Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hamza Bhatti
  4. Saltanaton Ka Qabristan (4)

Saltanaton Ka Qabristan (4)

سلطنتوں کا قبرستان (4)

طالبان کی حکومت بننے کے بعد صرف تین اسلامی ممالک جن میں پاکستان سعودی عرب اور یو اے ای شامل ہیں یہ تینوں اسلامی ممالک افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لیتے ہیں جبکہ باقی پوری دنیا کے زیادہ تر ممالک کی جانب سے افغانستان میں موجود طالبان کو سخت تنقید اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ طالبان بہت سی چیزوں پر پابندیاں لگانا شروع کر دیتے ہیں۔

آپ کو جس طرح پہلے کالمز میں بتایا جا چکا ہے کہ طالبان پشتون آئیڈیالوجی پر پختہ یقین رکھتے تھے لہذا دیگر قبیلے جن میں ہزارہ برادری دیگر مسلم اور ہندو اور کرسچن شامل ہیں ان کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کے ساتھ الگ رویہ رکھا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان میں مکمل طور پر اسلامی قانون نافذ کر دیا جاتا ہے اور ہر مرد کے لیے داڑھی رکھنا لازم قرار دی جاتی ہے جبکہ عورتوں کا گھر سے باہر نکلنا اس وقت تک بین قرار دے دیا جاتا ہے جب تک ان کے ساتھ ان کا کوئی محرم موجود نہ ہو اور 10 سال سے زیادہ بڑی لڑکیوں کی تعلیم پر بھی پابندی لگا دی جاتی ہے اور ان کا گھر سے باہر داخلہ بھی بند کر دیا جاتا ہے۔

طالبان ٹی وی، سینما، وی سی ار اور زیادہ تر پینٹنگ کرنا اس کے علاوہ فٹ بال اور دیگر بہت سی گیمز پر بھی پابندی لگا دیتے ہیں۔ یو این آفسز، این جی اوز اور خصوصاََ انٹرنیٹ پر بھی پابندی لگا دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ فوٹوگرافی کلین شیو کرنا اور فارنرز کا افغانستان میں داخلہ بھی بند کر دیا جاتا ہے ان تمام اقدامات پر پوری دنیا کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے۔

افغانستان کے اس وقت کے صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کو بھی قتل کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد 1990 میں ایک ناردن الائنس بنتا ہے جس کی سربراہی احمد شاہ مسعود کرتے ہیں اور وہ طالبان کے خلاف جنگ شروع کر دیتا ہے لیکن 2001 میں ناردان الائنس یہ جنگ ہار جاتا ہے اور احمد شاہ مسعود کو بھی قتل کر دیا جاتا ہے۔ ناردن الائنس کے سربراہ احمد شاہ مسعود 9 ستمبر 2001 کو قتل کیے گئے جبکہ اس قتل کے صرف دو دن بعد 11 ستمبر 2001 کو القاعدہ امریکہ میں نائن 11 کا اٹیک کر دیتا ہے جس القاعدہ کے اس وقت کے سربراہ اسامہ بن لادن افغانستان میں ہی مقیم تھے اور طالبان اسامہ بن لادن کو پناہ فراہم کرتے ہیں جس کے بعد امریکہ میں شدید غم غصہ پایا جاتا ہے اور وہ افغانستان کو مکمل طور پر تباہ کرنے کا سوچ لیتا ہے اور افغانستان کی تاریخ یہاں سے ایک نیا رخ لیتی ہے۔

القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کا بنیادی تعلق سعودی عربیہ سے تھا لیکن جن دنوں انہوں نے لائن الیون کا اٹیک کیا وہ ان دنوں افغانستان میں پناہ گزیر تھے جبکہ ملا عمر کو امریکہ نے پاکستان کے ذریعے کئی دفعہ یہ پیغام بھیجا کہ اسامہ بن لادن کو ان کے حوالے کر دو۔ ملا عمر جو اس وقت طالبان کے سربراہ تھے انھوں نے کہا کہ اسامہ بن لادن ہمارا مہمان ہے اور ہم مہمانوں کو کسی کے حوالے نہیں کیا کرتے۔

