Jamhuriat, Aamriyat Aur Islami Nizam e Hukumat (1)
جمہوریت، آمریت اور اسلامی نظامِ حکومت (1)
کہا جاتا ہے کہ جمہوریت بدترین نظام حکومت ہے، لیکن ان نظاموں سے بہتر ہے جو اب تک آزمائے جا چکے ہیں۔ یہ الفاظ سر ونسٹن چرچل کے ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے دوران اور اس کے بعد برطانوی وزیر اعظم رہے۔ تب سے آج تک اس قول میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور جمہوریت کی اچھائیوں برائیوں کو پرکھنے کے بعد بھی دنیا میں سب سے مقبول نظام حکومت جمہوریت ہی ہے۔
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ جمہوریت کا مطلب عوام کی حکمرانی ہے لیکن کس طرح سے عوام کی حکمرانی یہ عوام سمجھنے سے قاصر ہے۔ کیا عوام کی حکمرانی کا اختیار ووٹ کا حق استعمال کرنے تک ہوتا ہے؟
پاکستان میں اس بات پر بہت بحث ہوتی ہے کہ جمہوری نظام بہتر ہے یا اسلامی نظام اور اسی بحث میں سے اچانک آمریت نکل آتی ہے اور ایک لمبے عرصے تک ملک پر نافذ کر دی جاتی ہے۔ لیکن جب وہ آمرء اقتدا کی کُرسی پر بیٹھتے ہیں تو ان کی سوچ جمہوری لگنے لگتی ہے اور علماء اکرام اور مذہبی جماعتوں کی حمایت کے لیے وہ اسلامی نظام کے نظریے پر بھی کام کرتے نظر آتے ہیں لیکن کیا ان کا اصل مقصد اپنے اقتدار کو طویل کرنا نہیں ہوتا؟
جمہوریت کے علاوہ دوسرا آپشن یعنی اس کے برعکس آمریت پہلی بار پاکستان میں جنرل سکندر مرزا نے ایوب خان کے ذریعے سے اس ملک میں داخل کی اور پھر تو اس کی ایسی لت لگی کہ اک کے بعد دوسرا آمرء سر اُٹھانے لگا۔ جنرل ایوب خان نے گیارہ سال اس ملک پر حکمرانی کی۔ ان کے دور کو پاکستان کا سنہری دور بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا سب سے وفادار ساتھی جس کو بعد میں قائدِ جمہوریت بھی کہا جاتا تھا۔ وہ پہلی آمریت میں سب سے اہم وزیر یعنی وزیرِ خارجہ تھے جن کو آپ ذوالفقار علی بھٹو کے نام سے جانتے ہیں۔
ایوب خان کا دور پاکستان کا ترقی یافتہ دور تھا اور پاکستان تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا کہ ہم پر جنگ مسلط کر دی گئی جس کے باعث ملک کو انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا مگر پھر آہستہ آہستہ نظام بہتر ہونے لگا۔ اس دور کے آخر میں بھٹو صاحب نے چند اختلافات کی بنا پر آمریت کی حکومت انجوئے کرنے کے بعد اپنی سیاسی جماعت بنا لی جو اس دور کی سب سے پسندیدہ اور مقبول جماعت بن کے ابھری۔
میری نظر میں اس دور کا سب سے شرمناک واقعہ محترمہ فاطمہ جناح کے مدِمقابل ایوب خان کا صدراتی الیکشن لڑنا تھا۔ جس میں بڑے بڑے جمہوریت پسند ڈکٹیٹر ایوب خان کے ساتھ تھے اور ان کے پولنگ ایجنٹ تھے جن میں سرِ فہرست ذوالفقار علی بھٹو اور غلام دستگیر خان وغیرہ ہیں۔ اس الیکشن میں بڑے بڑے جمہوریت پسند بے نقاب ہوئے جہنوں نے مادرِ ملت (قوم کی ماں) پر آمریت اور طاقت کو ترجیح دی۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس سے پہلے پاکستان اتنا مستحکم نہیں تھا جتنا اس دور میں ہوا تو کیا آمریت جمہوریت پر سبقت لے گی۔ اگر تاریخ کے اعتبار سے اس کو درست مان لیں تو کیا آمریت کا نظام بہتر ہے؟ نہیں بلکل نہیں جمہوریت کی کمزوری کی وجہ یہ ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کو مکمل طور پر نافذ ہی نہیں ہونے دیا جاتا اور یہ ہمارے سیاستدانوں کی سب سے بڑی نااہلی ہے کہ یہ ہمیشہ ایک دوسرے کو گرانے کی خاطر جمہوریت کو ہر بار خطرے میں ڈالتے ہیں۔
