Aik Panjabi Zamindar Ki Kahani
ایک پنجابی زمیندار کی کہانی
ہمارے اسکول کی اردو کتاب میں ایک مضمون تھا ایک پنجابی زمیندار کی کہانی۔ یہ مضمون چوہدری افضل حق کی کتاب زندگی، سے لیا گیا تھا۔ یہ ایک ایسے پنجابی زمیندار کی کہانی ہے جو دیہاتی رسم و رواج میں جکڑا ہوا ہے۔ اُس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو اُس نے مہاجن سے قرض لے کر برادری والوں کی دعوت کی، بعد میں قرض چکانا مشکل ہو گیا۔ کچھ عرصے بعد باپ فوت ہوا تو اُس کے کفن دفن پر دگنا خرچہ کیا، یہ سوچ کر کہ برادری والے کیا کہیں گے کہ بیٹے کے لیے پیسے تھے اور باپ کے لیے پھوٹی کوڑی بھی نہیں۔
اِس مرتبہ بھی مہاجن کا دروازہ کھٹکھٹایا، اُس نے کہا آؤ بھئی کیا پچھلے پیسے لوٹانے آئے ہو، زمیندار شرمندگی سے زمین میں گڑ گیا، مزید پیسوں کے لیے منت سماجت کی، مہاجن نہ مانا، اُس کی بیوی نے دیکھا کہ وہ مہاجن کے پیر پکڑ رہا ہے تو اُس نے اپنے شوہر سے سفارش کر دی کہ جتنے پیسے مانگتا ہے میرے حساب میں دے دو، مہاجن نے قرض تو دے دیا مگر بیاج دگنا کر دیا۔ زمیندار کی زندگی اجیرن ہو گئی، جس بچے کی پیدائش پر جشن منایا تھا اب وہ گلیوں میں ننگا پھرتا تھا۔
آبائی زمین کا کچھ ٹکڑا اُس کے پاس تھا، زمیندار نے گاؤں کے ایک بندے سے ساجھے داری کر لی، اُس کی بیوی بھی ساتھ کام کرتی تھی جبکہ زمیندار کی بیوی پردے میں رہتی تھی، سو اس ساجھے داری کا بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ ایک روز جی کڑا کر کے اُس نے اپنی بیوی کو اس شرط پر گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی کہ وہ دوپہر کے وقت اُس کے لیے کھانا لے کر آئے گی۔ اُس دن بیوی جب گھر سے نکلی تو شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی۔
برادری نے اس جرم، کی پاداش میں زمیندار کا حقہ پانی بند کر دیا۔ زمیندار کے گھر فاقوں کی نوبت آ گئی۔ اسے قرض لینے کی عادت پڑ گئی، پیسوں کے لیے اُس نے جھوٹ بولنا شروع کر دیا، لوگوں کا اُس پر سے اعتبار اٹھ گیا اور وہ تقریباً دیوالیہ ہو گیا۔ اس کے بعد کی کہانی مزید دلچسپ ہے، وہ آپ خود پڑھ لیں کہ کس طرح زمیندار ان مشکل حالات سے نکلا، کیسے اُس نے قرض واپس کیا، بچوں کو پڑھایا لکھایا، بیوی کے ارمان پورے کیے اور سماج میں اپنی عزت بحال کروائی۔
ہماری حالت بھی اس پنجابی زمیندار سے مختلف نہیں۔ قرضوں پر ہماری معیشت چل رہی ہے، آئی ایم ایف ہمارا مہاجن ہے، بچے گلیوں میں ننگے پھر رہے ہیں، عورتیں معیشت میں حصہ دار نہیں، اخراجات ہمارے آسمان کو چھو رہے ہیں اور آمدن ٹکے کی نہیں۔ زمین کا جو ٹکڑا ہمارے پاس ہے اُس کا حال یہ ہے کہ گلیشئرز تباہ ہو رہے ہیں، پہاڑوں سے برف غیر معمولی رفتار سے پگھل رہی ہے، درجۂ حرارت میں شدید اضافہ ہو رہا ہے۔
بارشوں میں کمی ہو رہی ہے، جھیلوں میں طغیانی سے تباہی آ رہی ہے اور کئی علاقوں میں خشک سالی کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔ اُس پنجابی زمیندار کو تو کہانی میں ایک سیانا بندہ مل گیا جو اسے مفید مشورے دیتا ہے جن پر عمل کر کے اُس کی زندگی کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ ہمارے پاس تو ایسے سیانے بندے بھی اب نہیں ہیں اور جو ہیں اُن کی کوئی سنتا نہیں۔
