Kabhi Jamhuriat Yahan Aaye
کبھی جمہوریت یہاں آئے
انگریزی کے ایک جملے (Majority is authority) سے تو آپ واقف ہی ہوں گے جو کہ جمہوریت کا بنیادی اصول ہے۔ تاریخ گواہ ہے جہاں بھی جمہوریت کے اس بنیادی اصول کی نفی کی گئی ہے اس سے ہمیشہ نقصان ہی پہچا ہے۔ کیونکہ یہ تو ایک حقیقت ہے کہ جب بھی کم لوگوں کی رائے کو زیادہ لوگوں کی رائے پر مسلط کیا جاتا ہے تو اس سے انتشار ہی پھیلتا ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اس میں امن و امان کی صورتحال قائم رہے اور پولیٹیکل سٹبیلٹی رہے۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک کی لسٹ میں سرے فہرست ہے جن میں صرف نام کی ہی جمہوریت ہے۔ بقول حبیب جالب
کبھی جمہوریت یہاں آئے
یہی جالبؔ ہماری حسرت ہے
اس کی ایک سادہ سی مثال ہے کہ جس طرح حضور ﷺ کے دور کے بعد خلافت کا دور شروع ہوا اس خلافت کا عرصہ تیس برس تھا لیکن اس خلافت کے بعد بنو امیہ، بنو عباس اور عثمانیوں کادور آیا تو وہ بنیادی طور پر تھا تو ملوکیت کا دور لیکن انہوں نے اس کو نام دیا خلافت کا بلکل اسی طرح یہ جو آجکل کی جمہوریت ہے یہ سرمایہ داروں کی ملوکیت ہے جبکہ سرمایہ داروں نے نام اس کو جمہوریت کا دیا ہوا ہے۔
ہمارے ساتھ جو سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے ہمارا ملک پہلے ہی جمہوریت کے اسی بنیادی اصول کی نفی (جس کا شروع میں ذکر ہوا) کی وجہ سے دو ٹکرے ہوا۔ شیخ مجیب الرحمٰن واضح اکثریت سے 71ء کے انتخابات جیت چکے تھے۔
اس وقت قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے 151 سیٹیں درکار تھی جبکہ شیخ مجیب الرحمٰن کی پارٹی عوامی لیگ نے 160 نشستیں جیتی اور بھٹو صاحب کی پیپلزپارٹی صرف 81 نشستیں لینے میں کامیاب ہوئی۔ اس واضح اکثریت کے باوجود شیخ مجیب الرحمٰن کو حکومت نا بنانے دی گئی اور جمہوریت کے بنیادی اصول کی نفی کی گئی تو اس کا کیا نتیجہ نکلا وہ سب آپ کے سامنے ہے۔ اور اب پھر سے اسی چیز کو دہرایا جا رہا ہے کہ اکثریت والی جماعت کی بجائے اقلیت والے حکومت میں ہیں۔
قومی اسمبلی میں اکثریت رکھنے والی جماعت تحریک انصاف کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا اور اقلیت والی جماعت کا وزیراعظم بنا دیا گیا جبکہ یہی صورتحال ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے ساتھ پیش آئی جہاں پر پیچھلے تین ماہ سے ایسی غیر یقینی سی صورتحال ہے جو آج تک پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہوئی۔ وزیراعظم شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز تحریک انصاف کے منحرف ارکان کے ووٹ لے کر وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھ تو گئے مگر جب تحریک انصاف نے انہیں ڈی سیٹ کروایا اور دوبارہ الیکشن ہوئے تو تحریک انصاف نے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے پھر سے واضح اکثریت حاصل کر لی۔ لیکن پھر سے جب وزارت اعلی کے لیے الیکشن ہوئے تو ویسے تو تحریک انصاف اور ق لیگ کے ارکان مل کر وزارت اعلیٰ کے لیے درکار ووٹوں کا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے مگر پھر سے ایک چال چل کے اکثریت پر اقلیت کو مسلط کر دیا گیا۔ اور جمہوریت کے بنیادی اصول کی نفی کی گئی۔
