Mann Pasand Shakhs
من پسند شخص
محترم مستنصر حسین تارڑ نے کہا تھا "لوگ کہتے ہیں کہ من پسند شخص آپ کے سکون کی وجہ ہے جبکہ میں کہتا ہوں آپ کا من پسند شخص آپ کے ڈپریشن کی واحد وجہ ہے۔"میں بھی مستنصر حسین تارڑ صاحب کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ من پسند شخص کی وجہ سے آپ سکون میں کم اور ڈپریشن میں زیادہ رہتے ہیں۔ اس کی کہی ہر بات آپ کے ذہن پر اس قدر اثر کرتی ہے کہ اگر پیار بھری ہو تو ریشم سے بھی نرم محسوس ہوتی ہے جس کا امکان بہت کم ہوتا ہے اور اگر تھوڑی سی بھی سخت ہو جو اکثر ہوتی ہے تو وہ پتھر سے بھی سخت ہوتی ہے اور مدتوں آپ کو محسوس ہوتی رہتی ہے۔ ادبی لوگ اس کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ انسان کتنا ہی بڑا ہو جائے اپنے من پسند انسان کے لیے جذبات بچوں والے ہی رکھتا ہے !
یہ بہت ہی عجیب سی خواہش ہے کہ من پسند شخص کے لیے دل یوں ہی کرتا ہے کہ وہ ہر وقت آپ کے پاس بیٹھا رہے آپ سے باتیں کرتا رہے اور آپ اپنے دل کے حالات اسے بتاتے رہیں۔ اور جب وہ آپ سے دور ہونے لگے تو دل فیاض ہاشمی صاحب کی طرح اپنی ادسی یوں بیان کرنے لگ جاتا ہے۔۔
آج جانے کی ضد نہ کرو
یوں ہی پہلو میں بیٹھے رہو
ہائے مر جائیں گے، ہم تو لٹ جائیں گے
ایسی باتیں کیا نہ کرو
آج جانے کی ضد نہ کرو
تم ہی سوچو ذرا کیوں نہ روکیں تمہیں
جان جاتی ہے جب اٹھ کے جاتے ہو تم
تم کو اپنی قسم جان جاں
بات اتنی مری مان لو
آج جانے کی ضد نہ کرو
یوں ہی پہلو میں بیٹھے رہو
آج جانے کی ضد نہ کرو
میرے مطابق ضروری نہیں کہ محبت کسی دوشیزہ سے ہی ہو محبت آپ کو والدین سے بھی ہو سکتی ہے محبوب آپ کا دوست بھی ہو سکتا ہے۔
دراصل آجکل حوس کو محبت کا نام دیا جاتا ہے لہذا اس وجہ سے بھی کچھ لوگ محبت کو صرف عورت تک ہی محدود کر دیتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ محبت کے اصل مفہوم سے آشنا نہیں ہوتے۔
زیادہ تر دیکھا گیا ہے کہ محبت یک طرفہ ہی ہوتی ہے بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ آپ کا محبوب بھی آپ سے اتنی ہی محبت اور عقیدت رکھتا ہو جتنی کے آپ رکھتے ہیں۔ یک طرفہ محبت و عقیدت میں آپ کو برداشت بھی بہت کچھ کرنا پڑتا ہے لیکن ظفر اقبال صاحب کے بقول اس کا مزہ بھی اپنا ہی ہے۔۔
تم کیا جانو یک طرفہ محبت کا مزہ
یہ وہ محنت ہے جو بیکار کیا کرتے ہیں
محبت ایک ایسا دلی احساس ہے جو کچھ دن کے لیے ہی سہی لیکن آپ کو محبوب تک ہی محدود کر دیتا ہے۔ دنیا میں موجود تقریبا سات ارب آبادی میں آپ کو صرف ایک شخص ہی دیکھائی دیتا ہے۔ جون ایلیا مرحوم نے کہا تھا:
یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
یہ بھی اکثر دیکھا گیا ہے محبوب کے لیے آپ تنگ نظر سے ہو جاتے ہیں۔ یعنی آپ کو یہ بات انتہائی ناگوار محسوس ہوتی ہے کہ آپ کا محبوب آپ کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے سے ہنس ہنس کر باتیں کرے۔ اور آپ کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کو ترجیح دے رہا ہو۔ محبوب کو اس چیز کا احساس نہیں ہوتا لیکن آپ پر جو اس وقت بیت رہی ہوتی ہے وہ آپ ہی جانتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر فطری عمل ہے۔
