1.  Home
  2. Blog
  3. Hamza Bhatti
  4. Is Hamam Me Sab Nange Hain

Is Hamam Me Sab Nange Hain

اس حمام میں سب ننگے ہیں

جب سے اسلامی جمہویہ پاکستان وجود میں آیا ہے اس وقت سے جمہوریت پسندوں اور آمریت پسندوں میں ایک دوسرے کے خلاف بحث جاری ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو یہ سمجھانے میں لگے ہیں کہ ان کی سوچ کا زوایہ درست ہے اور دوسرے غلط راستے کے مسافر ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو منزل پر نا پہنچنے کا طعنہ دیتے ہیں۔ جمہوریت پسند کہتے ہیں دیکھو ہمیں قائد اعظم محمد علی جناح نے جمہوریت کا درس دیا تھا لہذا ہم تو ان کے پیروکار ہیں ہم تو لیاقت علی خان سے لے کر آج عمران خان تک جمہوری حکومتوں کی ہی حمایت کریں گے۔ آمریت پسند کہتے ہیں نہیں نہیں یہ جمہوریت مغرب کی دی ہوئی ہے اور ہمیں مغرب سے سخت نفرت ہے کیا تم نے جنرل ایوب خان کا دور نہیں دیکھا تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ترقی جنرل ایوب خان کے دورے حکومت میں ہوئی۔ ایوب خان نے ڈیم بنائے اس دور میں پاکستانی معشیت کئی ممالک سے بہتر تھی۔ ایوب خان دورے حکومت کے ترقیاتی کاموں کی ایک طویل لسٹ آمریت پسند لیے پھرتے ہیں۔ اور ان باتوں میں کسی حد تک وزن بھی ہے۔

جمہوریت پسند اس کےجواب میں کہتے ہیں کہ اسی آمرانہ سوچ کی وجہ سے پاکستان پر جنگ مسلط کی گئی اور پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا اور اس کا سب سے بڑا ذمہ دار جنرل یحیٰی خان تھا اور جنرل نیازی کا کردار بھی سب کے سامنے ہے۔ کیوں جنرل یحیٰی خان نے اقتدار صحیح طریقے سے منتقل نا کیا؟ اور یہ بات بھی کسی حد تک درست ہے کہ اس موقع پر سب سے بڑی ذمہ داری حکمران وقت کی تھی جنرل یحیٰی خان کا حق تھا کہ اقتدار الیکشن میں واضح اکثریت حاصل کرنے والے کو دیا جاتا۔ ایسا ہوتا تو شاید پاکستان دو ٹکڑے نا ہوتا اس کی اور بھی کئی وجوہات ہیں لیکن یہ سب سے بڑی وجہ قرار دی جا سکتی ہے۔

بہرحال آمریت پسند اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے کی اصل وجہ اس وقت کے سیاستدانوں کی ہوس اقتدار تھی۔ اگر شیخ مجیب الرحمٰن الیکشن واضح اکثریت سے جیت چکا تھا تو ذالفقار علی بھٹو کو نتائج تسلیم کرنے چاہیے تھے تاکہ اتنا انتشار نا پھیلتا اور نا بات اس حد تک پہچ جاتی۔ تو بنیادی غلطی تو سیاستدانوں کی حواس اقتدار اور لالچ کی تھی۔ ذالفقار علی بھٹو کا خیال تھا کہ اگر نتائج تسلیم کر لیے گئے تو شیخ مجیب الرحمٰن پھر میرا نمبر نہیں لگنے دے گا اور میرا اقتدار میں آنا ایک خواب بن جائے گا اس لیے اس نے یہ موقع ضائع نا کیا۔

جمہوریت پسند اس کا جواب اس طرح دیتے ہیں کہ ذالفقار علی بھٹو اس لیے میدان میں آئے کیونکہ اس وقت شیخ مجیب الرحمٰن اور اس کے ساتھیوں کے بھارت اور راء کے ساتھ تعلقات روزروشن کی طرح عیاں ہو گئے تھے تو کیا بھٹو جیسا لیڈر یہ بات تسلیم کر لیتا کہ اس کے وطن پر ایسا حکمران مسلط ہو جائے جو دشمنوں سے دوستانہ تعلقات رکھتا ہو ہرگز نہیں۔ بھٹو جیسا غیرت مند لیڈر یہ بات ہرگز تسلیم نہیں کر سکتا تھا۔