مغرب کی ترقی کی ایک بڑی وجہ وہاں مکمل جمہوری نظام کا نافذ ہونا ہے اور نہ ہی وہاں جمہوریت کو اتنے خطرے درکار ہوتے ہیں جتنے یہاں اس کے حصے میں آتے ہیں۔ ایوب خان کے بعد اقتدار پھر اک فوجی آمرء یحیٰی خان نے سنبھال لیا یہ ڈکٹیٹرشیپ کا سب سے ناکام دور تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس دور میں پاکستان دو ٹکڑے ہوا۔ ہوا یوں کے یحٰیی خان نے اقتدار سنبھالنے کے کچھ عرصے بعد انتخابات کا اعلان کر دیا اب انتخابات تو ہر لحاظ سے شیخ مجیب الرحمان کی جماعت نے جیت لیے لیکن یہ ذوالفقار علی بھٹو کو منظور نہیں تھا کہ اقتدار کسی اور کے پاس جائے کیونکہ مغربی پاکستان میں ان کی اکثریت تھی اور مشرقی پاکستان (جو اب بنگالادیش ہے) میں شیخ مجیب الرحمان کی جماعت کی۔
اب اختیار منتقل کرنے کی باری آئی تو یحٰیی خان نے انصاف کرنے کی بجائے ذوالفقار علی بھٹو کی کوٹ میں گیند پھینک دی۔ اور بھٹو صاحب نے اِدھر ہم اُدھر تم کا نعرہ لگا دیا۔ اور یوں جمہوریت اور آمریت نے مل کر ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ بھٹو صاحب نے آتے ہی ملک کو نیا آئین دیا جو آج تک چل رہا ہے اور کافی انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی کہیں کامیاب تو کہیں نا کام دیکھائی دی۔
ذوالفقار علی بھٹو انتہای ذہین سیاستدان تصور کیے جاتے اور جمہوریت کے قائد جو آج تک قرار دیے جاتے ہیں۔ ان کو اس دور کا عالمی مقبول ترین لیڈر قرار دیا جاتا تھا۔ اور ان کی عالم اسلام میں بھی کافی قدر کی جاتی تھی۔ جب مدت مکمل ہونے لگی تو چار ماہ قبل ہی انتخابات کروانے کا اعلان کر دیا اور بھری اکثریت سے فتح اپنے نام کی مگر اپوزیشن نے دھاندلی کا الزام لگا دیا اور آمریت کے لیے ایک دفعہ پھر راستے ہموار کرنا شروع کر دیے مگر بھٹو نے اپوزیشن کو مذکرات کی میز پر اکھٹا کر لیا لیکن پھر بھی بھٹو صاحب کی ذہانت کچھ کام نہ آئی اور یہ آواز سنائی دی کہ مسٹر بھٹو کی حکومت ختم ہو گئی اور میں ضیاالحق ملک کا نیا آمرء اور آپ کو ایک بار پھر آمریت کا سامنا کرنا پڑے گا جمہوریت کو کچھ عرصہ ریسٹ دی جاتی ہے۔ اور پھر ضیاالحق کی آمریت کا آغاز ہوا۔ آمریت کے دوسرے سال بھٹو کو احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کے معاملے میں پھانسی دے دی گی اور وہ بھٹو جس کو دنیا اس وقت کا سب سے مقبول لیڈر صرف تصور ہی نہیں مانتی بھی تھی کی آواز ایک بے جان مقدمے کے ذریعے ہمیشہ کے لیے بند کر دی گی۔
ضیا الحق کا دور آمریت کا سب سے سخت اور پابندیوں والا دور تصور کیا جاتا ہے ضیا الحق اپنےمخالفت میں ہونے والے ہر عمل پر پابندی لگا دیا کرتے اور قوم سے نوے دن میں انتخابات کروانے کا وعدہ کر کے گیارہ سال ملک پر حکمرانی کرتے رہے۔ انھوں نے کہا کہ میں اسلامی نظام لے کر آؤں گا جس کی وجہ سے مذہبی حلقوں میں ان کو بڑی داد دی گی اور ان کی حمایت کی گئی انھوں نے ملک میں اسلام کو کافی حد تک فروغ دیا مگر اسلامی قانون کے نافذ کرنے کا وعدہ گیارہ سال میں وفا نہ کر سکے۔
