1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hamza Bhatti/
  4. Qaum Ka Socho

Qaum Ka Socho

قوم کا سوچو

ان کو اب کون سمجھائے کہ تحریک عدم اعتماد اگر کامیاب ہو بھی جائے تو اس میں عمران خان کو نقصان ہو نا ہو پاکستان غیر مستحکم ضرور ہو گا۔ مگر بقول جاوید ہاشمی یہ تو سیاست کا چلن ہے یہاں تو سیاست نے ایسے ہی چلنا ہے یہاں جن کو اقتدار مل جائے وہ اس سارے سسٹم کو جائز سمجھتے ہیں اور جو اس سے محروم رہ جائیں وہ اس سسٹم کی خامیاں قوم کے وسیع تر مفاد میں قوم پر آشکار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

خامیاں بیان کرنے کی حد تک تو کام بہترین ہے لیکن اقتدار نا ملنے کے غم میں جو حکومت کے خلاف سازش شروع کر دیتے ہیں اس سے جمہوریت پسندوں کو ڈر لگتا ہے کہ کہیں پھر نا جمہوریت کے راستے ان سیاستدانوں کی آپس کی عنا کی وجہ سے رک جائیں اور پھر سے نا کوئی آمر سر اٹھا لے۔ کیوں یہ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کرتے؟ کیوں یہ ہر وقت ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنے میں مصرف رہتے ہیں؟ آخر یہ کب سازشوں کے اس کھیل سے نکلیں گے؟

کیا ان کو نہیں چاہیے کہ صبر سے کام لیں اور ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کر کے سب کو اپنی مدت پوری کرنے دیں۔ کیا سیاستدانوں کا کام صرف ٹانگیں کھینچنا رہ گیا ہے۔ سیاست تو خدمت کے لیے کی جاتی ہے عوام کی بہتری کے لیے کی جاتی ہے۔ ہمارے قائدین تو شاید بھول چکے ہیں کہ سیاست کرنے کا اصل مقصد کیا ہے۔ یہ سب تو اپنے مفادات کی سیاست میں لگے ہوئے ہیں۔

یہ اصل تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے۔ اور جو اپنی تاریخ کو بھول جاتا ہے تاریخ اسے بھولا دیتی ہے۔ کیا ہم بھول چکے ہیں کہ جنرل ایوب خان کن کی کمزوری کی وجہ سے اقتدار پر قبض ہوا؟ یحیٰی خان کس طرح آیا؟ عدم برداشت تو سیاستدانوں میں شروع سے تھی مگر بھٹو کےدور میں عدم برداشت کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ آج تک نہیں رک سکا اور اسی عدم برداشت کی بدولت اس ملک نے کیا کیا نہیں دیکھا۔

انہی مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے والد محترم مفتی محمود تھے جو کہا کرتے تھے اس بھٹو کو پھانسی دو۔ اور بھٹو صاحب بھی جوابی ور کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اگر یہ مولوی میرے ہاتھ لگ جائے تو میں اسے ٹرین کے نیچے دے دوں۔ عدم برداشت اتنی بڑھی کے جنرل ضیا الحق اقتدار پر قابض ہو گئے اور بھٹو کو مفتی محمود صاحب کی خواہش کے مطابق ایک بےجان مقدمے میں پانسی دے دی گئ اس بھٹو کو جسے دنیا لیڈر تسلیم کرتی تھی اور دنیا کے بڑے بڑے لیڈر بھٹو سے مل کر فخر محسوس کرتے تھے۔ پاکستان کی اس پہچان کو پانسی پر لٹکا دیا گیا۔ پاکستان اتنے بڑے لیڈر سے محروم ہوا کس وجہ سے عدم برداشت کی وجہ سے۔

نوے کی سیاست میں بھی یہی عدم برداشت تھی یہی ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام نا کرنا یہی ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتے رہنا۔ محترمہ بینظیر بھٹو آتی تو آئی جے آئی بن جاتی محترم میاں نواز شریف آتے تو دوسری طرف سے سازشیں شروع ہو جاتی۔ اس عدم برداشت کا حل پھر ایک فوجی آمرء جنرل پرویز مشرف کی صورت میں نکلا۔

