Falasteen Pukar Raha Hai
فلسطین پکار رہا ہے

فلسطین کی زمین آج بھی لہو سے تر ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جسے انبیاء کی سرزمین کہا جاتا ہے، جہاں مسجد اقصیٰ ہے، جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ لیکن آج وہی زمین ظلم کی علامت بن چکی ہے، جہاں ہر لمحہ ایک نیا المیہ جنم لیتا ہے، ہر دن ایک نئی ماں اپنے جگر گوشے کو دفن کرتی ہے اور ہر رات موت کے سائے میں زندگی کی سانسیں گنتی ہے۔
اگر دنیا میں کہیں انسانیت دم توڑ چکی ہے تو وہ فلسطین ہے۔ وہاں ایک بچہ بھی دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو بموں کی گونج، گولیوں کی آواز اور ماں کی سسکیوں کے سائے میں۔ وہاں کی ماؤں نے بچوں کو لوریاں دینا چھوڑ دیا ہے، اب وہ انہیں شہادت کی دعائیں دیتی ہیں۔ وہاں کے باپ مزدور نہیں رہے، قبر کھودنے والے بن گئے ہیں، کیونکہ ہر روز انہیں کسی نہ کسی شہید کے لیے قبر تیار کرنی ہوتی ہے۔
ظلم کی حد یہ ہے کہ اسپتالوں پر بم گرائے جاتے ہیں، ایمبولینسوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اسکولوں میں پناہ لینے والے معصوم بچوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے اور وہ دنیا جو انسانی حقوق کی ٹھیکیدار بنی پھرتی ہے، وہ صرف مذمتی بیانات دے کر خاموش ہو جاتی ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، عرب لیگ اور دیگر عالمی ادارے صرف "تشویش" ظاہر کرتے ہیں، لیکن فلسطین کے بچوں کا خون کسی قرارداد سے نہیں رکتا۔
کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ ایک بچہ اپنے ماں باپ کے لاشے کے ساتھ تین دن ایک ملبے کے نیچے پڑا رہے؟ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایک ماں اپنے تین بچوں کو دفن کرکے رات کو بے خبر سو سکے؟ فلسطین میں یہ سب روز ہوتا ہے، وہاں رونا بھی اب معمول بن چکا ہے۔ وہاں بچوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ اگر تمہارے ماں باپ مارے جائیں تو چیخنا نہیں، صبر کرنا ہے، کیونکہ تمہارے آنسو دشمن کو خوش کرتے ہیں۔
فلسطین میں آج جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف بمباری نہیں، وہ ایک نسل کشی ہے۔ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک قوم کو ختم کرنے کی سازش ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمان ممالک کی قیادت بے حس ہو چکی ہے۔ ان کے لیے زیادہ اہم یہ ہے کہ کب ان کی کرسی محفوظ ہو، کب ان کا اقتدار نہ چھن جائے اور کب ان کا تجارتی معاہدہ برقرار رہے۔ فلسطینی بچے اگر مرتے ہیں تو وہ ان کے ایوانوں کی دیواروں تک بھی نہیں پہنچ پاتے۔
عرب حکمرانوں نے اپنے مفادات کے بدلے بیت المقدس کا سودا کر لیا ہے۔ وہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرتے ہیں، ان کے ساتھ تجارتی معاہدے کرتے ہیں اور فلسطینیوں کو "حقیقت پسند" بننے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کیا حقیقت پسندی یہ ہے کہ تم اپنی سرزمین چھوڑ دو، اپنے گھروں کو راکھ ہوتا دیکھو، اپنی مسجدوں کو شہید ہوتے دیکھو اور پھر بھی خاموش رہو؟
پوری امت مسلمہ فلسطین کے حوالے سے ناکام ہو چکی ہے۔ ہماری افواج طاقتور ہیں، ہمارے میزائل دور تک مار کرنے والے ہیں، ہمارے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، لیکن ہم ایک زخمی بچے کی آنکھوں میں جھانکنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ ہم صرف سوشل میڈیا پر پوسٹ لکھتے ہیں، تصاویر شیئر کرتے ہیں اور پھر اگلے دن اپنی مصروفیات میں گم ہو جاتے ہیں۔
کیا ہمیں یاد نہیں کہ مسجد اقصیٰ وہی مقام ہے جہاں سے رسول اکرم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے؟ کیا ہمیں یاد نہیں کہ یہی وہ مقام ہے جسے حضرت عمرؓ نے بغیر خون بہائے فتح کیا تھا؟ کیا ہمیں اتنا بھی شعور نہیں کہ یہ محض فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں، یہ پوری امت کا مسئلہ ہے؟ مسجد اقصیٰ صرف فلسطین کی نہیں، پوری دنیا کے مسلمانوں کی متاع ہے۔
ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم اپنے بچوں کو اچھی تعلیم، مہنگے لباس اور مہنگے کھلونے ضرور دے رہے ہیں، لیکن ہم انہیں فلسطین کے بارے میں کیا سکھا رہے ہیں؟ ہم نے ان کے دلوں میں اقصیٰ کی محبت کا بیج بویا ہی نہیں۔ ہم نے انہیں یہ بتایا ہی نہیں کہ ایک بچہ، جو تمہاری عمر کا ہے، وہ بغیر کھلونے کے، بغیر چاکلیٹ کے، صرف ایک امید پر زندہ ہے، کہ شاید کل صبح اذان مسجد اقصیٰ میں دی جائے گی۔
فلسطین کے بچے آج دنیا کو ایک آئینہ دکھا رہے ہیں۔ وہ ہمیں بتا رہے ہیں کہ غیرت کیا ہوتی ہے، ایمان کیا ہوتا ہے اور قربانی کس کو کہتے ہیں۔ وہ اپنے ٹوٹے ہوئے کھلونوں کے ساتھ، جلے ہوئے بستوں کے ساتھ، شہید باپ کی تصویر کے ساتھ جیتے ہیں، لیکن ان کی آنکھوں میں آج بھی آزادی کا خواب ہے۔
ایک بچی کی ویڈیو وائرل ہوئی، جو ایک ملبے کے ڈھیر پر کھڑی ہو کر کہہ رہی تھی، "ہم مر جائیں گے، لیکن مسجد اقصیٰ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے"۔ کیا ہمارے بچوں کے دلوں میں ایسی بات ہے؟ نہیں۔ کیونکہ ہم نے انہیں سکھایا ہی نہیں، ہم نے انہیں صرف دنیا کا علم دیا، ایمان کا سبق دینا بھول گئے۔
کالم کے آخر میں ایک سوال چھوڑتا ہوں: اگر کل مسجد اقصیٰ مکمل طور پر شہید کر دی گئی، اگر فلسطین کا نام صرف تاریخ کی کتابوں میں رہ گیا، تو کیا ہم اپنے ضمیر کے سامنے سر اٹھا سکیں گے؟ کیا ہم اپنے بچوں کو بتا سکیں گے کہ ہم نے کچھ کیا؟ اگر جواب "نہیں" ہے، تو آج اٹھیں۔ آواز بلند کریں۔ کم از کم سچ بولیں، کم از کم مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں، کیونکہ جو ظلم کے خلاف نہیں بولتا، وہ ظالم کا ساتھی ہوتا ہے۔
فلسطین کے بچے ہمیں پکار رہے ہیں۔ ان کی پکار کو سن لیں، اس سے پہلے کہ ہماری سماعتیں بھی مر جائیں۔