اور رہے عام لوگ تو اُن کی تان یہاں آ کر ٹوٹتی ہے کہ ہمیں اپنے اخراجات میں کمی کرنی چاہیے، افسر شاہی کے اللے تللے ختم کرنے چاہئیں، مفت پٹرول کی سہولت واپس لے لینی چاہیے، غیر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کرنی چاہیے، سرکاری ملازموں کی ایک دن کی تنخواہ حکومت کے خزانے میں جمع کروا دینی چاہیے وغیرہ۔ یہ تمام باتیں بہت خوش کُن ہیں، اِن پر عمل کرنے کا ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ عوام میں یہ احساس پیدا ہو گا کہ صرف انہی کو قربانی کا بکرا نہیں بنایا جا رہا بلکہ اشرافیہ بھی اِس میں اپنا کچھ نہ کچھ حصہ ڈال رہی ہے۔
دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ چند ارب روپوں کی بچت ہو جائے گی لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہمارا مسئلہ چند ارب روپوں سے اب حل نہیں ہوتا۔ وفاق پاکستان کی پوری سرکاری مشینری کا کُل بجٹ اڑھائی سو ارب روپے کے قریب ہے، یعنی تنخواہوں کے علاوہ سرکار جن اللوں تلوں، پر خرچ کرتی ہے وہ بمشکل یہ رقم ہے جس میں پٹرول، سٹیشنری، فرنیچر، پنکھے، اے سی، سرکاری دفاتر کی بجلی کا بل، کاغذ، قلم، دوات سب شامل ہے جبکہ ریٹائرڈ فوجی ملازمین کی پنشن کا خرچہ اس اڑھائی سو ارب سے زیادہ ہے۔
اب کوئی بتائے گا کہ اس بجٹ میں کہاں اور کیسے کٹوتی کی جائے؟ غیر ترقیاتی اخراجات کا لفظ سننے میں کانوں کو بہت بھلا لگتا ہے مگر اصل میں اس کی حقیقت یہی ہے جو بیان کی ہے۔ ہمارے ایک دور پار کے رشتہ دار ہوا کرتے تھے، اب فوت ہو چکے ہیں، وہ کہا کرتے تھے کہ بندہ کبھی اخراجات میں کمی کر کے خوشحال نہیں ہوتا بلکہ آمدن میں اضافے کر کے مہنگائی کو شکست دیتا ہے۔
اُن کی یہ بات سو فیصد درست ہے، ایک عام مڈل کلاس کا شخص اگر بجلی، گیس، پٹرول اور بچوں کے اسکول کی فیس میں پیسے بچانے کی کوشش کرے گا تو اُس کی زندگی اجیرن ہو جائے گی جبکہ بچت واجبی سی ہی ہو گی۔ اب سوال یہ ہے کہ آمدن میں اضافہ کیسے کیا جائے؟ ایک طریقہ تو اس خاکسار نے بتایا تھا کہ پاکستان کی ریاست جن آٹھ سو خاندانوں کو سوا ارب ڈالر کی سبسڈی دیتی ہے، وہ فی الفور ختم کی جائے۔
یہ وہ رعایت ہے جو ان چہیتے کھرب پتی خاندانوں کو ٹیکسٹائل انڈسٹری میں سستی گیس فراہم کر کے دی جاتی ہے تاکہ یہ ایکسپورٹ سے زرِ مبادلہ کما کر دے سکیں، ایکسپورٹ سے زرِ مبادلہ تو یہ خاک نہیں کماتے ہیں البتہ ریاست پاکستان کو ہر سال سوا ارب ڈالر کا ٹیکہ ضرور لگا دیتی ہیں۔ دوسرا طریقہ جاننے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اکنامک سروے آف پاکستان میں Tax Expenditure، کا حصہ پڑھیں جو بتائے گا کہ ہم ہر سال تقریباً 1، 314 ارب روپے کی رعایت ٹیکسوں کی مد میں دیتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ سب رعایتیں واپس نہیں لی جا سکتیں، ان میں سے کچھ فلاحی اداروں کے لیے ہیں، جبکہ کچھ کاروبار کو فروغ دینے کے لیے جیسے آئی ٹی کی خدمات برآمد کرنا یا کھانے پینے کی اشیا پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ وغیرہ۔ لیکن اس کے باوجود تیرہ سو ارب کی رعایت کو باآسانی نصف کر کے چھ سو ارب روپے پر لایا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی معمولی رقم نہیں، یاد رہے کہ پاکستان کا کُل پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام لگ بھگ اتنے ہی روپوں کا ہے۔
تیسرا طریقہ برآمدات میں اضافہ ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں، ہر حکومت اس کا عزم کرتی ہے مگر بات دو چار ارب ڈالر کے گرد ہی گھومتی رہتی ہے، دو دو بالشت کے ملک دنیا میں موجود ہیں جن کے پاس نہ دریا ہیں اور نہ زرخیز زمین، نہ وہاں سے تیل نکلتا ہے اور نہ سونا، مگر اُن کی برآمدات ہم سے کئی گنا زیادہ ہیں، انہوں نے یہ کام کیسے کیا اور ہم کیوں نہیں کر سکتے؟ اس کا جواب پھر کبھی۔