Aik Shayara, Aik Virus, Aik Veeran Nizam
ایک شاعرہ، ایک وائرس، ایک ویران نظام

جب بہن مری تو صرف کاغذ بولے کرن وقار صرف میری بہن نہیں تھی، وہ لفظوں کی جادوگر، جذبات کی ترجمان اور ان گنت دلوں کی آواز تھی۔ اُس کی شاعری میں درد بھی تھا، حوصلہ بھی اور ایک ایسی روشنی بھی جو اندھیروں سے لڑنے کا حوصلہ دیتی تھی۔ وہ خود ٹوٹتی رہی، مگر دوسروں کو جوڑتی رہی۔ اپنی بیماری کے ان دس دنوں میں، کرن خود وینٹی لیٹر پر تھی، بےخبری کی ایک گہری نیند میں۔ اُسے یہ معلوم ہی نہ ہو سکا کہ اس دوران اس کا بھائی جو اس نے ساتھ ہی ہسپتال میں داخل ہوا تھا، جو اس کا سایہ، اس کا سہارا تھا، زندگی کی جنگ ہار گیا اور ماں جو زندگی کا سب سے بڑا سہارا ہوتی ہے۔
اس ماں کو اس دنیا سے رخصت ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ان دس دنوں ک آغاز میں۔ کرن جب ہوش میں آئی، تو اُس کے سامنے صرف خاموش چہرے، خالی دیواریں اور ایک ایسی دنیا تھی جس میں اُس کے اپنوں کی آہٹ تک باقی نہ رہی۔ لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ وہ خود بھی چند ہی لمحے بعد خاموش ہوگئی، ہمیشہ کے لیے۔ جیسے ایک نظم ادھوری رہ گئی ہو، جیسے ایک کتاب بند ہوگئی ہو، بغیر آخری صفحے کے۔
دس اپریل کی وہ صبح شاید ہمیشہ کے لیے میری زندگی کا سب سے سیاہ دن بن گئی۔ اس دن ہسپتال کے ایک سرد کمرے میں، جب ایک ڈاکٹر نے میرے کندھے پر آہستگی سے ہاتھ رکھا، تو بنا کچھ کہے، سب کچھ کہہ دیا۔ اس ایک لمحے میں، میری دنیا خاموش ہوگئی۔ میری بہن، کرن وقار، صرف ایک نام نہیں، ایک پوری زندگی، ایک جذبہ، ایک سہارا، اس دنیا سے رخصت ہو چکی تھی۔
نو اپریل کی رات، میں نے اُسے اپنی آنکھوں کے سامنے آخری بار تڑپتے دیکھا۔ آکسیجن ماسک اُس کے چہرے پر تھا، وہ مجھے بلانا چاہتی تھی، آنکھوں سے کچھ کہنا چاہتی تھی، لیکن میں بےبس کھڑا بس دور سے تماشا دیکھتا رہا۔ ڈاکٹرز بھی آس پاس موجود تھے، مگر وہ بھی صرف دیکھ رہے تھے، نہ کوئی فوری ردعمل، نہ کوئی فوری دوا، نہ کوئی ہنگامی تدبیر۔
ان دس دنوں میں، کرن کی بیماری کے ساتھ میری امید بھی روز مرتی رہی۔ ہر دن، ہر ٹیسٹ، ہر دوا، صرف ایک رسمی کارروائی لگتی تھی۔ علاج کم، خرچہ زیادہ۔ پرچیوں کا انبار، میڈیکل اسٹور کے بل اور دلاسوں کی قطار، مگر زندگی کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔
کرن وقار صرف میری بہن نہیں، ایک باہمت شاعرہ تھی۔ کرونا کے دنوں میں، وہ بھی اسی ہسپتال میں زندگی کی جنگ لڑ رہی تھی۔ لاکھوں روپے لگا دیے، مگر نہ اس کی جان بچی، نہ اس کے بھائی کی۔
ہسپتال کے اُس وارڈ میں اُس وقت گیارہ مریض داخل تھے۔ ان میں سے صرف ایک بچ سکا، باقی دس اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ کیا یہ محض اتفاق تھا؟ نہیں، یہ اُس ناکام نظامِ صحت کی وہ بھیانک حقیقت ہے، جہاں غیر تربیت یافتہ عملہ، ناقص مینجمنٹ اور بے حسی کی انتہا ہے۔
کرن اور اس کا بھائی اوکاڑہ ڈی ایچ کیو ہسپتال میں بھی ایڈمٹ رہے۔ مگر وہاں بھی وینٹی لیٹر تو تھا، چلانے والا کوئی نہیں۔ آکسیجن کی قلت، تربیت کی کمی اور علاج کا فقدان، یہ سب مل کر صرف ایک سوال چھوڑ گئے: کیا واقعی اس ملک میں عام انسان کی جان کی کوئی قیمت ہے؟
ہسپتال تجربہ گاہیں بن چکے ہیں، جہاں ناتجربہ کار اسٹاف انسانوں پر ایکسپیرمنٹ کرتا ہے۔ علاج کی آڑ میں صرف کاروبار ہوتا ہے اور جب سب کچھ ختم ہو جاتا ہے، تو صرف ایک فقرہ رہ جاتا ہے: "ہم نے پوری کوشش کی تھی"۔
لیکن سوال یہ ہے:
کب تک کوششوں کا بہانہ موت کا سبب بنتا رہے گا؟
کب تک ہم اپنی بہنوں، ماؤں، بیٹیوں کو بے بسی سے مرتا دیکھتے رہیں گے؟
کب تک انصاف صرف اشرافیہ کے لیے ہوگا اور عام آدمی صرف بل بھرتا رہے گا؟
یہ صرف کرن وقار کی کہانی نہیں، یہ ہر اس شخص کی کہانی ہے جو اس نظامِ صحت کے رحم و کرم پر ہے۔ آج کرن گئی، کل کوئی اور جائے گا، جب تک ہم خاموش رہیں گے، جب تک ہم سوال نہیں اٹھائیں گے، تب تک نظام نہیں بدلے گا۔
کرن وقار کی سانسوں کے ساتھ، ایک خواب ختم ہوا۔ لیکن میں دعا گو ہوں کہ اُس کی یاد، اُس کا درد اور اُس کا سوال، ہمیں جھنجھوڑے، جگائے اور اس نظام کو بدلنے پر مجبور کرے۔۔

