Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hamza Bhatti
  4. Saltanaton Ka Qabristan (3)

Saltanaton Ka Qabristan (3)

سلطنتوں کا قبرستان (3)

داؤد خان کے قتل کے بعد افغانستان میں کمیونسٹ حکومت قائم ہوتی ہے اور نور محمد تراکئی افغانستان کے نئے حکمران بنتے ہیں جس کے بعد افغانستان ایک جمہوری ملک کہلانے لگا۔ نئے حکمران آتے ہی ملک میں نئے ریفارمز کرنا شروع کر دیتے ہیں سب سے پہلے بہت سے لینڈ ریفارمز کیے جاتے ہیں اس کے بعد افغانستان کی آزادی کے دن کے موقع پر افغانستان کا پہلا انڈیپینڈنٹ ٹی وی چینل لانچ کیا جاتا ہے۔ انہی کے دور میں لڑکیوں کو سکول بھجوانے کا کام شروع ہوتا ہے کیونکہ ان کا تعلق ایک کمیونسٹ پارٹی سے تھا لہذا یہ اسلام کے ناقد سمجھے جاتے ہیں اور اسلامک ایکسٹریمسٹ اور مولویوں سے ان کی طاقت چھین لیتے ہیں۔

جیسا کہ آپ کو پہلے کالموں میں بتایا جا چکا ہے کہ افغانستان میں جب سے باقاعدہ انتخابات ہونے شروع ہوئے تھے تو وہاں پر دو نظریات کی سیاسی جماعتیں ہی موجود تھیں ایک کمیونسٹ اور دوسری اسلامی لہذا یہ کمیونسٹ کی حکومت اسلام مخالف سمجھی جا رہی تھی لہذا اسلامی نظریے کے حامیوں نے افغانستان میں باقاعدہ طور پر سول وار کا آغاز کر دیا۔ اسلامی نظریات کے حامی سب مل کر اس سول وار میں حصہ لینا شروع ہو گئے جبکہ کمیونسٹ نظریات کے لوگ دو حصوں میں تقسیم ہو گئے اسی سول وار کے دوران 1979 میں نور محمد تراکئی کو بھی قتل کر دیا جاتا ہے۔ جوں ہی نور محمد تراکئی کو قتل کیا جاتا ہے تو سوویت یونین حرکت میں آ جاتی ہے کیونکہ نور محمد تراکئی کمیونسٹ لیڈر تھے لہذا سوویت یونین کو افغانستان پر حملہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور سوویت یونین 1979 میں افغانستان پر حملہ کر دیتی ہے۔

سوویت یونین افغانستان میں مجاہدین کے خلاف جنگ شروع کر دیتا ہے یہ سارا معاملہ جب امریکہ دیکھتا ہے تو امریکہ سوچتا ہے کہ سوویت یونین کہیں افغانستان پر اپنا انفلوئنس قائم نہ کر لے لہذا وہ سوچتے ہیں کہ کس طریقے سے افغانستان میں سوویت یونین کا مقابلہ کیا جائے؟ لہذا سوویت یونین کے کمیونسٹ نظریات کے مخالف نظریہ اسلام کے حامی اور مجاہدین ہی تھے جن کے خلاف سوویت یونین اپنے نظریے کا دفاع کرنے کے لیے افغانستان میں جنگ چھیڑ چکا تھا لہذا امریکہ نے مجاہدین اور اسلامی نظریات کے حامیوں کو فنڈنگ دینا شروع کر دی اور ان کی مکمل اور بھرپور امداد شروع کر دی۔

اسلامی نظریات کے حامی اور کمیونسٹ میں تو جنگ جاری تھی ہی لیکن کیونکہ کمیونسٹ میں بھی دو گروہ تھے لہذا کمیونسٹ کے ایک گروہ جن کو حفیظ اللہ امین لیڈ کر رہے تھے نے دوسرے گروہ کے لیڈر نور محمد تراکئی کو قتل کروا دیا تھا۔ اس سے پہلے نور محمد تراکئی نے بھی حفیظ اللہ امین کو قتل کروانے کی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہے تھے۔ لہذا اسی دورانیے میں 1979 میں افغانستان کے ہمسائے ملک ایران میں بھی اسلامک ریولوشن آ گئی۔