پھر آخر کار میثاق جمہوریت کرنا پڑی جو مرحوم رحمان ملک کے گھر لندن میں نواز شریف اور بی بی کے درمیان ہوئی اسی کے ذریعے فوجی آمرء کو کمزور کیا گیا۔ اندازہ کریں ایک فوجی آمر جو آرمی چیف بھی ہو اور صدر پاکستان بھی اس کو کمزور اتنی طاقت کے باوجود کس چیز نے کیا جمہوریت کا نام لینے والوں کے اکھٹا ہونے نے۔ یہ خیال ان کو اتنے عرصہ کے بعد آیا لیکن پھر بھی آیا تو سہی لیکن اس کے بعد تو ان سب کو چاہیے تھا کہ اس سب سے سبق سیکھتے اور جو الیکشن جیتتا اس کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جاتا اور مثبت اپوزیشن بن کر باقی ملکی ترقی کے لیے حکومت کی اصلاح کرتے۔ لیکن صحیح کہا ہے کسی نے کہ اس بے رحم سیاست کے سینے میں دل نہیں ہے۔

پھر وہی غلطیاں کی جا رہی ہیں خوف کھاؤ اس وقت سے جمہوریت پسندوں جب پھر سے تمہیں کسی آمرء کا سامنا کرنا پڑے گا۔

میں سوچتا ہوں کہ کہ نوابزادہ نصراللہ خان جیسے جمہوریت پسند بھی تو اس ملک کی سیاست کا اہم حصہ رہے ہیں جو سب کو اکھٹا لے کر چلنے کامشورہ دیا کرتے تھے۔ کاش کہ اس دور میں بھی کوئی نوابزادہ نصراللہ خان موجود ہوتا۔ موجودہ صورتحال سے تو یہی لگ رہا کہ عمران خان مشکل میں ہیں اور ان کی وزارت اعظمی خطرے میں ہے لیکن پاکستانی سیاست پر حتمی بات نہیں کی جاسکتی۔ آخر کار رزلٹ جو بھی نکلے میری بات کرنے کا مقصد ہے کہ یہ روایت غلط ہے۔ اسی بات سے اندازہ لگائیں کہ جو اب سیاسی لوٹے بننے کے لیے تیار کھڑے ہیں کیا یہ کل دوبارہ ایسا نہیں کریں گے؟

بالکل کریں گے کیونکہ ان کا سیاسی ماضی دیکھ لیں تو آپ کو ساری سمجھ آ جائے گئی۔ یہ سب وہی ہیں جو 2002ء میں ق لیگ کی حکومت بنی تو ان کے ساتھ تھے پھر 2008ء میں پیپلز پارٹی آئی تو ان کے ساتھ مل گئے پھر ن لیگ اور اب پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑنے کو بھی بے قرار ہیں مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہم بار بار انہی لوگوں کو کیوں منتخب کرتے ہیں جو ہواؤں کے رخ کے ساتھ اپنے ضمیروں کا سودا کرنے کو تیار کھڑے ہوتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ روایت کب تک جاری رہے گئ۔ اگر اس ملک کو ترقی یافتہ بنانا ہے تو اس روایت کو سب سے پہلے ختم کرنا ہو گا اور یہ صرف اور صرف ہمارے سیاستدان ہی کر سکتے ہیں۔

ان کو چاہیے کہ خدارا ملک و قوم کی ترقی کے لیے ہر کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا کریں اور ہر کسی کو اپنی مدت مکمل کرنے دیا کریں۔ اس ملک کی تاریخ رہی ہے کسی وزیر اعظم کو قتل کر دیا جاتا ہے تو کسی سے زبردستی استعفیٰ لے لیا جاتا اور کسی کو سازشوں کے ذریعے وزارت اعظمی کی کرسی سے ہٹایا جاتا ہے۔ المختصر کسی بھی وزیراعظم کو پانچ سال مکمل نہیں کرنے دیے گئے۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ سیاستدان خود ہیں پہلے ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں پھر آوازیں لگاتے ہیں کہ کسی بھی وزیراعظم کو پانچ سال کیوں پورے کرنے نہیں دیے جاتے اس منفقانہ رویے کو بدلنے کی ضرورت ہے اور ملکی مفاد کے پیش نظر ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے کی اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنے سے سب بعض آئیں اور منتخب حکومت کو اپنی مدت مکمل کرنے دیں تا کہ وہ ملک کے لیے بہتر اقدامات کر سکے اور ملک کو ترقی کی راہوں پر چلا سکے۔

خدارا اقتدار کے لالچ میں ملک کو تباہ نا کرو قوم کا سوچو۔ ملک و قوم کے مستقبل کے لیے ایک ہو جاؤ۔ آنے والی نسلیں جب یہ دیکھیں گی کہ ہمارے بڑے ملک کے لیے کام کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے تھے تو ان پر بھی اس کا ہی اثر پڑے گا لہذا قوم کے مستقبل کے لیے ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلو قوم کا سوچو۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Maulana Fazal Ur Rehman Se 10 Sawal

By Najam Wali Khan