پسندی کسی بھی شکل میں قابل قبول نہیں ہے، جبر اور استحصال کے خلاف اتفاق رائے پیدا ہو رہا ہے۔ ہم جیسے تمام ترقی پذیر ملکوں کو یہ حقائق تسلیم کرنے ہوں گے۔ جائز حقوق مانگنے اور اختلاف رائے کرنے والوں کے خلاف زبان کے غلط استعمال سے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنا تا دیر ممکن نہیں رہے گا۔

Check Also

Pabandiyan Zaroor Lagain

By Saira Kanwal