Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hamza Bhatti
  4. Saltanaton Ka Qabristan (2)

Saltanaton Ka Qabristan (2)

سلطنتوں کا قبرستان (2)

کنگ امان اللہ خان کے بعد نادر شاہ افغانستان کے نئے حکمران بنےجو کہ 1933 تک رہے بالآخر وہ بھی قتل کر دیے گئے اور 1933 میں ان کے صاحبزادے ظاہر شاہ افغانستان کے نئے حکمران بنے جو کہ اگلے 40 سال تک افغانستان پر حکمرانی کرتے رہے۔ یہ آخری خاندانی موروثی بادشاہ تھے اور قتل کیے جانے والے افغان بادشاہ نادر شاہ کے بچ جانے والے واحد فرزند تھے۔ جس کی تعلیم کابل اور فرانس میں ہوئی۔ آٹھ نومبر انیس سو تینتیس میں اپنے والد کے قتل کے چند گھنٹے بعد ہی ظاہر شاہ کو بادشاہ بنا دیا گیا اور اس نے متوکل اللہ پیرواِ دینِ متینِ اسلام کا ٹائیٹل اپنالیا۔

ظاہر شاہ نے افغانستان کو ماڈرنائزیشن کی طرف لے جانے میں اہم کردار ادا کیا اور اس کے علاوہ دیگر ممالک سے سفارتی تعلقات بھی بہتر کرنے کی مکمل اور بھرپور کوشش کی۔ سن 1947 میں جب بھارت اور پاکستان کو برٹش ایمپائر نے آزاد کیا تو اس وقت افغانستان اور برٹش ایمپائر کے درمیان موجود باؤنڈری لائن یعنی ڈیورنڈ لائن کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان مستقل طور پر بارڈر بنا دیا گیا جس سے افغانستان خوش نہیں تھا کیونکہ افغانستان چاہتا تھا کہ پاکستان کا اور بھی حصہ افغانستان میں شامل کیا جائے۔

اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ افغانستان کی زیادہ تر آبادی پشتونوں پر مشتمل تھی جبکہ پاکستان کے صوبہ سرحد یعنی خیبر پختون خواہ کی زیادہ تر آبادی کا تعلق بھی پشتون قبیلوں سے تھا اس لیے افغانستان خیبر پختون خواہ کے کچھ علاقوں کو اپنا حصہ بنانا چاہتا تھا۔ لہذا افغانستان کے کچھ لوگ اس کے لیے بہت سرگرم تھے کہ خیبر پختون خواہ کے کچھ علاقوں کو اپنے ساتھ شامل کیا جائے اسی لیے افغانستان کے اس وقت کے حکمران ظاہر شاہ کے وزیراعظم جو ان کے کزن بھی تھے جن کا نام داؤد خان تھا انہوں نے پاکستان میں چلنے والی علیحدگی کی تحریک یعنی سیپریٹسٹ موومنٹ جو خصوصی طور پر خیبر پختون خواہ میں شروع ہوئی تھی اس کی مکمل حمایت اور مدد کی۔

جب پاکستان کو اس معاملے کا علم ہوا تو پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنے بارڈر کو مکمل طور پر بند کر دیا جس کے بعد پاکستان اور افغانستان میں ہونے والی تجارت مکمل طور پر رک گئی۔ جس کا افغانستان کو بھی خاصہ نقصان ہوا اسی وجہ سے ظاہر شاہ نے اپنے وزیراعظم جو ان کے کزن بھی تھے ان کو مستفی ہونے پر مجبور کیا اسی وجہ سے کہ وہ علیحدگی کی تحریک کو اس قدر سپورٹ کیوں کر رہے تھے لہذا 1963 میں ان سے استعفی لے لیا گیا۔

1964 میں ظاہر شاہ کی طرف سے ایک نیا آئین لایا گیا اور وزیراعظم کے انتخاب کا اعلان بھی کیا گیا جو کہ 1965 میں ہونا تھا اس میں ایک رول یہ بھی رکھا گیا کہ شاہی خاندان کا کوئی بھی رکن وزیراعظم کا انتخاب نہیں لڑ سکے گا۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ دوبارہ سے داؤد خان وزیراعظم کا الیکشن نہ لڑ سکے۔ اس وزیراعظم کے انتخاب میں عورتوں کو ووٹ کا حق بھی حاصل تھا اور اس کے ساتھ ساتھ عورت اس انتخاب میں حصہ بھی لے سکتی تھی۔