ایران میں بھی اسی قسم کی صورتحال تھی کیونکہ ایران میں بھی ایک طرف اسلامی نظریات کے حامی تھے تو دوسری طرف بائیں بازو کے اور کمیونسٹ لہذا ایران کے اس وقت کے حکمران محمد رضا جو کہ سیکولر اور لبرل مائنڈ سیٹ کے تھے انہوں نے طاقت کے نشے میں اپنے مخالفین کو مروانا شروع کر دیا جس کے بعد اسلامی نظریات کے حامیوں نے ایک ریولوشن کی صورت میں ایران پر قبضہ کر لیا۔

جس کے بعد حفیظ اللہ امین نے بھی محسوس کیا کہ یہی انقلاب جو ایران میں آیا ہے یہ کہیں افغانستان کا رخ نہ کر لے لہذا اس نے افغانستان میں مسجدیں تعمیر کروانا شروع کر دی اور افغانستان میں حفیظ اللہ امین نے اپنی تقریروں میں اللہ کا نام لینا شروع کر دیا اور قرآن مجید کی کاپیاں پورے ملک میں تقسیم کروانی شروع کر دی حالانکہ وہ ایک کمیونسٹ گروہ سے تعلق رکھتے تھے لیکن ان کا یہ سارا کام کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اسلامی نظریات کے حامی بھی ان کے ساتھ مل جائیں۔

عوام امین اللہ حفیظ کو اب ناپسند کرنے لگی تھی کیونکہ حفیظ اللہ امین افغانستان کے عوام پر بہت سے مظالم کر چکا تھا۔ اگر دیکھا جائے تو ایران کے محمد رضا ہوں یا افغانستان کے نور محمد تراکئی یا پھر حفیظ اللہ امین ہوں یہ باہر سے جو بھی اپنے نظریات پیش کریں لیکن اندر سے انہیں اقتدار میں رہنے کا نشہ ضرور ہوتا ہے جو خصوصیت آجکل کے حکمرانوں اور سیاسی رہنماؤں میں بھی کثرت سے پائی جاتی ہے۔ کیونکہ ڈکٹیٹر طاقت میں رہنے کے لیے کوئی بھی جواز پیش کر سکتا ہے۔

اس سے پہلے کہ اسلامی نظریات کے حامی افغانستان کو فتح کرتے اور افغانستان پر قبضہ کرتے اس سے پہلے ہی دسمبر 1979 میں سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کر دیا اور حفیظ اللہ امین کو قتل کروانے کی بھی دو بنیادی وجوہات تھی ایک وجہ تھی نظریات کی اور وہ یہ تھی کہ افغانستان میں کیومنزم کا نظریہ بہت کمزور ہوتا جا رہا تھا اور اس کی وجہ تھی حفیظ اللہ امین لہذا کمیونسٹ نظریے کے دفاع کے لیے سودیت یونین نے مداخلت کرکے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی اور دوسری وجہ جغرافیائی اور سیاسی تھی کیونکہ امریکا بھی افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتا تھا اس لیے امریکا اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ جاری رہی۔

چنانچہ سوویت یونین نے افغانستان پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرتے ہوئے کسی دوسرے ملک کو امریکہ کے خلاف استعمال کرنا بہتر سمجھا۔ سوویت یونین نے حفیظ اللہ امین کو مروا کر بابرک کرمل کو افغانستان کا نیا حکمران بنا دیا بابرک کرمل نے آتے ہی افغانستان کو نیا آئین دینے کی حامی بھری اور آتے ہی تقریبا 27 ہزار قیدیوں کو رہا کر دیا اور ملک میں بولنے کی آزادی، مذہبی آزادی اور عوام کو احتجاج کرنے کا حق اور نئے آزادانہ انتخابات کا بھی اعلان کر دیا۔ جس کے بعد محسوس ہونے لگا کہ افغانستان میں اب امن بحال ہو جائے گا۔

