Saltanaton Ka Qabristan (1)
سلطنتوں کا قبرستان (1)
ہمارے پڑوسی اسلامی ملک افغانستان میں آخر ایسی کیا بات ہے کہ اسے پوری دنیا "سلطنتوں کے قبرستان" کے نام سے جانتی ہے؟ آخر برطانیہ، سوویت یونین اور امریکہ سمیت دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اسے فتح کرنے کی کوششوں میں کیوں ناکام ہوئیں؟
ایسا بھی بالکل نہیں ہے کہ افغانستان کو کبھی فتح نہیں کیا گیا افغانستان کو کئی بار فتح کیا گیا! سب سے پہلے افغانستان کو جس نے فتح کیا اس کا نام سکندر اعظم تھا اس کے بعد بھی کئی لوگوں نے افغانستان کی فتح کا تاج اپنے سر پر سجایا ان میں عرب کنگز، چنگیز خان، مغل شہنشاہ شاہ جہان اور شہنشاہ اورنگزیب اور اس کے بعد راجہ رنجیت سنگھ نے بھی اسے فتح کیا جو کہ سب اپنے اپنے وقتوں کے عظیم فاتح رہے ہیں۔
19ویں صدی کے شروع میں اس وقت کی دونوں بڑی طاقتیں رشین ایمپائر اور برٹش ایمپائر دونوں کی نظر افغانستان پر تھی اور دونوں کی خواہش تھی کہ وہ افغانستان کو فتح کرکے اپنے ساتھ ملائیں۔ اسی دورانیہ میں ایک سکاؤٹش ایکسپلورر الیگزینڈر برنیز افغانستان گئے اور واپسی پہ انہوں نے ایک کتاب لکھی جس کا نام تھا "Travels into Bokhara"، جو اس وقت کی بیسٹ سیلنگ بک ثابت ہوئی جس کے بعد برٹش ایمپائر نے یہ سوچ لیا کہ وہ افغانستان جا کر اس پر قبضہ ضرور کرے گا اور اس کے بعد برٹش ایمپائر نے افغانستان پر قبضہ کرنے کی کوششیں تیز کر دی۔
بالاخر 1838 میں سلطنت برطانیہ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ افغانستان پر حملہ کرے گی اور افغانستان پر قبضہ کرے گی ان دنوں میں افغانستان کے شہنشاہ کا نام امیر دوست محمد تھا سب سے پہلے برٹش ایمپائر نے امیر دوست محمد کو حکومت سے ہٹوایا اور اپنے کٹھ پتلی شہنشاہ شاہ شجاع کو لے ائے تاکہ وہ ان کے مطابق کام کر سکے اور ان کو افغانستان پر قبضے میں مدد فراہم کر سکے۔
اس وقت افغانستان کی کوئی باقاعدہ آرمی تو تھی نہیں لہذا اس وقت نظام یہ تھا کہ افغانستان کے ہر گاؤں میں ایک چیف کو مقرر کیا جاتا تھا جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ گاؤں کے نوجوانوں کو لے کر امیر کے لیے آ کر لڑیں امیر اس کے بدلے میں انہیں کچھ پیسے دیا کرتا تھا۔ شاہ شجاع کے دور میں ایسا ہوا کہ قومی خزانہ تقریبا کم سے کم ہوتا گیا تو امیر نے بھی ان نوجوانوں اور چیف کے لیے معاوضہ کم کر دیا، لہذا یہ تمام چیف ایک بڑے چیف سردار اکبر خان کے نیچے جمع ہو گئے اور ان سب نے مل کر برٹش ایمپائر کے خلاف جنگ شروع کر دی۔ یہ جنگ تقریبا تین سال جاری رہی جس کے نتیجے میں شاہ شجاع کو قتل کر دیا گیا اور امیر دوست کو دوبارہ تخت پر لا کر بٹھا دیا گیا اس جنگ کو پہلی اینگلو افغان جنگ کا نام بھی دیا جاتا ہے جو 1839 سے لے کر 1842 کے دورانیہ کے درمیان ہوئی۔