اسامہ بن لادن اس امریکی حملے کو تسلیم کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ امریکہ سے اس بات کا بدلہ ہے جو امریکہ صومالیہ، لیبیا اور افغانستان میں مسلمانوں کے ساتھ کر رہا ہے لہذا یہ مسلمانوں کی طرف سے حملہ مسلمانوں کا بدلہ ہے جس کے بعد امریکہ زخمی شیر کی طرح افغانستان پر چڑھ دوڑتا ہے۔ مختصر عرصے میں ہی امریکہ مجاہدین کی ناردن الائنس کے ذریعے طالبان کو مکمل طور پر پچھاڑ دیتے ہیں اور احمد شاہ مسعود کے نمائندے حامد کرزئی ملک کے نئے سربراہ یعنی صدر بنائے جاتے ہیں جس کے بعد 2004 میں افغانستان میں ایک نیا آئین لایا جاتا ہے جس کے تحت ملک میں انتخابات کا اعلان کیا جاتا ہے اور تقریباََ چھ ملین کے قریب افغانی اس الیکشن میں شرکت کرتے ہیں۔

ان انتخابات میں حامد کرزئی واضح اکثریت سے فتح حاصل کرتے ہیں اور دوبارہ سے ملک کے نئے صدر منتخب ہو جاتے ہیں حامد کرزائی آتے ہی بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے کی حامی بھرتے ہیں اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری لاتے ہیں جبکہ پاکستان اور افغانستان کے حالات میں کشیدگی ہی رہتی ہے۔ اسی دوران امریکہ طالبان کے خلاف اپنا آپریشن جاری رکھتا ہے اور افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود طالبان کو بھی ختم کرنےکا سلسلہ بھی جاری رکھتا ہے اور اسی سلسلے کے نتیجے میں 2011 میں ایبٹ اباد آپریشن کے ذریعے اسامہ بن لادن کو بھی ہلاک کر دیا جاتا ہے۔

یہ وہی ایبٹ اباد آپریشن ہے جس کے بارے میں امریکہ کے سابق صدر براک اوباما اپنی نئی کتاب اے پرامسڈ لینڈ، میں لکھتے ہیں کہ پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں نیوی سیلز کے آپریشن میں القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد اُن کا خیال تھا کہ سب سے مشکل فون کال پاکستانی صدر آصف زرداری کو ہوگی کیونکہ اس واقعے کے بعد ان پر پورے ملک سے دباؤ ہوگا کہ پاکستان کی سالمیت کی تضحیک ہوئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں توقع کر رہا تھا کہ یہ کافی مشکل کال ہوگی لیکن جب میں نے ان سے رابطہ کیا تو ایسا بالکل نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جو بھی رد عمل ہو، یہ بہت خوشی کی خبر ہے۔

اوباما لکھتے ہیں کہ صدر آصف زرداری اس فون کال پر واضح طور پر جذباتی تھے اور انھوں نے اپنی اہلیہ بینظیر بھٹو کا بھی ذکر کیا جنھیں القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں نے ہلاک کیا تھا۔ مگر اس آپریشن کے بعد پاکستانیوں میں امریکہ کے خلاف جذبات ابھرے اور پاکستانیوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ ہم ایک آزاد اور خود مختار ملک ہیں لہذا یہ ہماری سالمیت پر حملہ ہے کہ امریکہ جو اس وقت پاکستان کا اتحادی بھی تھا اس نے پوچھے بغیر پاکستان کے اتنے بڑے شہر پر حملہ کر دیا۔ بیرون ملک موجود پاکستانی ہوں یا پاکستان میں موجود عوام امریکہ کے سخت خلاف ہو گئے۔ امریکہ مخالف ہمدردی کا ووٹ تو پہلے بھی موجود تھا جس میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

2015 میں اس بات کا انکشاف کیا جاتا ہے کہ طالبان کے اس وقت کے سربراہ ملا عمر ایک بیماری کے وجہ سے 2013 میں ہی پاکستان میں موت کا شکار ہو گئے تھے لیکن امریکہ اس کے باوجود افغانستان میں اپنا اثر اور رسوخ قائم کرنے کے لیے اپنی فوج کو وہاں پر ٹھہرائے رکھتا ہے اور طالبان کے خلاف آپریشن جاری رکھتا ہے لیکن طالبان مکمل طور پر ختم نہیں ہوتے بلکہ کہیں نہ کہیں اپنا وجود رکھتے ہیں امریکہ افغانستان کی حکومت کو بھی مکمل طور پر سپورٹ کرتا ہے اور افغانستان میں موجود حکومت بھی امریکی مفادات کا مکمل طور پر خیال رکھتی ہے کیونکہ وہ امریکہ کی مدد سے بنی ہوتی ہے۔