میں سوچتا ہوں کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ اگر ضیاالحق کچھ عرصہ زندہ رہتے تو اسلامی نظام نافذ ہو جاتا تو کیا گیارہ سال کا عرصہ اسلامی قانون کے نافذ ہونے لیے کم ہے؟ اور اگر یہ عرصہ کم ہے تو پھر یہ نظام نافذ ہونے کے لیے آخر کتنا وقت درکار ہے کیونکہ اس نظام کی ہمارے معاشرے کو سر تا پاؤں ضرورت ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اسلامی نظام نافذ کرنا کسی بھی حکمران کی اولین ترجیح رہی ہی نہیں ورنہ یہ کب کا نافذ ہو چکا ہوتا۔
ہمیں اصل مسئلہ یہ درکا ہے کہ ہم لوگ مغربی جمہوریت کے طرز پر چلنے کو ترجیح دیتے ہیں اور ان کی جمہوریت کو کاپی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مفکرِ پاکستان حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال مغربی جمہوریت کے سخت مخالف تھے۔ شاعر مشرق نے اسی باعث مغربی جمہوریت کو برہنہ تلوار (تیغ بے نیامی) قرار دیا۔ نیزیہ مثال دے کر اپنے مقدمے کو مضبوط بنایا: "دو سو گدھے مل کر بھی ایک انسانی ذہن کی برابری نہیں کر سکتے۔"
چونکہ جمہوریت کوئی فلسفہ یا نظریہ نہیں محض طرزِ حکومت ہے۔ مثلاً برطانوی جمہوریت جہاں آج بھی بادشاہت کے محدود روپ میں زندہ ہے۔ یا امریکی جمہوریت جہاں صدر سب سے طاقتور حیثیت رکھتا ہے۔ مگر انہی جمہوری یا عوام دوست ممالک کے حکمرانوں نے پچھلے دو سو برس میں انسانیت پر بے انتہا ظلم بھی ڈھائے اور جنگ و جدل کی انتہا کر دی۔ اسی باعث "بال جبرئیل "میں حیرت زدہ شیطان بھی پکار اٹھتا ہے
؎ جمہور کے ابلیس ہیں ارباب ِسیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک
سو علامہ اقبالؒ کے نزدیک اخلاقی و مذہبی اصولوں سے عاری مغربی جمہوریت دراصل آمریت ہی کا نیا روپ ہے۔ چناں چہ دنیائے مغرب میں امیر حکمران طبقہ عوام کا استحصال کر کے اپنی حکمرانی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ بس جمہوریت کے نام پر عوام کو کچھ سہولتیں دے دی جاتی ہیں تاکہ وہ مطیع و فرماں بردار رہ سکے۔
پاکستان کو ہمیشہ سے اسلامی نظامِ حکومت کی ضرورت رہی ہے مگر ہم ہمیشہ سے بے نام مغربی جمہوریت اور آمریت میں پھنسے رہے اور فل حال اس سے نکالنے کا راستہ بھی دیکھائی نہیں دیتا۔ اس سے نکالنے کے لیے عوام میں اس بات کا شعور پیدا کرنا سب سے بڑا ٹاسک ہے۔ یقیناً حکومت کے بغیر یہ عمل کسی صورت ممکن نہیں مگر کم از کم عوام میں اس کا شعور تو ہونا چاہیے۔ کیونکہ آدھی سے زیادہ عوام اس سے لاعلم ہوتی ہے کہ جمہوریت و آمریت اور اسلامی نظامِ حکومت میں سے کیا بہتر ہے اور ہمیں کون سی طرزِ حکومت فائدہ دے گی لہذا یہ پڑھے لکھے طبقے کو چاہیے کہ اس پر عوام میں کچھ نا کچھ آگاہی پیدا کریں۔ اور اسلام کے لیے کام کریں کیونکہ خدا نے اگر آپ کو علم کی دولت عطا کی ہے تو اس کو صدقہ جاریہ کے طور پر استعمال کریں (جاری ہے)۔