Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hamza Bhatti/
  4. Jamhuriat, Aamriyat Aur Islami Nizam e Hukumat (2)

Jamhuriat, Aamriyat Aur Islami Nizam e Hukumat (2)

جمہوریت، آمریت اور اسلامی نظامِ حکومت (2)

مگر جنرل ضیاالحق اپنی آمریت کے خلاف حبیب جالب جیسے شاعروں کو نہ روک سکے۔ جیلوں میں تو کئی بار ڈالا مگر پھر بھی ان جیسے لوگ بعض نہ آئے۔ اور کہتے رہے۔۔

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے

چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے

وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے

ایسے دستور کو، صبح بےنور کو

میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

اور اس طرح جنرل ضیاء کی آمریت آہستہ آہستہ اپنا دم توڑتی گئی۔ جنرل صاحب نے ١٩٨۵ء میں غیر جماعتی انتخابات کروائے اور سندھ سے ایک بے جان وزیر اعظم اپنے ماتحت لے آئے جو انتہائی نفیس طبیت کا مالک تھا جسے لوگ محمد خان جونیجو کے نام سے جانتے ہیں (ان کے بیٹے اسد جونیجو اب بھی ایوانِ بالآ کے رکن ہیں)۔ جنرل ضیاءالحق نے جتنا ان کو معصوم سمجھا اتنے یہ تھے نہیں پہلے پہل تو جنرل صاحب کے ماتحت خاموشی سے کام کرتے رہے مگر پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے جمہوریت کی بحالی کے لیے کام کرنا شروع کر دیا۔

پھر اسی دوران ایک خوفناک حادثہ پیش آیا جس میں جنرل ضیاءالحق کا طیارہ کریش کر گیا اور وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اب پاکستانی سیاست میں ہلچل مچ گئی ان بندقوں والوں کا زور ٹوٹ گیا جن کے لیے حبیب جالب کہا کرتے تھے کہ

"ڈرتے ہیں بندقوں والے ایک نہتی لڑکی سے"

اب یہی نہتی لڑکی ملک پاکستان کی ہی نہیں عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئی جن کو محترمہ بینظیر بھٹو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ ١٩٨٨ء کی بات ہے اس کے بعد نوے کی اس گندی اور گھٹیا سیاست کا آغاز ہو جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ یعنی ایک دوسرے کے خلاف اس قسم کا کھیل کھیلا جانے لگا جس سے ابھی کچھ عرصہ پہلے بیدار ہونے والی جمہوریت پھر سے گھومنے لگی اور پھر سے آمریت کے آثار نمادار ہونے لگے۔

مسلم لیگ نواز کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے اسامہ بن لادن جسے کچھ دن پہلے وزیر اعظم عمران خان نے شہید قرار دیا سے امداد حاصل کرکے جنرل مرزا اسلم بیگ اور اس وقت کے آئی ایس آئی کے چیف جنرل حمید گل کے ساتھ مل کر آئی جے آئی کی تشکیل کی جسے بینظر بھٹو حکومت کے خلاف استعمال کیا اور پھر وہ سلسلہ شروع ہوا کہ ایک آتا دوسرا جاتا یعنی میاں صاحب آتے تو دوسری طرف سے سازشیں شروع ہوجاتی اور اگر بی بی آتی تو میاں صاحب اس کام پے لگ جاتے آخر کار اس چلتی گاڑی کو بریک پرویز مشرف نے آ کر لگائی اور ایک دفعہ پھر جمہوریت پسندوں کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ پاکستان لمبے عرصے کے لیے آمریت کی زد میں آ گیا۔

جنرل پرویز مشرف نے حکومتی گھرانے شریف خاندان کو جلاہ وطن کرکے سعودیہ عرب بھیج دیا۔ اور اقتدار پر براجمان ہو گئے اور اگلے نو سال پاکستان پر حکومت کرتے رہے۔ ٩/١١ کے واقعے کے بعد حالات کشیدہ ہو گے اور امریکی دباو پاکستان پر روزباروز بڑھنے لگا اور اس واقعے کے بعد پاکستان کو بہت سی پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس دوران نوابزادا نصراللہ خان اور جاوید ہاشمی جیسے مرد مجاہد جمہوریت کے لیے کام کرتے رہے۔

