Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Humayon Qaim Khani
  4. Technology

Technology

ٹیکنالوجی

دنیا میں جہاں آئے روز جدت کی افزائش ہوتی جارہی ہے وہیں کہیں نا کہیں ہم بے راہ روی کا شکار بھی ہوتے جا رہے ہیں۔ جیسے جیسے ہمیں وافر مقدار میں ٹیکنالوجی میسر ہے ویسے ہی ہم اپنے کاموں میں الجھ کر باہر کی دنیا اور اس کے مسائل سے بے خبر ہیں۔ جب سے ہمیں ہر شے گھر بیٹھے مل رہی ہے ہم نے ہم سے وابستہ لوگوں یا معاشرے کی خیر خبر سے ہی دوری اختیار کر لی ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم کمرے میں بیٹھے پوری دنیا کی خبر لے سکتے ہیں لیکن جنہیں ہماری ضرورت ہے یعنی ہم سے فاصلے میں قریب افسوس! ہم ان کے مسائل سے بے خبر ہیں۔ ایسے میں وہ تمام رشتے جو ہم سے براہِ راست کسی نا کسی ناطے سے جڑے ہوئے ہیں سب آجاتے ہیں۔ ہمیں پردیس بیٹھے کی تو خبر ہوتی ہے لیکن افسوس برابر والے کا کچھ اتا پتا نہیں ہوتا۔ گزرتے وقت کے ساتھ جدت ضروری ہے ایسے میں ٹیکنالوجی جدت کا ایک اہم پہلو ہے جس سے آج کل ہر کوئی مستفید ہو رہا ہے اور اچھی بات ہے ہوں لیکن اس قدر بھی نہیں کہ اس سے ہمیں ہی نقصان کا سامنا کرنا پڑے۔

ایک حیران کن بات اور جزبات آمیز حقیقت یہ بھی ہے کہ موجودہ دور میں 25 سے 30 کے درمیان یا اس سے زاہد عمر رکھنے والے افراد وہ آخری خوش نصیب گروہ ہے جسے اپنے والدین کی طرف سے مکمل دھیان، اچھی تربیت اور مناسب توجہ ملی کیونکہ ان کی کم عمری میں ان کے والدین کے پاس کوئی بلا وجہ مصروف رکھنے والی ٹیکنالوجی میسر نہیں تھی۔ یہ لوگ آخری ہیں کہ جن کے والدین کو موبائل فون وغیرہ سے زیادہ قصے کہانیوں میں دلچسپی تھی، یہ وہ آخری پیڑھی ہے جنہیں بچپن میں رات کو سوتے وقت اسکرین دیکھنے کو نہیں بلکہ لوک کہانیاں، سچے واقعات اور والدین کے بچپن کے قصے سننے کو ملا کرتے تھے۔ اب ایسا کچھ نہیں ہوگا کیونکہ جدت کے نام پر ہمیں قید کیا جا رہا ہے اور کافی حد تک کم قید ہوچکے ہیں۔

دیکھ لیں آپ آج کے نئے والدین کیسی اچھی تربیت کر رہے ہیں؟ کیسا مکمل دھیان دے رہے ہیں یا پھر کونسی مناسب توجہ آج کل کے بچوں میسر ہے؟ نظر دوڑائیں اور مشاہدہ کریں جواب خود مل جائے گا۔ آج کی ماڈرن والدہ اور خود کو جدت کا پیکر سمجھنے والے یہ ڈیڈی کہاں وہ حق ادا کر رہے ہیں جو ان کی اولاد کا حق ہے۔ وہ تو صرف خود کو جدت کے ساتھ چلاتے ہوئے، آپ ٹو ڈیٹ کہلانے میں مصروف ہیں۔ موبائل یا دیگر ٹیکنالوجیز کو بنانے والے ممالک انھیں اتنا استعمال نہیں کرتے جتنا ہم کرتے ہیں۔

پچھلے کچھ سالوں سے اب کا موازنہ کریں تو بخوبی علم ہوگا کہ کس قدر ہم اس دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔ ہر ٹیکنالوجی کارآمد ہے لیکن اس کے استعمال کا طریقہ درست ہونا لازم ہے، یہاں تو ہم فارغ ہوئے نہیں کہ موبائل ہاتھ میں اور اسکرولنگ شروع یہاں تک کہ ہمارے یہاں اسے وقت دینے کے لیے الگ سے وقت نکالا جاتا ہے۔ ایسے میں آنے والی نسل کیا دیکھے گی اور کیا کچھ سیکھی گی یہی ہر وقت موبائل کا استعمال اور نتیجہ ذہنی طور پر مفلوج نہ کچھ نیا سوچ سکو نہ کرسکو۔ ہم اس قدر منفی طور پر اس میں گم ہوچکے ہیں کہ ہمارے بچے بھی اسی راہ پر ہیں۔ وہ ہر شے اس میں سے تلاش کر رہے ہیں، ہر لطف، ہر جستجو کی انتہا انھیں اس آلے میں میسر ہے پھر کیونکر وہ کچھ الگ سے کریں گے۔ نہ کھیلنے کے لیے میدان کا رک کرنا پڑتا ہے نہ جسمانی صحت بہتر ہوپا رہی ہے۔

یہ بات بلکل درست ہے کہ جہاں کے میدان ویران ہوں وہاں کے اسپتال آباد ہوتے ہیں یہی ہو رہا ہے ہمارے یہاں میدان ویران ہیں بچوں سے، جبکہ بچوں کے ہاتھ میں ٹیکنالوجی کے نام پر موبائل ہمہ وقت موجود ہیں۔ اس کا نتیجہ سامنے ہے غور کریں نوجوانوں اور بڑھتی عمر کے بچوں میں آنکھوں کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مسائل کس طرح سامنے آرہے ہیں۔

Check Also

Pur Aman Ehtijaj Ka Haq To Do

By Khateeb Ahmad