Voice Of Father
وائس آف فادر
جب خلع یا طلاق ہو جائے تو اس صورت میں اسلام میں یہی حکم ہے کہ اصول کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرتے ہوئے علیحدہ ہو جاو اور ذیادتی مت کرو۔ بچوں کی محبت اپنی جگہ اور زوجین کا اختلاف اپنی جگہ الگ حقیقت ہیں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر بچوں سے اتنی ہی محبت تھی تو طلاق کیوں دی، ایسے لوگ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بعض ناگزیر وجوہات کی وجہ سے طلاق دی جاتی ہے یا خلع لے لی جاتی ہے۔ دو انسان شادی کے بندھن میں بندھے ہوتے ہیں کوئی جانور نہیں جنہیں کھونٹے سے باندھ کر رکھا جا سکتا ہے۔
میں یہاں پر تفصیل نہیں لکھنا چاہتا لیکن ایسے متعدد واقعات موجود ہیں جن میں عورت نے مرد کو زہر دے کر مار دیا یا پھر کسی آشنا سے مل کر اسے قتل کروا دیا۔ ایسے واقعات بھی ہیں کہ شوہر نے بھی اپنی بیوی کو قتل کیا۔ لہذا قتل ہونے سے بہتر ہے طلاق دے کر یا خلع لے کر جان چھڑوا لی جائے اور احسن طریقے سے بچوں کی کسٹڈی اور ملاقات کے معاملات طے کر لئے جائیں۔
اگر ماں نے بچے ایک قصبہ میں رکھے ہوں اور باپ انہیں بہتر جگہ آفر کر رہا ہو جہاں پر یہ بنیادی سہولیات مہیا ہوں تب ویلفیئر آف مائنر کیوں نہیں دیکھی جاتی؟ عملی طور پر ویلفیئر کو اگنور کیوں کیا جاتا ہے؟
اگر بچوں کی برین واشنگ کر کے بچوں کو باپ سے متنفر کیا جائے تو اس صورت میں بچے کبھی باپ کے پاس نہیں جائیں گے؟ لہذا کیا ایسی صورتحال میں بھی کوئی حل کورٹ کے پاس ہے؟
بچوں کی انٹیرم کسٹڈی کچھ عرصہ باپ کو دے کر بچوں کو دیکھا جائے تب ہی یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ بچے کی چوائس ٹھیک ہی یا غلط ہے؟ جب بچوں نے باپ کے گھر کا ماحول دیکھا ہی نہ ہو تو وہ کیسے اپنی چوائس بتا سکتے ہیں؟
دعا زہرہ جو کہ ایک بڑی بچی تھی جو اپنے باپ کے پاس بھی رہی بھی اس کے کیس میں تو یہی کہا جا رہا ہے کہ اسکے بیان کی اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی اسکی چوائس کو دیکھا جائے گا لیکن اسکے برعکس کسٹڈی کے معاملات میں دس سال کی بچی کے بیان کی اہمیت کیوں ہے جس نے باپ کو دیکھا بھی نہ ہو کیا یہ سب بہانے ہیں باپ کو اس کے حق سے محروم کرنے کیلئے یا کہیں پر کوئی کمی کوتاہی ہے جسے دور کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے بچوں کے مستقبل تاریک ہو رہے ہیں لیکن کسٹڈی کے کیسز کے فیصلے کرنے تک بچے جوان ہو چکے ہوتے ہیں کیوں کسٹڈی کے کیسز کو لمبا کرنے دیا جاتا ہے، بچے اپنے بابا کے گھر ملاقات کریں نہ کہ وہ عدالت کے سٹریس والے ماحول میں ملیں جہاں پر مجرم پیش ہوتے ہیں۔
بچے اور نان کسٹوڈیل پیرنٹس مجرم نہیں ہیں جنہیں عدالت بلوا کر ملوایا جائے۔ اعلی عدالتوں سے درخواست ہے کہ وہ اس بات کا نوٹس لیں اور گھر ملاقات کی ڈائریکشن جاری کر دیں تاکہ بچوں کی ویلفیئر یقینی بنائی جا سکے۔
گارڈین ججز کو قانون کی پاسداری کرتے ہوئے آئندہ بچوں کی ویلفئر کو یقینی بنانے کیلئے انکی ملاقات نان کسٹوڈیل پئرنٹ سے اسکے گھر پر یقنی بنانے کیلئے اقدامات کرنے چاہییں تاکہ بچے کسی بھی قسم کے نفسئاتی مسائل کا شکار نہ ہو سکیں۔ اور جو پرینٹس بچوں کو برین واش کریں جس سے بچے نان کسٹوڈیل پیریٹ سے متنفر نظر آئیں ان پیرنٹس سے فورا کستدی تبدیل کروائی جائے تاکہ ایسی منفی کسٹوڈین پرینٹ بچوں کا مستقبل خراب نہ کرے۔
خصوصا بچیوں کیلئے عدالت کو زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیئے کیونکہ انکا مستقبل انکے باپ سے ہی جڑا ہوتا ہے۔ بغیر باپ کے بچیوں کے رشتوں کے بھی سنگین مسائل ہوتے ہیں۔
کل ایک ایسے شخص سے ملنے کا اتفاق ہوا جس نے یہ بات کی۔ پہلے تو اس کی ذہنیت پر تعجب ہوا۔ پھر سوچا اس کا قصور نہیں۔ وہ اس معاشرے کا حصہ ہے جس میں اس طرح کی باتیں ذہنوں میں فیڈ کر دی گئی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ علیحدگی کے بعد بچہ یتیمی کی زندگی گزارے صرف اس لیے کہ ماں اور اس کے رشتہ دار ان کے گھر آ کر جھگڑا کریں گے؟ کسی بھی عمر کا بچہ ہو وہ عدالتوں میں قیدیوں کی طرح اپنے باپ سے اس لیے ملے کے گھر پر ملا تو جھگڑا ہو جائے گا؟
بچوں کے ذہن عدالتی ماحول دیکھ کر بھلے تباہ ہو جائیں مگر ان کو باپ کے گھر پر نہیں رہنے دینا کیونکہ "جھگڑے ہو جاتے ہیں" ان جھگڑوں کو کنٹرول کرنا اور مناسب ایکشن لینا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے! کسی کی بلیک میلنگ اور ان غلط ہتھکنڈوں کی وجہ سے کیا بچوں کو اس طرح کورٹ رومز میں ملوانا ٹھیک ہے؟ دنیا کے تمام ممالک عدالتی ملاقاتوں کی رسم کو یا تو مکلمل ختم کر چکے ہیں یا پھر اس کے خاتمے کی طرف جا رہے ہیں اور ہمارے ہاں اس کے حق میں تاویلیں پیش کی جا رہی ہیں!