پاکستان کی سیاست نوابزادا نصراللہ خان کے بغیر ناممکن ہے اس جرت مند نے ساری زندگی جمہوریت کی بحالی کے لیے وقف کر دی۔ بحرحال کامیاب تو نہ ہو سکے کیونکہ ایک آدمی کس حد تک اس بے حودہ نظام میں تبدیلی لا سکتا ہے مگر اس نے مررتے دم تک ہار نا مانی اور اپنی جہدوجہد جاری رکھی۔ اتنی مقبولیت بھی حاصل نہ ہوئی۔ پاکستان کی تاریخ میں اگر کوئی اپنا سب کچھ جمہوریت اور اس کی بحالی کے لیے وقف کرنے والی شخصیت ہے تو وہ نوابزادا بابا نصراللہ خان ہی تھے۔

اقتدار کی کرسی پر براجمان جنرل صاحب کے بیانات سے لگتا تھا کہ جنرل صاحب سے زیادہ جمہوریت پسند شاید ہی کوئی ہو نواز لیگ سے علیحدہ ہونے والے گجرات کے چوہدری ظہور الہی کے جانشین پرویز مشرف کا سیاسی سہارا بنے اسی پاداش میں پرویز الہی پنجاب کے وزیراعلٰی جبکہ بڑے چوہدی شجاعت حسین دو ماہ وزیراعظم اور باقی عرصہ وفاقی حکومت کے نظام پر نظر رکھتے رہے۔ اور اہم عہدوں پر فائز رہے۔

پرویز مشرف کی آمریت کے اہم واقعات میں اہم وقعہ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدلقدیر خان جنہوں نے چند برس پہلے پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنایا۔ ان کی بھٹو دور سے مسلسل جہدوجہد سے آخر کار پاکستان میاں محمد نواز شریف کے آمریت آنے سے پہلے والے دور میں عالم اسلام کا پہلا اور دنیا کا ساتواں ایٹمی طاقت رکھنے والا ملک بن گیا۔ جنرل صاحب نے ان پر بہت پابندیاں لگا دیں اور ان کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ بلکہ اس وقت کے وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی کہتے ہیں کہ پرویز مشرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو امریکہ کے حوالے کرنا چاہتے تھے جبکہ جنرل صاحب اس سے انکار کرتے ہیں اور اسے الزام قرار دیتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کے کئی ممالک سے رابطے تھے اس لیے خدشہ تھا کہ یہ پاکستانی ایٹمی راز کسی تک نا پہنچا دیں اور اس خدشے کا اظہار امریکہ ایجنسی سی آئی اے نے بھی کیا۔ لیکن پھر بھی یہ محسنِ پاکستان کے ساتھ نامناسب رویہ تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ لال مسجد کا واقعہ اور بلوچ سردار نواب اکبر خان بگٹی جو کہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ بھی تھے اور اپنے بلوچ قبیلے کے سردار بھی تھے ان کی جمہوریت اور بلوچستان کے لیے کافی خدمات تھیں ان کو قتل کر دیا گیا۔ نواب صاحب کا قاتل مشرف صاحب کو قرار دیا جاتا ہے اور اس میں حقیقت بھی ہے یہ واقعہ چوہدری شجاعت حسین اپنی کتاب "سچ تو یہ ہے" میں لکھ چکے ہیں جو اس وقت پرویز مشرف کی آمریت میں اہم عہدے پر فائز تھے۔

اس واقعے نے ثابت کیا کہ آمرء ہمیشہ جمہوری لیڈرز سے طاقت میں ہوتا ہے پھر وہ چاہے جمہوریت کا قائد بھٹو ہی کیوں نہ ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ایک قتل کے الزام میں دوسرے سال پانسی ہو گئی جبکہ آمرء جنرل پرویز مشرف کی طرف انگلی بھی کوئی نہ کر سکا کیونکہ اگر کوئی انگلی کرنے کی کوشش کرتا تو اس کا حال وہ ہوتا جو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ ہوا۔

