Bharti Mehangai Aur Pareshan Awam
بھڑتی مہنگائی اور پریشان عوام
پاکستان کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ اللہ نہ کرے وہ دن دور نہیں جب پاکستان کے حالات سری لنکا جیسے ہو جائیں گے۔ پیٹرول، ڈیزل، گیس، بجلی، مٹی کے تیل کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کی وجہ سے سماجی و معاشرتی حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ عوام کی قوت خرید جواب دے چکی ہے جبکہ کرپٹ حکومت کو عوام کی پریشانیوں اور مجبوریوں کا کوئی احساس نہیں ہے۔
اگر ہوشربا مہنگائی اس طرح سے بڑھنی تھی تو عمران خان کی حکومت میں کیا خرابی تھی؟ جن عناصر نے باہم مل کر سابق حکومت کو تحلیل کیا ہے اور جانے پہچانے کرپٹ افراد کو اقتدار میں لائے ہیں، ان سے ملک کے معاملات سنبھل نہیں پا رہے ہیں، ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام مہنگائی اور بھوک تلے دبتے چلے جا رہے ہیں حکومت ان حالات میں سوائے اپنے مخالفین کے خلاف بیانات داغنے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہی ہے۔
ملک کی اس تکلیف دہ معاشی حالات سے ملک کی سیکورٹی بھی متاثر ہو رہی ہے اور اگر مزید ایسے حالات برقرار رہتے ہیں تو عوام کا جمِ غفیر سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو جائے گا اور ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو جائیں گے۔ اس وقت حکومت کا ایک چھوٹا سا طبقہ ملک کے ان تکلیف دہ معاشرتی حالات سے لا تعلق ہو کر اپنی روزمرہ کی مستیوں میں عیش کر رہا ہے، اس کو احساس ہی نہیں ہے کہ غریبوں کی بھوک اور ناداری کا حجم کیا رنگ لا سکتا ہے؟
اس ضمن میں حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ تمام عناصر جو سابقہ حکومت کو معاشی اور مہنگائی کا طعنہ دیا کرتے تھے اب غائب ہیں، وزارت لے لی ہیں اور نا جائز طریقے سے پیسہ کمایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف وزیراعظم اپنے اوپر لگائے گئے الزامات سے متعلق دستاویزات کو ختم کرا کر خود کو بے قصور اور معصوم قرار دے کر آئندہ کیلئے اپنے آپ کو عوام میں ایماندار ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پاکستان کے اندر، ساری دنیا میں پاکستان کی حکومت اور گورننس کے حوالے سے مذاق بن گیا ہے، اور حکومت بے اعتمادی کی فضا میں زبردستی کام کر رہی ہے۔ دوسری طرف وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پریس کانفرنس کے ذریعے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا بم پھینکا اس پر عوام حیران ہیں۔ مفتاح اسماعیل مسلسل ہنس کر پیڑول کی قیمتوں کے اضافے پر عوام کے زخموں پر نمک چھڑک رہے تھے۔
مفتاح اسماعیل خود ایک کارخانے اور فیکٹریوں کے مالک ہیں، جن کے بارے میں اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں کہ وہ شفاف انداز میں ٹیکس ادا نہیں کرتے ہیں اس طرح وہ بھی مبینہ طور پر ٹیکس چوروں میں شامل ہیں۔ یہی مفتاح اسماعیل ماضی میں مہنگائی کے خلاف چیخ چیخ کر ماضی کی حکومت کو للکارتے تھے۔ اور اب اس بے لگام بڑھتی ہوئی مہنگائی پر مسکرا رہے ہیں۔ یہی شخص مہنگائی میں اضافے کا ذمہ دار ہے۔
یہ نہ تو ماہر معاشیات ہے اور نہ ہی اس کو یہ احساس ہے کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے سے ایک عام آدمی پر اس کے کیا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ جیسا کہ میں نے بالائی سطور میں لکھا ہے کہ عوام کی قوت خرید مسلسل زوال پذیر ہے، یہاں تک کہ والدین اپنے بچوں کو اسکولوں سے نکال رہے ہیں، جو ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ دیہاتوں میں رہنے والے پاکستانی شہروں میں رہنے والوں سے زیادہ مصائب سے دو چار ہیں۔
وہ زمینداروں اور وڈیروں کے رحم و کرم پر ہیں، انہیں مناسب اجرت تو کجا انہیں دو وقت کی روٹی میسر آ جائے تو بڑی بات ہے۔ پاکستان کی اس موجودہ صورتحال سے پاکستان کا باشعور طبقہ سخت پریشان ہے، ایک طرف اس معاشی صورتحال کے سبب ملک کا استحکام خطرے میں پڑ گیا ہے، تو دوسری طرف ان حالات کو ٹھیک کرنے کے سلسلے میں کوئی منصوبہ بندی بھی نظر نہیں آ رہی ہے، ہر سو اضطراب سے بھری ہوئی خاموشی ہے۔
اس کیفیت کے مزید بڑھنے کے امکانات نظر آ رہے ہیں۔ سابق چیئرمین ایف بی آر نے صحیح کہا ہے کہ موجودہ سیٹ اپ سے حالات سنبھالے نہیں جا رہے ہیں بلکہ ان میں صلاحیت کا فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالات دن بدن بگڑتے جا رہے ہیں۔ غالباً اب ارباب اختیار کو احساس ہو رہا ہے کہ انہوں نے کیا کیا ہے؟ امریکہ سمیت کئی بڑے ملک پاکستان کے ان حالات کو نہیں سنبھال سکتے۔
جب ہم خود ہی کرپٹ ہوں اور لوٹ مار کے ذریعے گورننس کر رہے ہیں، تو بڑے ممالک کیوں اور کس لئے پاکستان کی مدد کریں گے؟ پاکستان کے دشمن ممالک خوش ہیں کہ ایسے عناصر کو اقتدار میں لایا گیا ہے جو اپنی ناقص کارکردگی سے ملک کو غیر معمولی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ارباب اختیار کو چاہیے کہ وہ سوچیں کہ ان حالات کو کس طرح ٹھیک کر کے ملک کو مستحکم کیا جا سکتا ہے اور عوام کے اضطراب اور پریشانیوں کا ازالہ ہو سکتا ہے۔
ورنہ ہم سب سری لنکا میں ہونے والے واقعات سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس وقت ملک کو وہ لوگ سنبھال سکتے ہیں جو حالات کے سدھارنے کا درد اور عزم رکھتے ہوں۔ چنانچہ انہیں آگے بڑھ کر ایک منظم حکمت عملی کے تحت ملک کو عدم استحکام اور بربادی سے بچانے کی سعی کرنی چاہیے، ورنہ ہر روز بگڑنے والے حالات ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔ یاد رکھیئے پاکستان ہے تو ہم ہیں۔