اس تین سالہ جنگ کے نتیجے میں برٹش ایمپائر کو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ان تین سالوں میں برٹش ایمپائر نے بہت کوشش کی کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو فتح کرے لیکن افغانیوں نے اپنی قابلیت اور اپنی جنگ جو صلاحیتوں کے نتیجے میں برٹش ایمپائر جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور تھی کو شکست دی اور یوں پہلی دفعہ ایک سپر پاور کو افغانستان میں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔
کچھ عرصہ انتظار کرنے کے بعد برٹش ایمپائر نے ایک بار پھر افغانستان پر 1878 میں حملہ کیا جسے سیکنڈ اینگلو افغان وار کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ دو سال جاری رہی اور 1880 میں ختم ہوئی اس دفعہ برٹش ایمپائر بھر پور تیاری کے ساتھ افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا اس لیے اسے تقریبا فتح ہوئی۔ اس نے افغانستان کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا جبکہ وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ افغانستان پر مکمل قبضہ کرے بلکہ افغانستان کی سٹیبلٹی کو بھی قائم رکھنا چاہتا تھا۔ وہ صرف رشین ایمپائر کو اس بات کا پیغام دینا تھا کہ وہ افغانستان پر کنٹرول کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ افغانستان میں استحکام بھی قائم رکھنا چاہتے تھے اور انہوں نے ایک نئے امیر جسے ائرن امیر بھی کہا جاتا ہے جس کا نام عبدالرحمن خان تھا اسے سپورٹ کی اور افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کی۔ جبکہ بیرونی کنٹرول اپنے پاس رکھا۔
برٹش ایمپائر کا افغانستان کے کچھ حصوں پر قبضہ کرنا صرف اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ افغانستان پر اپنا انفلوئنس قائم رکھنا چاہتے ہیں لہذا انہوں نے 1893 میں برٹش ایمپائر اور افغانستان کے درمیان ایک باؤنڈری لائن بنا دی جسے ڈیورنڈ لائن کا نام دیا۔ جو کہ موجودہ دور میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان قائم ہے۔ 1907 میں ریشین ایمپائر اور برٹش ایمپائر کے درمیان ایک معاہدہ بھی طے پایا جس کے مطابق رشین ایمپائر نے یہ منظور کر لیا کہ افغانستان برٹش ایمپائر کے زیر تسلط ہے لہذا ہم افغانستان کے نزدیک نہیں جائیں گے۔
اس معاہدے کے تقریبا 11 سال بعد 1918 میں رشیا میں کمیونسٹ ریولوشن آ جاتا ہے جس کے بعد لینن وہاں کا حکمران بن جاتا ہے۔ لہذا یہ کمیونسٹ ہونے کی وجہ سے افغانستان پر اپنا انفلوئنس قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے آنے کے تقریبا ایک سال بعد 1919 میں تھرڈ اینگلو افغان وار شروع ہو جاتی ہے جو کہ افغانستان کی طرف سے شروع کی جاتی ہے برٹش ایمپائر کے خلاف تاکہ افغانستان کے جن علاقوں پر انگریزوں نے قبضہ کر رکھا ہے انہیں برٹش ایمپائر سے آزاد کرایا جائے اور افغانستان کو مکمل طور پر آزاد مملکت ڈکلیئر کیا جائے۔ بقول شاعر:
وطن کی پاسبانی جان و ایماں سے بھی افضل ہے
میں اپنے ملک کی خاطر کفن بھی ساتھ رکھتا ہوں
