Pasand Na-Pasand Ka Koi Bhi Zabta Nahi
پسند نا پسند کا کوئی بھی ضابطہ نہیں
دنیا کی مختلف تحاریک، انقلابات اور مزاحمتوں میں طلباء اور نوجوان نسل پیش پیش رہے ہیں طلباء سیاست نے طالب علموں اور نوجوانوں کی سیاسی پرورش و نشونما کرکے انہیں آنے والے وقت میں ڈٹے رہنے، مشکلات کا سامنا کرنے اور آزمائشوں کا سامنا کرنے کیلئے تیار کیا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ سے فرانس اور افریقہ سے ایشیاء تک کے انقلابات پر نظر ڈالیں تو ان میں طلباء تنظیموں اور طلباء قیادت کا کلیدی کردار نظر آتا ہے۔
طلباء سیاست تحریکوں میں نئی نظریات، افکار اور انہیں توانائی دیتی آ رہی ہے حکمرانوں سامراجی قوتوں اور جاگیرداروں کی جانب سے طلباء سیاست کو روکنے قدغن لگانے اور اسے غلط رخ دینے کی کوشش ہر دور میں کی گئی لیکن طلباء سیاست کئی مشکلات و پابندیوں کے باوجود اپنے کردار پرورش و جدوجہد کی وجہ سے معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی تصور کی جاتی ہے۔
پاکستان میں طلباء تنظیموں کو کمزور کرنے اور ان پر پابندیاں لگانے میں سب سے کلیدی کردار جنرل محمد ضیاء الحق نے ادا کیا جنہوں نے طالب علموں کی آواز بند کرنے کے لیے بہت سے طریقے اپنائے۔ جنرل ضیا الحق کی پابندیوں کے بعد طلبہ تنظیموں میں وہ طاقت نہ رہی جو کسی دور میں ہوا کرتی تھی۔
سن 71ء میں ہمارے تن سے جدا ہونے والے بنگلہ دیش میں حال ہی میں جو کچھ ہوا جو کہ دور حاضر میں ایشیا میں آنے والی سب سے بڑی تبدیلی بھی ہے۔ اس تبدیلی پر خاکسار نے بھی کچھ لکھنا ضروری سمجھا۔
پچھلے تقریبا 15 سال سے حکمران رہنے والی شیخ حسینہ واجد کو طلباء کے شدید ترین احتجاج اور طلباء کی شدید ترین مزاحمت کی وجہ سے اپنی سیٹ چھوڑنی پڑی اور بھارت بھاگنا پڑا۔ شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش کی سب سے زیادہ رہنے والی حکمران ہیں وہ تقریبا 20 سال تک اس ملک کی وزارت عظمی پر فائز رہی پہلی بار 1996 سے 2001 تک پانچ سال انہوں نے حکومت کی جبکہ جنوری 2009 سے لے کر 2024 اگست تک وہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم رہیں جو کسی بھی خاتون کا ایک ملک پر سب سے زیادہ حکمرانی کرنے کا ریکارڈ ہے۔ وہ ملک کی دسویں وزیر اعظم کے طور پر خدمات سر انجام دیتی رہیں۔ وہ بنگلہ دیش کے سیاست دان اور بنگلہ دیش کے پہلے صدر شیخ مجیب الرحمان کی صاحبزادی ہیں۔ پہلے انھوں نے 1986ء سے 1988ء تک، 1991ء سے 1996ء تک اور 2001ء سے 2006ء تک قائد حزب اختلاف کے طور پر کام کیا اور وہ سنہ 1981ء سے بنگلہ دیش عوامی لیگ کی قیادت کر رہی ہیں۔