اسی دورانیے میں افغانستان میں دو مختلف نظریات دیکھنے کو ملے خاص طور پر یونیورسٹی کی سطح پر ایک نظریہ تھا کیومنسٹ نظریہ اور دوسرا تھا اسلامی نظریہ۔ 1973 میں ظاہر شاہ جب کسی بیرونی دورے پر گئے تو داؤد خان نے آرمی کی مدد سے اور مختلف کیومنسٹ دوستوں کی مدد سے ملک پر قبضہ کر لیا یعنی ظاہر شاہ کی حکومت کو ختم کر دیا اور ملک کو ٹیک اوور کر لیا۔ افغانستان پر فوج کے مکمل قبضے کے بعد داؤد خان نے اپنے آپ کو شہنشاہ نہیں بلکہ افغانستان کا صدر کہلوانا شروع کر دیا اور افغانستان کو ریپبلک آف افغانستان کا درجہ دے دیا۔

بظاہر داؤد خان کا یہ اقدام کہ اس نے افغانستان کو کانسٹیٹیوشنل منارکی سے ریپبلک بنا دیا اچھا تصور کیا گیا لیکن آہستہ آہستہ اس کے اثرات سامنے آتے گئے جس کے مطابق داؤد خان نے پارلیمنٹ اور جوڈیشری کی طاقت کو بہت کم کر دیا اور ایک ڈکٹیٹر کا روپ دھار لیا یعنی ایک ڈکٹیٹر کے طور پر سامنے آئے۔ ظاہر شاہ کیونکہ بیرونی دورے پر تھا اور جب اسے یہ خبر ملی کہ افغانستان پر اس کے کزن داؤد خان نے قبضہ کر لیا ہے تو اسے یہ بات قبول کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نظر نہ آیا اور اس نے اٹلی میں ہی سیاسی پناہ حاصل کرلی اور جلاوطنی کی زندگی گزرنے لگا۔

بظاہر تو داؤد خان ایک ڈکٹیٹر کے طور پر سامنے آئے تھے لیکن بعد میں انہوں نے افغانستان میں بہت سوشل اور اکنامک ریفارمز کیے مثال کے طور پر انہوں نے تمام بینکوں کو نیشنلائز کر دیا اور افغانستان کو ماڈرنزم کی طرف لے گئے یعنی کہ 1970 میں افغانستان ایک پرسکون اور ماڈرن جگہ بنتی جا رہی تھی۔

اس دور میں افغانستان کے پر امن ہونے کا انداز آپ اس بات سے لگائیں کہ اس وقت ویسٹرن کنٹریز سے ایک موومنٹ سٹارٹ ہوئی جس کا نام الٹرنیٹو ٹورسٹ موومنٹ تھا جسے ہیپی ٹریل کا نام بھی دیا گیا اس میں یورپ اور امریکہ سے لوگ ایران افغانستان سے ہوتے ہوئے بھارت تک سفر کرتے تھے۔ یہ ہیپی ٹریل کا سستا اور شاندار سفر تھا اس میں موجود لوگ ہوٹلوں میں نہیں بلکہ اپنے ساتھ جو کیمپ لاتے تھے انہی میں رہتے تھے اور افغانستان کے لوگوں سے گھل مل جاتے تھے افغانستان کے لوگ بھی بہت مہمان نواز اور یورپین اور امریکنز کے ساتھ وہ بھی گھل مل جاتے تھے یعنی اس وقت افغانستان اتنا پرسکون اور بہترین سیاحتی مقام تھا۔

عمران خان نے 2018 میں آتے ہی اپنی حکومت میں جب سکھوں کے لیے کرتار پور راہداری بنوائی تھی تو اسی وقت کانگرس رہنما اور بھارتی پنجاب کے اس وقت کے وزیر نبجوت سنگھ سدھو جب پاکستان آئے تو انھوں نے حامد میر کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں اس وقت پورے خطے سے مطالبہ کیا تھا اور اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اس پورے علاقے میں ایک ٹرین چلنی چاہیے جو افغانستان، پاکستان، انڈیا سے ہوتے ہوئے اس پورے خطے میں چلے تاکہ تمام ممالک کے آپس میں تعلقات میں اضافہ ہو اور بھائی چارہ اور محبت ایک دوسرے سے بڑھے۔