کیونکہ سیکنڈ اینگلو افغان وار کے بعد برٹش ایمپائر نے افغانستان کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا اور اپنا انفلوئنس قائم کر لیا تھا لہذا افغانستان کو برٹش پروٹیکٹڈ ایریا تصور کیا جاتا تھا اور برٹش پروٹیکٹڈ سٹیٹ کہا جاتا تھا۔ لہذا اس تھرڈ اینگلو افغان وار کو وار اف انڈیپینڈنس بھی کہا جاتا ہے۔
اس آزادی کی جنگ میں افغانستان انگریزوں سے مکمل طور پر آزادی حاصل کر لیتا ہے اور ایک آزاد اور خود مختار مملکت بن جاتا ہے جس کے بعد برٹش ایمپائر بھی اسے آزاد مملکت مان لیتا ہے۔ جب افغانستان نے یہ تھرڈ وار اف انڈیپینڈنس جیتی تو افغانستان کے شہنشاہ کا نام امان اللہ خان تھا۔ بنیادی طور پر افغانستان کو جس نے بھی فتح کرنے کی کوشش کی ان سب نے افغانستان پر قبضہ کرنے کی ملتی جلتی وجہ ہی ظاہر کی۔
برٹش ایمپائر ہو یا رشین امپائر سب نے کاز اور کنسرن ایک ہی دیا کہ یہاں پر رہنے والے لوگ جنگلی لوگ ہیں انہیں رہنے سہنے کا پتہ نہیں لہذا ہم انہیں فتح کرکے جینے کا طریقہ سکھائیں گے اور رہنے کا طریقہ کار سکھائیں گے اور انہیں حکومت کرنے کا رول کرنے کا طریقہ سکھائیں گے۔ جو بنیادی طور پر ایک بڑی ہی عجیب سی منطق معلوم ہوتی ہے۔ لیکن بنیادی طور پر جس سپر پاور نے بھی افغانستان کو فتح کرنے کی کوشش کی سب کا کوئی نہ کوئی جیو پولیٹیکل انٹرسٹ اس ملک میں رہا ہے۔
بہرحال 1919 میں افغانستان ایک بار دوبارہ آزاد ہوا اور 1926 میں امان اللہ خان نے نیا آئین دیا جس میں انہوں نے اپنے آپ کو کنگ کہلوانا شروع کر دیا اور افغانستان کنگڈم آف افغانستان کہلانا شروع ہوگئی انہوں نے جس عورت سے شادی کی اسے کوئین کا درجہ دیا گیا پہلے یہ روایت تھی شہنشاہ کئی عورتوں سے شادی کرتے تھے لیکن کنگ امان اللہ خان نے صرف ایک ہی عورت سے شادی کی جس سے وہ محبت کرتے تھے کیونکہ وہ لبرل اور پروگریسو قسم کے انسان تھے۔
کنگ امان اللہ خان کی بیگم ثریا طرزی نے کوئین بننے کے بعد خواتین کے لیے بہت سے کام کیے جن میں خواتین کے لیے سکول بنوانا ان کے حقوق کا مطالبہ کرنا اور ان کو طلاق کا حق لے کر دینا وغیرہ شامل ہیں۔ انھوں نے خواتین کو برابری کے حقوق دینے کے لیے بھی کافی کام کیا۔ کنگ امان اللہ خان اور انکی بیگم ثریا طرزی کیونکہ لبرل خیالات اور پروگریسو خیالات کے حامی تھے لہذا مذہبی و اسلامی نظام کے حامی لوگ ان کے خلاف کھڑے ہو گئے انہوں نے 1923 اور 1924 میں متواتر دو بار بغاوت کی لیکن ناکام رہے۔
بالاخر 1929 میں انہوں نے بغاوت کی اور وہ کامیاب ہو گئے اور کنگ امان اللہ خان اور ان کی بیگم کو افغانستان سے بھاگنا پڑا ٹھیک اسی طرح جس طرح کچھ دن پہلے بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد بھاگ کر انڈیا چلی گئی تھی اسی طرح کنگ امان اللہ خان اور ان کی بیگم بھی بھاگ کر انڈیا چلی گئی جو ظاہر اس وقت انگریزوں کے کنڑول میں تھا یعنی برٹش انڈیا۔
جاری ہے۔۔