سوویت یونین کا افغانستان پر اثر و رسوخ دیکھنے کے بعد امریکہ کس طرح چپ رہ سکتا تھا کیونکہ سوویت یونین ویتنام اور ایتھوپیا جیسے ممالک میں بھی امریکہ کو بہت تنگ کر رہا تھا اور اس کا بہت بڑا مد مقابل بن چکا تھا لہذا امریکہ نے افغانستان میں سوویت یونین سے بدلہ لینے کی مکمل طور پر ٹھان لی اور ارادہ کر لیا کہ افغانستان میں سوویت یونین سے بدلہ لیا جائے گا لہذا امریکہ نے مجاہدین اور اسلامی نظریات کے حامیوں کو جو کمیونسٹ نظریات کے حامیوں کے خلاف لڑ رہے تھے کی سپورٹ کرنا شروع کر دی اور کیونکہ پاکستان اور سعودی عرب جیسے ممالک پہلے ہی اسلامی نظریات کے حامیوں کو سپورٹ کر رہے تھے لہذا امریکہ نے بھی مکمل طور پر ان کی امداد کا اعلان کر دیا اور انہیں مالی طور پر بھی امداد فراہم کرنا شروع کر دی۔

امریکی خفیہ ایجنسی سی ائی اے نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف باقاعدہ ایک آپریشن کا منصوبہ بنایا جسے آپریشن سائیکلون کا نام دیا گیا اس آپریشن کے بارے میں سی ائی اے کے اس وقت کے ڈائریکٹر رابرٹ گیٹس نے بعد میں انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کے امریکی صدر جیمی کارٹر نے حکم دیا تھا کہ مجاہدین کو تین جولائی 1979 کو پانچ لاکھ امریکن ڈالر کی امداد فراہم کی جائے۔ بعد میں آنے والے امریکی صدور نے بھی امداد کے سلسلے کو جاری رکھا نہ صرف امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی ائی اے بلکہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی برٹش خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس اور سعودی عرب بھی مجاہدین کو امداد فراہم کر رہے تھے۔

مجاہدین کو جب اتنے ممالک کی طرف سے امداد فراہم کی جاتی ہے تو مجاہدین سوویت یونین کے خلاف لڑنے میں اپنی پوزیشن مضبوط کر لیتے ہیں۔ مجاہدین جو پہاڑوں میں چھپ کر لڑا کرتے تھے ان کے پاس اتنا جدید اسلحہ آ چکا ہوتا ہے کہ وہ اب سوویت یونین کا کھلے عام مقابلہ کرنا شروع کر دیتے ہیں اور سوویت یونین کو جھٹکے لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ 1988 میں افغانستان کے صدر محمد نجیب اللہ پاکستان کے ساتھ ایک امن کا معاہدہ کرتے ہیں جسے جنیوا اکارڈ کہا جاتا ہے اس ایگریمنٹ کو امریکہ اور سوویت یونین کی طرف سے کروایا جاتا ہے جس میں دونوں ممالک اس بات کی حامی بھرتے ہیں کہ دونوں ممالک کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

اسی کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی اس بات کی حامی بھرتا ہے کہ اگر سوویت یونین افغانستان سے اپنے فوجی نکال لے گا تو امریکہ بھی مجاہدین کو مالی اور اسلحے کی یہ امداد فراہم کرنا بند کر دے گا اور آخر کار نو سالوں بعد 1989 میں سوویت یونین افغانستان سے اپنے فوجی نکالنا شروع کر دیتا ہے۔ سوویت یونین کے افغانستان سے انخلا کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ سوویت یونین خود ٹکڑوں میں تقسیم ہونا شروع ہوگیا تھا اور اس میں سے کئی ریاستیں جنم لینا شروع ہوگئی۔ لہذا سوویت یونین نے افغانستان سے انخلا میں ہی اپنی بقا سمجھی۔

اسی دوران افغانستان کے صدر ڈاکٹر نجیب اللہ افغانستان میں جاری اس خانہ جنگی کو ختم کرنے کے لیے مکمل اور بھرپور کوشش شروع کر دیتے ہیں اور 1987 میں ایک نیا آئین لے کر آتے ہیں اور 1988 میں نئے پارلیمنٹری انتخابات کروائے جاتے ہیں اور ڈاکٹر نجیب اللہ کی پارٹی دوبارہ سے زیادہ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور ڈاکٹر نجیب اللہ دوبارہ سے ملک کے صدر منتخب ہو جاتے ہیں۔