لہذا آمریت ہر لحاظ سے جمہوریت سے بدتر ہے کیونکہ اس میں ایک شخص کے پاس طاقت ہوتی ہے پھر وہ چاہے تو اسمبلیوں میں مکے لہرائے یا عدلیہ پر پابندی لگا کر ایمرجنسی نافذ کر دے۔ لہذا یہ نظام ہر لحاظ سے ناقابلِ قبول ہے۔ اور تعلیم یافتہ اور عقلوفہم رکھنے والی اقوام میں اس کا تصور ہی موجود نہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کے آخری دنوں میں محترمہ بینظیر بھٹو کو روالپنڈی میں شہید کردیا گیا۔ ان کی شہادت کے بعد ملکی سیاست کا نقشہ ہی تبدیل ہو گیا۔

محترمہ کے قتل پر کافی کچھ لکھا اور بولا چکا ہے لہذا کسی ایک کو اس کا مجرم قرار دینا مناسب نہ ہو گا کیونکہ آج تک عدالت میں کسی کے خلاف کچھ ثابت نہ ہو سکا۔ محترمہ کے قتل کے بارے میں سینئر صحافی سہیل وڑائچ ایک تفصیلی کتاب لکھ چکے ہیں جس میں انھوں نے کافی حقائق بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس واقعے کے بعد الیکشن میں پی پی پی نے اکثریت حاصل کر کے حکومت بنا لی اور یوں پھر سے ایک بار جمہوریت بحال ہوگئی اور اس کے بعد آج تک جمہوریت کی بحالی جاری ہے۔ واقعات تو ایسے بہت سے سرزد ہو چکے جن سے آمریت کے لیے دورزاے کھولے گئے مگر اس میں داخل ہونے کو کوئی تیار نہ ہوا۔

کہا جاتا ہے کہ فوجی جرنیل اب سامنے نہیں آتے مگر اصل اقتدار انہیں کے پاس ہوتا ہے۔ وہ ہی حکومتیں گراتے اور بنواتے ہیں۔ سو یہ تو اک تاریخ ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر اقتدار میں آنا ناممکن عمل ہے۔ بلکہ اس اسٹبلشمنٹ میں اب عدلیہ اور میڈیا وغیرہ کا اضافہ ہوا ہے جو کہ جمہوریت کی کمزوری کی نشانی ہے۔ اور ویسے بھی اگر حقیقی جمہوریت اس ملک میں قائم ہوتی تو نظام ہی مختلف ہونا تھا۔

لہذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جمہوریت اور آمریت کے علاوہ بھی کسی آپشن پر عمل کیا جا سکتا ہے؟ کیا جس کی بنیاد پر یہ ملک بنایا گیا اس اسلام کا نظام یہاں حقیقی طور پر نافذ کیا جا سکتا ہے؟

سب سے پہلے تو ہمیں اسلامی نظامِ حکومت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی نظام حکومت میں تمام امور قرآن وسنت کی ہدایات کی روشنی میں انجام دئیے جاتے ہیں اور پورے نظام کی اساس امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر استوار ہوتی ہے۔ اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں راہنمائی فراہم کی ہے۔ عبادات ہوں یا معاملات، تجارت ہو یا سیاست، عدالت ہو یا قیادت، طب ہو یا انجینئرنگ، اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔ اسلام کی یہی عالمگیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کا دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں، بلکہ اس دنیاوی زندگی میں اطمینان، سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔ موجودہ دورمیں جبکہ اسلام کےخلاف بے شمار فتنے اسلام کے سیاسی، معاشی نظاموں پر اعتراضات اور شبہات کی صورت میں ظاہر ہورہے ہیں اور جدید تعلیم یافتہ افرادجن کی اکثریت دین کےعلم سے واقفیت نہیں رکھتی ان اعتراضات کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں۔

سب سے پہلا عمل تو پڑھے لکھے نوجوانوں کا اس کی طرف متوجے ہونا اور اسلام اور اسلامی نظام کے لیے اپنی خدمات پیش کرنا ہے۔ کیونکہ جب تک اس کا شعور عام نہیں ہو گا۔ صرف ریاستِ مدینہ بننے کے اعلانات سنتے رہنے سے کچھ نہیں ہو گا اور اسی طرح نظام چلتا رہے گا جس طرح پچھلے ٦٣ سال سے چل رہا ہے۔ اور بھی اس میں بہت سے پہلو نمایاں ہیں مگر تحریر لمبی ہونے کے خدشے سے اسے اختتام کی طرف لے جاتے ہیں۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Nasri Nazm Badnam To Hogi

By Arshad Meraj