حالانکہ آئین کے مطابق اسمبلی میں موجود ارکان کی ووٹنگ کا فیصلہ پالیمانی پارٹی کرتی ہے نا کہ پارٹی صدر جبکہ ڈپٹی اسپیکر نے جو پہلے سے ہی جانبدار معلوم ہو رہے تھے غیر آئینی رولنگ دے کر تاریخ کے سیاہ خانے میں اپنا نام درج کروا دیا۔ اور ایاز امیر صاحب کے مطابق مزاریوں کا نام بدنام کروا دیا۔ بہرحال عدالت اس پر کیا فیصلہ کرتی ہے یہ بات اہم ہے۔
مجھے اس معاملے میں ذاتی طور پر جس بات کا دکھ ہوا کہ چوہدری ظہور الٰہی مرحوم کا خاندان جو کہ پاکستانی سیاست میں ایک مقام رکھتا تھا ایک دفعہ پھر سے تقسیم ہو گیا اور چوہدری صاحبان جو کہ ہر جگہ صلح صفائی کروانے کے لیے پیش پیش ہوتے تھے چاہے وہ لال مسجد کا مسئلہ ہو یا اکبر بگٹی کا اس وقت کی حکومت سے معاملہ ہو یا اس کے علاوہ اور بہت سے سیاسی معاملات ہوں ان کا آپس میں اس طرح تقسیم ہونا سمجھ سے باہر ہے۔ اور خاص کر چوہدری شجاعت حسین جیسے سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے سیاستدان کا اس طرح گھر آتی وزارت اعلیٰ کو قبول نا کرنا بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک بات تو واضح ہے کہ ان کی اس تقسیم کے پیچھے سب سے بڑا ہاتھ ان کی اولاد کا ہے چوہدری پرویز الہٰی کے صاحبزادے چوہدری مونس الہٰی انہیں عمران خان کی حمایت کا کہتے رہے جبکہ چوہدری شجاعت حسین کے صاحبزادے چوہدری شافع حسین اور سالک حسین پی ڈی ایم کے ساتھ ہاتھ ملانے کے حامی تھے۔ اور اسی ذہنی تفریق نے انہیں تقسیم کر دیا۔
بہر حال جو بھی کہہ لیں پاکستانی سیاست میں جو گند مچ چکا ہے اس کا واحد حل بقول حسن نثار صاحب کے اسے سارے نظام کو تیزاب سے غسل دینا ہو گا پھر ہی جا کے کہیں آنے والی نسلوں کی بقا ممکن ہے۔
مسئلہ یہ نہیں کہ پنجاب میں کون آئے گا اور وفاق میں کون آئے گا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کب تک اس جعلی جمہوریت کے پیچھے دوڑتے رہیں؟ کب تک ہمارے سیاستدان بجائے ملکی ترقی میں کردار ادا کرنے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہیں گئے؟ کب تک دنیا ہم پر ہنستی رہے گی؟
آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ اس ملک کو چلانے والے اس ملک کے ساتھ کس قدر مخلص ہیں کہ ملکی معیشت کہاں پہنچ چکی ہے اور ملک میں بجائے اس کی جانب توجہ دینے کے ایک کے بعد نیا بحران کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ جب اس قسم کے حالات پیدا ہوتے ہیں تو سب سے زیادہ خوشی غیر جمہوری قوتوں کو ہوتی ہے۔ ہمارا عدالتی نظام بھی اس قدر نااہل ہے جس قدر ہمارے سیاستدان۔ لہذا غیر جمہوری طاقتوں کی خوشی میں سب برابر کےحصے دار ہیں۔ اس وقت جو غیر یقینی کی صورتحال ہے اس کا واحد حل شفاف انتخابات ہیں نہیں تو یہ تماشا اسی طرح جاری رہے گا۔
اللہ نا کرے ہمیں یہ سیاسی لڑائیاں لڑتے لڑتے سری لنکا جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے لہذا غیر جمہوری قوتوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور اس تماشے کو ختم کرنا چاہے۔