بنیادی طور پر دیکھا جائے تو ہم سے جدا ہونے والے بنگلہ دیش کی تاریخ بھی کوئی خاصی اچھی نہیں رہی کیونکہ بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے چند سال بعد ہی اس کے بانی شیخ مجیب الرحمن کو اور ان کے پورے خاندان کو قتل کر دیا گیا شیخ مجیب الرحمن کی صرف دو بیٹیاں زندہ رہی جو اس وقت جرمنی میں تعلیم حاصل کر رہی تھی (جن میں سے ایک شیخ حسینہ واجد بھی تھی) باقی سارے خاندان کو قتل کر دیا گیا جس میں شیخ مجیب الرحمن کے تین بیٹے بھی شامل تھے اس کے بعد جنرل ضیا الرحمن نے اقتدار سنبھالا تو ان کا حال بھی مختصر عرصے کے بعد اسی طرح کا ہی ہوا جس طرح شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ کیا گیا۔
اپنے والد اور اپنے پورے خاندان کے قتل ہونے کے بعد شیخ حسینہ واجد اپنی بہن کے ہمراہ جب بنگلہ دیش واپس آئی تو انھوں نے عوامی لیگ کی سربراہی لی اور عوامی حمایت حاصل کرتے ہوئے بنگلہ دیش میں ایک منظم اور بھرپور سیاست شروع کر دی اور تھوڑے ہی عرصے بعد اقتدار ان کے حصے میں آگیا جبکہ جنرل ضیاء الرحمان کی بیگم خالدہ ضیا نے بھی اپنے مرحوم شوہر کے نام پر سیاست شروع کر دی اور شیخ حسینہ واجد کے مقابلے میں ایک بڑی سیاسی جماعت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ لہذا آپ کہہ سکتے ہیں کہ پچھلے تقریبا 40 سال سے بنگلہ دیش کی سیاست دو خواتین بیگم خالدہ ضیا اور شیخ حسینہ واجد کے گرد ہی گھوم رہی ہے ایک دور بیگم خالدہ ضیا کا ہوتا تو آنے والا دور شیخ حسینہ واجد کا ہوتا جس طرح 90 کی دہائی میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ایک دوسرے کے سیاسی حریف رہے ہیں بالکل اسی طرح بنگلا دیش میں شیخ حسینہ واجد اور بیگم خالدہ ضیا کا آپس میں سخت مقابلہ رہا۔
ابتدائی طور پر اس کوٹا سسٹم کی بنیاد جس کی بنا پر طلباء تحریک شروع ہوئی کو شیخ مجیب الرحمن نے خود اپنے دور میں شروع کیا تھا تاکہ جو افسران بنگلہ دیش کی تحریک آزادی میں پیش پیش تھے ان کو نوازا جائے۔ شیخ حسینہ نے آ کر اپنے دور اقتدار میں اس کوٹا سسٹم پر مزید سختی سے عمل کرنا شروع کر دیا جس سے طلبہ سمجھتے تھے کہ ان کا حق مارا جا رہا ہے لہذا طلباء نے تحریک چلائی اور اس تحریک نے اس قدر زور پکڑا کہ شیخ حسینہ کو نہ صرف اپنی نشست سے استعفی دینا پڑا بلکہ ملک چھوڑ کر بھی بھاگنا پڑا۔
شیخ حسینہ واجد اپنی بہن ریحانہ کے ہمراہ فی الحال بھارت میں چند عرصے کے لیے مقیم ہیں جبکہ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ وہ کچھ عرصے کے لیے یہاں مقیم ہیں اس کے بعد وہ کسی اور ملک چلی جائیں گی جبکہ ذرائع کا بھی یہی کہنا ہے کہ شیخ حسینہ پہلے تو امریکہ یا برطانیہ میں سیاسی پناہ کی خواہش مند تھی لیکن امریکہ اور برطانیہ دونوں میں انہیں سیاسی پناہ حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے جبکہ یہ بھی اس کے باوجود کہ ان کا اپنا بیٹا امریکہ میں پچھلے کئی سال سے مقیم ہے اور وہیں پر بزنس کرتا ہے اس کے باوجود امریکہ میں بھی انہیں سیاسی پناہ حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، جبکہ برطانیہ میں ان کی بہن ریحانہ کی بیٹی جو کہ برطانوی پارلیمنٹ کی ممبر ہے اور برطانوی کابینہ کا