آمریت پسند کہتے ہیں دیکھو جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور میں اسلام کی اصل تشہیر کی اس سے پہلے کسی حکمران نے اسلامی قانون اس طرح نافذ نہ کیے اور اگر کچھ عرصہ جنرل ضیاء الحق شہید اور زندہ رہتے تو اس ملک میں مکمل اسلامی نظام نافذ ہو جاتا بالکل اسی طرح کا نظام جس کی تیاریاں آجکل افغانستان میں ہو رہی ہیں۔ اور یاد کرو جب سودیت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو جنرل ضیاء الحق ہی تھا جس نے افغان جہادیوں کی سب سے زیادہ امداد کی۔ اور وہی جہادی بعد میں افغان طالبان کی شکل اختیار کر گئے۔ وہ جنرل ضیاء الحق کو ابھی بھی اپنا محسن مانتے ہیں اسی لیے تو انھوں نے افغانستان میں فاتح کے بعد ایک وفد کو جنرل ضیاء الحق کی قبر پر فاتحہ کے لیے بھیجا جس نے بعد میں جنرل صاحب کے بیٹے اعجاز الحق سے ان کے گھر جا ملاقات بھی کی۔

جمہوریت پسند کہتے ہیں ضیاء الحق نے اپنے ہی مالک سے بےوفائی کی ذوالفقار علی بھٹو ہی نے اسے اس مقام تک پہچایا اور افواج پاکستان کی سربراہی سونپی۔ بہرحال کہتے ہیں نا کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔ ذالفقار علی بھٹو ہی نے کہا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹمی طاقت بن کر رہیں گے اور یہی بات مغرب کو پسند نا آئی تو انھوں نے جنرل ضیاء الحق کو استعمال کرتے ہوئے ایک بے جان مقدمے میں بھٹو صاحب کو پھانسی تک پہنچا دیا۔ اور ضیاء الحق گیارہ سال جمہوریت پسندوں کو اذیت میں مبتلا کرتا رہا۔

آمریت پسند کہتے ہیں ضیاء الحق شہید تو مجاہد اور درویش انسان تھا وہ تمام اقتدار اسلامی نظام لانے کی کوشش کرتا رہا۔ لیکن کچھ طاقتوں کو سمجھ لگ چکی تھی کہ اب تھوڑے عرصہ میں ہی یہ اسلامی نظام مکمل طور پر نافذ کر دے گا تو انھیں طاقتوں نے جنرل صاحب کا طیارہ کریش کروا کے انھیں شہید کروا دیا۔ تا کہ اسلامی نظام نافذ نا ہو سکے۔ اب اللہ قادر مطلق ہی جانے جمہوریت پسند سچے ہیں یا آمریت پسند لیکن دونوں اس معاملے میں الزام مغربی طاقتوں پر ہی لگاتے ہیں۔ مگر اصل بات تو یہ ہے کہ یہ امداد کے طلب گار بھی انھی سے ہوتے ہیں۔

جمہوریت پسند کہتے ہیں نوے کی دہائی ہی دیکھ لو اسٹبلشمینٹ نے کسی جمہوری حکومت کو بھی کام نا کرنے دیا۔ بے نظیر بھٹو آئی تو نواز شریف کو آئی جے آئی بنوا کر مضبوط کیا نواز شریف آیا تو بے نظیر بھٹو کے ساتھ مل گئے ان کا بنیادی مقصد تھا کہ کسی کو سکون سے کام نہیں کرنے دینا اور نا کسی کو پانچ سال مکمل کرنے دینا ہے نہیں تو ہماری جگہ کہاں سے بنے گی۔ اپنی جگہ بناتے بناتے انھوں نے قوم کا بے پناہ نقصان کیا۔ لیکن اپنی جگہ بنا لی اور ملک پر ایک اور آمر مسلط کر دیا گیا۔

آمریت پسند کہتے ہیں کہ نوے کی سیاست میں جو کچھ ہوا اس کی بنیادی غلطی سیاستدانوں کی ہے۔ وہ اقتدار کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ اور اس بات میں وزن بھی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے کبھی پیغام تو نہیں بھیجا کہ تشریف لے آئیں آپ کے لیے راستے ہموار کرتے ہیں ہمیشہ یہ سیاستدان ہی ہوتا ہے جو مقتدر طاقتوں کی منتیں تک کرتا ہے کہ ہمیں اقتدار دلوایا جائے۔ اور پھر جب کبھی اس کھیل سے کوئی آمر جنم لے لے تو پھر سارے سیاستداں سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ یہ کیا ہو گیا۔

آمریت پسند مزید کہتے ہیں کے جنرل پرویز مشرف کو بھی مجبور کیا گیا مارشل لاء لگانے پر۔ کوئی اس طرح کی بےعزتی برداشت نہیں کرتا کہ آپ کسی دوسرے ملک کے دورے پر ہوں جس طرح پرویز مشرف سری لنکا کے دورے پر تھے اور پیچھے سے ان کی جگہ نیا چیف بنا دیا جائے اور پھر اس کا طیارہ جب واپس آنے لگے تو اس کے پائلٹ سے کہا جائے کہ کسی دوسرے ملک میں لینڈ کیا جائے پاکستان کی سر زمین پر آپ کا طیارہ لینڈ نہیں کر سکتا۔ اور پھر اس میں اتنا فیول بھی نا ہو کہ کسی دوسرے ملک تک پہنچ سکے یعنی اس کی جان سے کھیلا جائے تو کیا خیال ہے وہ اس پر رد عمل نہیں دے گا۔ بالکل دے گا اور اسی طرح کا دے گا جس طرح کا جنرل سید پرویز مشرف نے دیا۔

