Tohfa o Tahaif Dene Ki Fazeelat
تحفہ و تحائف دینے کی فضیلت
معاشرتی زندگی میں پیار و محبت اور آپس میں تعلق و محبت کے بڑھانے میں باہمی ہ تحائف اور گفٹ وغیرہ کے تبادلے کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ دوست احباب، عزیز و اقارب، رشتہ داروں، محلے داروں اور استاد شاگرد سے خلوص و محبت کا اظہار کرنے اور محبت کو اور زیادہ بڑھانے کے لیے تحفے تحائف کا تبادلہ باہمی دلوں کے جوڑنے کا حیرت انگیز جادوئی نسخہ ہے۔ چنانچہ رسول اللہﷺکا رشاد ہے: "ایک دوسرے کو تحفے دیا کرو (تاکہ) باہمی محبت قائم ہوسکے۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشادفرمایا: "آپس میں ایک دوسرے کو ہدیے (تحفے) دیا کرو کیونکہ (تحفہ) دلوں سے کینہ نکال دیتاہے۔
اسی طرح حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: "آپس میں تحفے دیاکرو، کیونکہ ہدیہ سینوں کی کدورت و رنجش کو دُور کرتاہے اور ایک پڑوسن دوسری پڑوسن کے ہدیہ کو حقیر نہ سمجھے اگرچہ وہ بکری کے کھر ہی تحفہ کیوں نہ ہو۔
چنانچہ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: "اگر مجھے بکرے کے ایک پائے کا تحفہ دیا جائے تو میں اسے قبول کرلوں گا اور اگر مجھے دعوت دی جائے تو میں اس پر حاضر ہوں گا اور قبول فرماتے تھے۔)
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: "جس آدمی کو عطیہ دیا گیا اور وہ اگر مالدار ہے تو اس کا بدلہ دے اور اگر مالدار نہیں تو اس کے لیے دعا کرے، اس لئے کہ جس آدمی نے دعا کی اس آدمی نے شکریہ ادا کیا اور جس نے دعا نہ کی اس نے نا شکری کی اور جس نے ایسی چیز کو ظاہر کیا جو اسے نہیں دی گئی ہے تو وہ اس آدمی کی طرح ہے جس نے جھوٹ کے دو کپڑے پہن لئے ہوں۔
حضرت اسامہ بن زیدؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: "جس کے ساتھ احسان کیا جائے وہ احسان کرنے والے سے کہے "جزاک اللہ خیرا" (یعنی تمہیں اللہ تعالیٰ بہترین بدلہ عطافر مائے) تو اس نے شکریہ ادا کردیا۔)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو مہاجرین نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول ﷺ ہم نے کسی قوم کو اس قوم سے زیادہ باوجود کم مال ہونے کے خرچ کرنے والی اور زیادہ ہمدردی کرنے والی نہیں دیکھا، جس میں ہم رہتے ہیں۔ انہوں نے ہمارے اخراجات کی ذمہ داری لی اور ہمیں منافع میں شریک کیا، ہمیں خطرہ ہے کہ کہیں تمام اجر و ثواب یہ لوگ ہی نہ سمیٹ کر لے جائیں"۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "نہیں تم ان کے لئے دعائیں کرتے رہو اور ان کا شکریہ ادا کرتے رہو"۔
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشادفرمایا: "تحفہ میں تین چیزیں واپس نہ کی جائیں: (1) تکیہ(2) خوشبو (3) اور دودھ"۔
ہمارے معاشرے میں یہ بات عام ہے کہ شادی خوشی وغیرہ کے موقع پر دوسروں کو بہت سارے تحفے تحائف دیئے جاتے ہیں۔ پھر اگر معاملات کسی وجہ سے بگڑ جاتے ہیں تو وہ تحفے تحائف واپس کرنے کا کہا جاتا ہے۔ معاشرتی طور پر ایسا کرنا اخلاق و تہذیب کے خلاف ہے، اسی وجہ سے اس کو برا خیال کیا جاتا ہے۔
اسی طرح ہمارے معاشرے میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ کسی کا دیا ہوا تحفہ آگے کسی اور کو نہیں دے سکتے، حالانکہ شریعت میں ایسی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺکو ایک "حلہ" (چادروں کا جوڑا) ہدیے کے طور پر پیش کیاگیا جس کا تانا بانا ریشم سے بنا ہوا تھا۔ حضورِ اقدس ﷺنے وہ "حلہ" میرے پاس بھیج دیا۔ میں نے حاضر خدمت ہوکر عرض کیا: "اے اللہ کے رسول ﷺ!" میں اسے کیا کروں؟ کیا میں اسے پہن سکتاہوں؟ تو آپﷺ نے فرمایا: "نہیں اس سے فاطمہ کو اوڑھنیاں بناکر دیدیجئے"۔
بسا اوقات تحفہ دینے کے لیے کوئی چیز موجود ہوتی ہے لیکن خیال آتا ہے یہ تو حقیر چیز ہے، اسے دینے کا کیا فائدہ؟ یہ خیال غلط ہے، اسی طرح جس کے پاس چھوٹا سا تحفہ بھیجا جائے وہ خوش دلی سے قبول کرے کیونکہ تحائف کے تبادلے سے خوشگوار ماحول پیدا ہوتا ہے۔ ہدیہ دیتے وقت اپنی حیثیت کو سامنے رکھیں اور یہ نہ سوچیں کہ آپ جس کو ہدیہ دیں قیمتی ہدیہ دیں، جو کچھ میسر ہودے دیجیے، ہدیہ کے قیمتی ہونے نہ ہونے کا انحصار آپ کے اخلاص اور جذبات پر ہے۔ یہی خلوص و جذبات دلوں کو جوڑتے ہیں، ہدیہ کی قیمت نہیں جوڑتی۔ اسی طرح دوست کے ہدیہ کو بھی حقیر نہ سمجھیں، اس کے اخلاص پر نگاہ رکھیے۔ آج کے حالات میں کتاب بھی بہترین تحفہ ہے۔
ایک دوسرے کو تحائف دینا انسانی تہذیب کا حصہ ہے لیکن تحفہ دینے کے بھی کچھ اصول ہیں۔ پہلا اصول یہ کہ تحفہ اس لیے دیا جاتا ہے کہ انسان کے درمیان محبت بڑھے لیکن بہت سارے مواقع پر ہم رسمِ دنیا کو نبھانے کے لیے تحائف دیتے ہیں تا کہ ہماری عزت پر کوئی حرف نہ آئے۔ لین دین اور رسم دنیا کے پیش نظر تحفہ دینا سراسر تحفہ کی توہین ہے۔
تحائف اخلاص کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں تاکہ دو انسانوں کے درمیان محبت بڑھے نہ کہ انسان کی انا کو تقویت دینے کے لیے۔ ایک شخص جو اخلاص اور محبت کی بنیاد پر تحفہ دینا جانتا ہے۔ اگر اسے جواب میں تحفہ نہ بھی ملے تو اس کے اخلاص اور محبت میں کوئی کمی نہیں آ سکتی۔ لہٰذا اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تحفہ صرف اور صرف محبت اور اخلاص کے جذبے سے ہی دیا جائے۔
یہ ایسا عمل ہے جو ایک دوسرے کا دل خوش کرنے اور رضائے الٰہی کے حصول کیلیے دیا جاتا ہے۔