بھی حصہ ہے اس کے ہوتے ہوئے بھی انہیں برطانیہ میں بھی سیاسی پناہ حاصل کرنے میں مشکلات آ رہی ہیں۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک نے اپنا نظام کس قدر سخت رکھا ہوا ہے کہ وہ اپنے وزیروں کے رشتہ داروں کو بھی سیاسی پناہ دینے میں کس قدر سختی سے چھان بین کرتے ہیں اگر یہ پاکستان ہوتا تو آپ کا کیا خیال ہے کہ کسی وزیر کی خالہ جو کسی ملک کی 20 سال تک وزیراعظم رہ چکی ہوں کیا انہیں سیاسی پناہ حاصل کرنے میں مشکلات ہوتی؟ یقینا نہیں ! اگر شیخ حسینہ واجد کے دور اقتدار کو دیکھا جائے تو یہ صاف صاف نظر آتا ہے کہ معاشی کارکردگی ہم سے تو کئی درجے بہتر شیخ حسینہ واجب کی تھی اور اپنے ملک کو معاشی لحاظ سے بہتر سٹیج پر لے آئی تھی جبکہ بنگلہ دیش بھی تقریبا ترقی کرتا نظر آ رہا تھا لیکن شیخ حسینہ واجب کی ڈکٹیٹر شپ اور ظلم و فستاعیت کی انتہا آسمان کو چھونے لگی تھی وہ اپنے مخالفین کو کسی جگہ پر برداشت نہیں کرتی تھی جسے چاہتی پکڑ کے جیلوں میں ڈال دیتی تھی جس جماعت کی مخالفت بڑھتی اس پر پابندی لگا دیتی یہ چیزیں شیخ حسینہ واجب کو لے ڈوبی۔
اس ساری طلبہ تحریک کے آخر میں جو سب سے اہم بات تھی وہ یہ تھی کہ جب شیخ حسینہ واجد ملک چھوڑ کر فرار ہوگئی تو طلباء اور دیگر مظاہرین نے اپنے ملک کے بانی شیخ مجیب الرحمن کے مجسموں کو اٹھا نیچے پھینکا اور کرینوں سے بڑے بڑے مجسموں کو گرا دیا۔ یعنی آپ اندازہ کریں کہ وہ شیخ مجیب الرحمن جس نے 70 کے انتخابات میں مشرقی پاکستان میں تقریبا ساری سیٹیں جیتی یعنی اتنا پاپولر تھا کہ واضح الیکشن جیت گیا وہ شیخ مجیب آج بنگلہ دیشی عوام کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا اور ان کے نزدیک نا پسندیدہ لیڈر ہے۔
پاکستان کا زیادہ تر طبقہ تو اس خاندان کو کوئی اچھی نظر سے نہیں دیکھتا جس کی وجہ سے شاید شیخ حسینہ واجد بھی پاکستان کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتی تھی۔ شیخ حسینہ واجد کو تو کہیں نہ کہیں سیاسی پناہ مل ہی جائے گی لیکن ایک تاریخ کا مطالعہ کرنے والے شخص کو یہ بات سوچنے پر ضرور مجبور کرتی ہے کہ انسان کی پسندیدگی سے ناپسندیدگی کا مزاج کس قدر جلد تبدیل ہو جاتا ہے کہ وہی شیخ مجیب الرحمان جو بنگلہ دیش بانی ہے ملک بننے کے چار سال بعد اسے قتل کر دیا جاتا ہے جبکہ اس کے بعد پھر اس کی بیٹی کو 20 سال کے لیے اقتدار دیا جاتا ہے اور 20 سال کے بعد اس کو بھی ملک سے بھاگنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے اور اسی بانی بنگلہ دیش کے مجسموں کو گرا دیا جاتا ہے اور اسی بانی بنگلہ دیش کو جسے قتل کر دیا گیا تھا ایک بار پھر سے اس کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار کر دیا جاتا ہے۔ عبید الرحمن نیازی نے شاید یہ شعر بنگالیوں کے اسی مزاج کے بارے ہی لکھا تھا۔
پسند نا پسند کا کوئی بھی ضابطہ نہیں
کبھی بھلا بھی ہے برا کبھی برا برا نہیں