جمہوریت پسند کہتے ہیں تو پھر وہ نوے دن میں الیکشن کا وعدہ کرکے آٹھ نو سال اقتدار کے مزے کیوں لیتا رہا؟ وہ بھی کوئی لیڈر ہے کہ کیا گیا وعدہ وفا نا کر سکے۔ اور پھر اقتدار کے ان دنوں میں اس نے کیا کیا نہیں کیا جس سے پاکستان کی بدنامی ہوئی نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کروایا، محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کروایا۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان جن کی بدولت ہم ایٹمی طاقت بنے ان کو نظر بند کر کے ان کے ساتھ جس قسم کا سلوک کیا گیا کیا وہ ایک قومی ہیرو کے لیے مناسب تھا؟ اور پھر موصوف اپنی کتاب (IN The LINE OF FIRE) میں انکشاف کرتے ہیں کہ ہم امریکی ایجنسی سی آئی اے سے ڈالر لے کر مطلوب لوگ ان کو پکڑ کر دیتے تھے کتنی شرم کی بات ہے۔ کہ ڈالر لے کر اپنے بندے ان کے حوالے کر دیے جاتے تھے۔اور افغانستان کی جنگ میں دھکیلنے والے بھی یہی آمرء تھے جن کی وجہ ہم نے بے پناہ نقصان اٹھایا۔

آمریت پسند کہتے ہیں بے نظیر بھٹو کو جس نے قتل کروایا وہ سب جانتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے قتل سے مشرف کو تو کوئی فائدہ نا ہوا بلکے نقصان ہوا۔ بی بی کو انہی لوگوں نے قتل کروایا جن کو بعد میں فوائد حاصل ہوئے۔ اور رہی بات ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تو ان سے کچھ غلطیاں ہوئی جن کی وجہ سے ان سے اس طرح کا رویہ رکھنا پڑا لیکن پھر بھی وہ روایہ کسی حد تک مناسب نا تھا۔ جبکہ یہ الزام بلکل غلط ہے کہ مشرف نے اپنے ملک کے مطلوب لوگ پکڑ کے امریکی ایجنسی سی آئی اے کو دیے۔ سی آئی اے کو لوگ پکڑ کر دیے ضرور لیکن وہ لوگ جو پاکستان میں بھی دہشت گردی کی کروائیوں میں ملوث تھے اور سی آئی اے کو بھی مطلوب تھے اور وہ بھی پہلے ان کے اپنے ممالک کو آفر کیے جب انھوں نے لینے سے انکار کیا تب انھیں سی آئی اے کے حوالے کیا گیا۔

جمہوریت پسند کہتے ہیں کہ اسی طرح کی آمرانہ سوچ نے ملک کو تباہ کیا۔ اسی سوچ سے آمر جنم لیتے ہیں اور دس دس سال ملک پر حکمرانی کرتے ہیں۔ ان کا حکومت سے تعلق ہی نہیں ہونا چاہئے ان کے ذمہ جو کام ہے وہ سرانجام دیں۔

آمریت پسند کہتے ہیں یہ سوچ تو چلو غلط سہی جمہوریت نے اس ملک کو کیا دیا؟ مشرف تو چلا گیا اس کے بعد زرداری اور نواز شریف نے کون سا تیر مار لیا؟ اور اب عمران خان کون سے چھکے مار رہا ہے۔؟ مشرف کے دور میں ڈالر کہاں تھا اور اب کہاں ہے؟ مشرف کے دور میں مہنگائی کہاں تھی اور اب کہاں ہے؟

جمہوریت پسند کہتے ہیں جو بھی کہہ لو جمہوریت آمریت سے ہر لحاظ سے بہتر ہے۔ اور جموریت ملک کا حسن ہوتی ہے۔ اسلامی بردار ملک ترکی میں دیکھو جب آمر سر اٹھانے لگا تو عوام نے اس قدر زبردست ردعمل دیا کہ اب کوئی آمر وہاں جنم لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہی تو ان کی طاقت کا راز ہے کہ وہ دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے نظر آتے ہیں۔

جمہوریت پسندوں اور آمریت پسندوں میں یہ بحث شروع سے چلتی آئی ہے اور آگے بھی چلتی رہے گی۔ مگر یہ بات طے ہے کہ چاہیےکوئی آمر ہو یا کوئی جمہوری حکومت اب تک ویسا پاکستان بنانے میں ناکام رہے ہیں جس کا خواب علامہ محمد اقبال رح نے اور قائداعظمؒ محمد علی جناح نے دیکھا تھا۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Imf Aur Pakistan, Naya Magar Shanasa Manzar

By Khalid Mehmood Rasool