طالبان اس سارے عرصے کے دوران افغانستان اور اس کے پڑوسی ممالک میں اپنی کاروائیاں جاری رکھتا ہے جس میں بہت سے سویلین مارے جاتے ہیں بالاخر فروری 2020 میں امریکن پریزیڈنٹ ڈونلڈ ٹرمپ افغان طالبان سے ٹیبل ٹاک کرنے لگتے ہیں اور یہ شرط عائد کرتے ہیں کہ اگر طالبان القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہ سے اپنا تعلق ختم کر لے تو ہم افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لیں گے اور طالبان سے تعلقات بہتر کر لیں گے۔ کیونکہ امریکہ اس ساری جنگ میں اپنا بہت سارا نقصان کر چکا تھا اور تقریباََ ایک اندازے کے مطابق دو ٹرلین ڈالرز کے قریب افغانستان میں خرچ کر چکا تھا لہذا امریکی عوام بھی اس آپریشن کے خلاف تھی اور وہ چاہتی تھی کہ اب افغانستان کی جنگ سے ہمیں نکلنا چاہیے اور واپس آ جانا چاہیے۔

امریکی عوام اب اپنے حکمرانوں سے یہ سوال کرتی تھی کہ ہم 20 سال سے افغانستان میں جنگ لڑ رہے ہیں جہاں پر ہمارے فوجی جوان اور ہمارے پیسے خرچ ہو رہے ہیں اور ہمیں حاصل بھی کچھ نہیں ہو رہا تو لہذا ہمیں اپنی فوجی واپس بلا لینے چاہیے ڈونلڈ ٹرمپ کا دور حکومت ختم ہونے کے بعد جو بائیڈن نے بھی اسی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد بہت سے تجزیہ نگاروں نے یہ بات کہنا شروع کر دی کہ امریکہ بھی بالاخر برطانیہ اور رشین امپائر کے بعد یہ جنگ بری طرح ہار کر واپس جا رہا ہے۔

بہت سے ماہرین کو امریکہ کے انخلا کی سمجھ اس لیے نہیں آئی کیونکہ امریکہ اگر افغانستان میں بدلہ لینے آیا تھا تو وہ تو اسامہ بن لادن کے مرنے کے بعد پورا ہو چکا تھا لیکن اگر افغانستان میں امریکہ اس لیے آیا تھا کہ وہ افغانستان کو ڈیموکریٹک کنٹری بنائے اور طالبان کو مکمل طور پر ختم کرے تو اس مشن میں تو امریکہ مکمل طور پر ناکام رہا اور ناکامی کا سامنا کرتے ہوئے طالبان کے ہاتھوں مکمل طور پر شکست کھا کر واپس چلا گیا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح پہلے سلطنت برطانیہ اور یو ایس ایس ار افغانستان کے مجاہدین کے ہاتھوں شکست کھا کر واپس لوٹ گئے تھے۔

مختلف ماہرین کو جواب دیتے ہوئے امریکہ کے پریزیڈنٹ جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ مجھے افغان طالبان پر تو بالکل اعتماد نہیں لیکن افغان ملٹری پر اعتماد ہے کیونکہ ان کی تعداد تین لاکھ کے قریب ہے جب کہ اس وقت لڑنے والے افغان طالبان کی تعداد تقریباََ 75 ہزار سے 85 ہزار کے قریب تھی لہذا وہ آسانی سے ان کا مقابلہ کر لیں گے۔ جو بائڈن کے اس جواب سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ تھک چکا تھا پیسے لگا لگا کر اور اپنے فوجی وہاں پر مروا مروا کر کیونکہ طالبان تو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے اور امریکہ اس جنگ میں مزید کودنا نہیں چاہتا تھا لہذا اس نے تاریخ کو دیکھتے ہوئے برطانیہ اور رشین امپائر کی طرح واپس جانا ہی بہتر سمجھا۔

امریکہ کے جاتے ہی طالبان نے امریکہ نواز حکومت کو چلتا کیا اور ایک بار پھر افغانستان فتح کر لیا 15 اگست 2021 کو طالبان کی فوج کابل میں داخل ہوئی اور صدر اشرف غنی افغانستان سے بھاگنے پر مجبور ہو گئے ٹھیک اسی طرح جس طرح حال ہی میں شیخ حسینہ واجد کو بنگلادیش سے بھاگنا پڑا۔ 19 اگست کو طالبان نے افغانستان کو اسلامک ایماریٹس آف افغانستان ڈکلئیر کر دیا۔ 7 سبتمر کو حسن اخوند کو افغانستان کا وزیر اعظم بنا کر حکومت قائم کر دی گئ۔ جبکہ 4 نومبر کو چین، روس، ایران اور پاکستان کی جانب سے طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لیا گیا۔

اور افغانستان ایک دفعہ پھر سلطنتوں کا قبرستان ثابت ہوا۔ جہاں اپنے وقت کی سپر پاورز سلطنت برطانیہ، رشین امپائر اور امریکہ کوئی بھی نہ ٹک سکا۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Pur Aman Ehtijaj Ka Haq To Do

By Khateeb Ahmad