دیکھا جائے تو یہ دل کو سمجھانے والی بات ہے کہ اک شخص آخر کتنی دیر تک آپ سے باتیں کر سکتا ہے آخرکار وہ أکتا جائے گا۔ کیونکہ محبت آپ کو اس سے ہے (ضروری تو نہیں وہ بھی آپ کے لیے وہی احساس رکھتا ہو) لہذا آپ تو چاہیں گے کہ وہ ساری عمر آپ کے سامنے رہے اور آپ سے باتیں کرتا رہے۔ لیکن سامنے والے کی نظر سے دیکھیں تو سب واضح نظر آئے گا۔ وہ بھی آخر انسان ہے اور یہ انسانی فطرت میں شامل ہے کہ ایک چیز جو اسے زیادہ عرصہ تک میسر رہے وہ اس سے جلد بیزار ہو جاتا ہے۔
محبت ایک ایسا احساس ہے جو ہمیں پیار سے پیش آنا، پیار سے بات کرنا اور تحمل مزاجی سیکھاتی ہے اگر ایک انسان جو اپنی انا کے اگے کسی کو نہیں مانتا لیکن کسی کا دل جیتنے کے لیے انسان خود کو کتنا نرم مزاج بنا لیتا ہے کے جس کو وہ محبوب بنا لے اس کا ہر تلخ لہجہ، ہر تلخ رویا برداشت کرتا ہے، اس کے ہر ناز نخرے اٹھاتا ہے وجہ کیا ہوتی ہے اس کو محبت ہوتی ہے اور یہ سب کچھ محبت سکھاتی ہے۔
محبت ہمیں انسانوں سے ہی پیار کرنا نہیں سکھاتی بلکہ اس کائنات میں موجود تمام مخلوقات سے رحم دلی سے پیش آنا سیکھاتی ہے واقع اگر کسی انسان کے دل میں محبت نہیں ہے تو پھر وہ اس دنیا کو نہیں جان سکتا اس دنیا میں موجود محبت کے احساس کو نہیں جان سکتا۔ محبت ایک بہت ہی غیر معمولی سا جزبہ ہے۔ اس احساس کو محبت کے بعد ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ محبت کے مارے ہوئے لوگ محبت کو برا ضرور کہتے ہیں مگر اس کو کرنے سے بعض بھی نہیں آتے جس طرح جون ایلیاء مرحوم نے کہا تھا:
محبت بری ہے بری ہے محبت
کہے جا رہے ہیں کیے جا رہے
اجمل شبیر صاحب لکھتے ہیں کہ ہزاروں سالوں سے ہم انسان محبت کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ ہر دانشور اور صوفی محبت کے بارے میں مختلف خیال پیش کرتا ہے۔ حقیقت میں محبت یا love کا کیا مطلب ہے؟ اس کائنات میں محبت سے اوپر کچھ نہیں۔ سب کچھ ہی محبت ہے۔ انسان سے انسان اور پھر انسان سے کائنات اور کائنات سے خدا تک کا سفر محبت کے سوا کچھ نہیں۔ جو انسان محبت سے واقف ہو جاتا ہے وہ کائنات اور خدا کو بھی جان لیتا ہے۔ کسی انسان میں اگر محبت نہیں تو کائنات، خدا، انسان، مذاہب، نظریات، فلسفہ، سائنس اور روحانی دنیا کے علم کا کوئی فائدہ نہیں۔
محبت کے ہونے سے ہی سب کچھ ہے۔ ہم انسان کچھ بھی بن جائیں، سائنسدان، روحانی مفکر، دانش ور، صوفی، مرشد اور مذہبی مفکر، اگر ہمارے دل و دماغ میں محبت نہیں ہے تو اس کائنات میں ہماری کوئی وقعت ہی نہیں۔ محبت کا مطلب ہے ایک ہوجانا، کائنات سے جڑ جانا، زندگی اور موت سے ایک ہو جانا، اسی کا نام محبت ہے۔ اگر انسان محبت کو سمجھ گیا تو زندگی اور کائنات انسان کی سمجھ میں آ جائے گی۔ محبت کو اگر دیکھنا ہے، محسوس کرنا تو اس کے لئے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ اس کو expereince کیا جائے۔