1990 میں افغانستان کو اسلامک ریپبلک ڈکلیئر کر دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر نجیب اللہ افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھتے ہیں اور اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ باہر کے ممالک سے سرمایہ کاری افغانستان میں آئے۔ اسی دوران امریکہ مجاہدین کو اسلحہ سپلائی کرتا رہتا ہے اور انہیں امداد بھی فراہم کرتا رہتا ہے مجاہدین ایک انچ بھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹتے اور وہ ابھی بھی سمجھتے ہیں کہ اسلام خطرے میں ہے۔ وہ 1988 کے پارلیمنٹری الیکشنز کا بھی بائیکاٹ کر دیتے ہیں۔ تو دوسری جانب سوویت یونین بھی ڈاکٹر نجیب اللہ کو امداد فراہم کرتا رہتا ہے اور اس کی سپورٹ کرتا رہتا ہے لیکن یہ سب بے سود جاتا ہے کیونکہ 1991 میں سوریت یونین خود ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتا ہے اور 1992 میں مجاہدین اس سول وار کو جیت لیتے ہیں۔

مجاہدین بھی مختلف گروپوں کی صورت میں مل کر مجاہدین کی شکل میں ابھرے تھے لہذا افغانستان کی سول جنگ جیتنے کے بعد مجاہدین کی آپس میں لڑائی شروع ہو جاتی ہے کہ کون سا گروپ اقتدار کو سنبھالے گا لہذا کچھ عرصے کے بعد اسلامک ریپبلک آف افغانستان کے نئے لیڈر سامنے آتے ہیں جن کا نام برہان الدین ربانی ہوتا ہے۔ اگلے تقریبا تین چار سال تک برہان الدین ربانی ہی افغانستان کو لیڈ کرتے ہیں لیکن کچھ عرصے بعد ہی افغانستان میں ایک نیا گروپ طالبان کے نام سے ابھر کر سامنے آتا ہے اور برہان الدین ربانی کی حکومت کو 1996 میں طالبان ختم کر دیتے ہیں۔

پشتو میں طالبان کا مطلب ہے سٹوڈنٹس، طالبان کے سب سے پہلے سربراہ ملا عمر تھے جنہوں نے 50 لوگوں کے گروپ کے ساتھ مل کر طالبان کی بنیاد رکھی۔ بعد میں لوگ اس کے ساتھ شامل ہوتے گئے پاکستان کے مدرسوں میں پڑھنے والے بہت سے افغانی جب افغانستان میں واپس آئے تو ان سب نے ان طالبان کی سپورٹ اور حمایت شروع کر دی اور ان کے ساتھ مل کر ایک باقاعدہ جدوجہد شروع کر دی۔ مجاہدین کی نسبت طالبان اسلام کے نظریے کے زیادہ حمایتی تھے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ پشتو آئیڈیالوجی پر بھی یقین رکھتے تھے۔

پاکستان اور سعودی عرب نے بھی طالبان کو بھرپور سپورٹ کیا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اصل میں امریکہ نے ہی طالبان بنائے۔ اس بات میں کہ امریکہ نے طالبان بنائے کسی حد تک سچائی بھی ہے اور کسی حد تک یہ بات درست نہیں بھی، کیونکہ امریکہ نے کوئی باقاعدہ طور پر گروپ کے طور پر طالبان نہیں بنائے بلکہ جب امریکہ نے میلین آف ڈالرز کی انویسٹمنٹ افغانستان میں شروع کر دی اور اسلح سپلائی کرنا شروع کر دیا اور ایسا ماحول بنا دیا کہ افغانستان میں خانہ جنگی کا تو اسی میں سے طالبان کا ایک گروہ وجود میں آیا۔

لہذا ستمبر 1996 تک افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہو چکا تھا اور طالبان نے افغانستان کو اسلامک ایمریٹس آف افغانستان کا نام دے دیا لہذا شروع شروع میں عوام بھی طالبان کے ساتھ تھی کیونکہ طالبان نے آتے ہی افغانستان میں امن قائم کرنا شروع کر دیا تھا۔ لیکن بعد میں جب افغانستان میں طالبان کی پابندیاں بڑھنے لگی تو اسی تناسب سے عوام میں بھی ان کی مخالفت بڑھنے لگی۔۔

جاری ہے۔۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Kya Sinfi Tanaza Rafa Hoga?

By Mojahid Mirza