جب افغانستان ایک پرامن اور بہتین سیاحتی مقام بن چکا تھا تو اس پر ایک دفعہ پھر جنگ مسلط ہونا شروع ہوگئی پہلے افغانستان پر برٹش اور رشین امپائر کا انفلوئنس جمانے کا خواب تھا جو گریٹ گیم کہلاتی تھی اس دفعہ امریکہ اور سوویت یونین میں کولڈ وار شروع ہوئی جس کا مقصد یہ تھا کہ دونوں ممالک یعنی سوویت یونین اور امریکہ زیادہ سے زیادہ ممالک پر اپنا انفلوئنس جمائیں اور وہ اسی کوشش میں مصروف ہو گئے۔

یو ایس اے اور سوویت یونین کے درمیان جاری اس کولڈ وار کے درمیان ایک ورچوئل وال بھی تھی جسے ائرن کرٹن کہا جاتا تھا اس کے ایک سائیڈ پر موجود ممالک امریکہ کے انفلوئنس میں اور دوسری طرف موجود ممالک سوویت یونین کے انفلوئنس میں آتے تھے لیکن انہی کے درمیان ایک تیسری کیٹگری بھی موجود تھی جسے نان الائنڈ مومنٹ کہا جاتا ہے جسے پنڈت جواہر لال نہرو نے شروع کیا اور اس میں اور بھی بہت سے ممالک شامل تھے جن کا کہنا تھا کہ نہ وہ مکمل طور پر امریکہ کے ساتھ ہیں اور نہ ہی مکمل طور پر سوویت یونین کے ساتھ لہذا ان میں افغانستان بھی شامل تھا جس کا موقف بھی یہی تھا۔ جبکہ ان دونوں طاقتوں کی افغانستان پر نظریں ضرور موجود تھیں یعنی دونوں یہ چاہتے تھے کہ افغانستان پر اپنا انفلوئنس قائم کریں۔

ظاہر شاہ کی حکومت میں جب داؤد خان وزیراعظم تھے تو انہوں نے سوویت یونین سے مدد لی تھی افغانستان کو جدید کرنے میں لیکن جب یہ کولڈ وار شروع ہوئی سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان تو اس وقت داؤد خان نے محسوس کیا کہ صرف سوویت یونین پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ دوسرے ممالک سے بھی تعلقات بہتر کرنے چاہیے لہذا داؤد خان نے امریکہ سے بھی تعلقات بہتر کرنا شروع کر دیے جو سوویت یونین کو بالکل قابل قبول نہیں تھا۔ سویت یونین نے افغانستان کو ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش بھی کی۔ جس کے جواب میں داؤد خان نے کہا کہ افغانستان ایک خود مختار مملکت ہے لہذا اسے کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ کس طرح حکومت کرے یا کس طرح دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات رکھے۔

1970 میں داؤد خان نے اپنی ایک نئی جماعت تشکیل دی جس کا نام اس نےنیشنل ریولوشنری پارٹی رکھا اور یہ ایک نیا آئین لے کے آئے جس کے تین بنیادی نکات تھے جن میں سے ایک اسلام دوسرا نیشنلزم اور تیسرا سوشلزم تھا۔ افغانستان میں موجود لبرل لوگ داؤد خان کے ان اقدامات اور داؤد خان کی ڈکٹیٹر شپ کو ناپسند کرنے لگے اور داؤد خان نے بھی دیگر کمیونسٹ پارٹیوں کو اپنے لیے خطرہ محسوس کیا لہذا اس نے دیگر کمیونسٹ پارٹیوں کے لوگوں کو مروانا شروع کر دیا۔

داؤد خان طاقت میں رہنے کو ترجیح دیتے رہے اور ملک میں ہنگامے برپا ہوتے گئے لہذا وہی افغانستان جو ایک وقت میں بہترین سیاحتی اور پرامن مقام تھا اس میں باقاعدہ دن دہاڑے خونریزی ہونے لگ پڑتی ہے اور اپریل 1978 میں کمیونسٹ پارٹی کے ایک بڑے لیڈر کو قتل کر دیا جاتا ہے جو داؤد خان کی حکومت ختم ہونے کی اہم وجہ بنتی ہے۔ اب وہی داؤد خان جس نے ظاہر شاہ کی حکومت کو ختم کرکے افغانستان پر اپنی حکومت مسلط کر دی تھی اور افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا اسی داؤد خان کی حکومت کو ختم کر دیا جاتا ہے اور اسے خاندان سمیت قتل کر دیا جاتا ہے۔۔

جاری ہے۔۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Pak French Taluqat

By Sami Ullah Rafiq