Inqilabi Aalim e Deen
انقلابی عالم دین
زندگی خواہشات کا نام ہے۔ اور خواہشات کے سہارے ہی انسان زندگی بسر کرتا ہے۔ میرے دل میں بھی دوسروں کی طرح ایک کے بعد دوسری خواہش جنم لیتی ہے۔ میری بڑی خواہشات میں سے ایک مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد رح کو زندہ دیکھنا یا ان سے ملاقات کا شرف حاصل کرنا تھا۔ ایسا عاشق رسولﷺ ایسا مبلغ ایساعالم دین استادوں کا استاد جس نے لاتعداد دلوں میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی محبت ڈالنے کی کوشش کی اور اپنی ساری زندگی دین مصطفیٰﷺ پر وقف کر دی۔
ایسا انداز بیان کے جو بھی سنے ایسا ممکن ہی نہیں کے بعد میں انھیں سننے کا عادی نا ہو جائے۔ اسلام کی سب سے بہترین تشریح اگر کسی عالم دین نے کی ہے تو وہ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم تھے میں تو انھیں اپنا استاد اور مرشد مانتا ہوں۔
ڈاکٹر اسرار احمد 26 اپریل، 1932ء کو موجودہ بھارتی ریاست ہریانہ کے ضلع حصار میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ لاہور منتقل ہو گئے اور گورمنٹ کالج سے ایف ایس سی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ 1954ء میں انہوں سے کنگ ایڈورڈ کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد 1965ء میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی سند بھی حاصل کی۔ آپ نے 1971ء تک میڈیکل پریکٹس کی۔
دوران تعلیم آپ اسلامی جمیت طلبہ سے وابستہ رہے اور فعال کردار ادا کرتے ہوئے ناظم اعلی مقرر ہوئے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم جماعت کی انتخابی سیاست اور فکری اختلافات کے باعث آپ نے اس سے علحیدگی اختیار کرلی اور اسلامی تحقیق کا سلسلہ شروع کر دیا اور 1975ء میں تنظیم اسلامی کی بنیاد رکھی جس کے وہ بانی قائد مقرر ہوئے۔ 1981ء میں آپ جنرل ضیا الحق کی مجلس شوریٰ کے بھی رکن رہے۔ حکومت پاکستان نے آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اسی سال ستارہ امتیاز سے نوازا۔ آپ مروجہ انتخابی سیاست کے مخالف تھے اور خلافت راشدہ کے طرز عمل پر یقین رکھتے تھے۔ آپ اسلامی ممالک میں مغربی خصوصاً امریکی فوجی مداخلت کے سخت ناقد تھے۔
اسی کی دہائی میں جب فوجی حکمران ضیاءالحق کی مجلس شوری میں شمولیت کے ساتھ ساتھ انہوں نے سرکاری ٹیلی ویژن یعنی پی ٹی وی پر ان کا درس قرآن کا پروگرام الہدی شروع کیا تو پاکستان میں ان کی شہرت عروج پر پہنچ گئی۔ صدر ضیاءالحق ماڈل ٹاؤن میں یا باغ جناح کی مسجد دارالسلام میں ان کی امامت میں نماز ادا کرتے اور خطبہ سنا کرتے تھے۔
ڈاکٹر اسرار احمد نے چند برس کے بعد ضیاءالحق کی مجلس شوری سے استعفی دے دیا تھا اور جنرل ضیاء الحق نے باغ جناح میں ان کی امامت میں نماز ادا کرنے کے بعد ان سے مجلس شوری چھوڑنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا تھا کہ آپ نے اسلام نافذ کرنے کا جھوٹا وعدہ کیا تھا اور لوگوں کو اسلام کے نام پر دھوکا دیا۔ لاہور کے سینئر صحافی پرویز حمید نے کہا کہ فوجی آمر سے ہونے والی یہ گفتگو ان دنوں اخبارات میں شائع ہوگئی تھی جس کا اختتام ڈاکٹر اسرار کے اس جملے سے پر ہوا تھا کہ میں یہاں بیٹھا ہوں آپ جب اسلامی نظام نافذ کرلیں گے تو میں آپ کے ساتھ شامل ہوجاؤں گا۔
ڈاکٹر اسرار احمد اس سے پہلے جماعت اسلامی کو بھی نقطۂ نظر کے اختلاف کی بنیاد پر خیر باد کہہ چکے تھے۔ وہ جماعت اسلامی کے پارلیمانی طرز سیاست میں حصہ لینے اور اس کے بانی مولانا موددی کے یک شخصی فیصلوں کے خلاف تھے۔ ڈاکٹر اسرار کا خیال تھا کہ پارلیمانی طرز سیاست کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہے جبکہ ان کے خیال میں خلافت کا احیاء ہی حقیقی مسلم طرز حکمرانی ہوسکتاہے۔
ڈاکٹر اسرار احمد ایک عرصے تک اپنے خطابات میں یہ کہتے رہے کہ پاکستان کا دشمن بھارت نہیں ہے بلکہ امریکہ یورپ اور اسرائیل اصل مخالف ہیں جو تیسری دنیا کو پسماندہ رکھنے اور ان پر مظالم کے ذمہ دار ہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے بھارت کے کئی دورے بھی کیے اور وہاں مسلمانوں کے بڑے اجتماعات سے خطاب کیا۔ ڈاکٹر صاحب کہا کرتے تھے بھارت میں ایک ایسی مضبوط لابی موجود ہے جو پاکستان سے تعلقات ٹھیک نہیں ہونے دے گی۔
ڈاکٹر اسرار بھارتی اسلامی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تعریف کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ اسلام کے لیے بہت کام کررہے ہیں۔ ان کا یہ بھی تجزیہ تھا کہ پاکستانیوں کی نسبت بھارتی مسلمان اسلام کے زیادہ قریب ہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے بعض دفعہ اس خواہش کا اظہار کیا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے پیس ٹی وی کی طرح وہ بھی پاکستان میں ٹی وی چینل کھولنا چاہتے ہیں لیکن حکام طرح طرح کی شرائط عائد کررہے ہیں۔
صحافیوں سے غیر رسمی ملاقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک صحافی نے ان سے کہا کہ وہ کچھ کمپرومائز کرکے ایک دفعہ چینل کا لائسنس حاصل کیوں نہیں کرلیتے؟ اس بات پر وہ خاموش ہوگئے لیکن ان کا انداز بتا رہا تھا کہ زندگی میں کبھی کمپرومائز نہ کرنے والے ڈاکٹر اسرار احمد کو یہ بات پسند نہیں آئی تھی۔
تنظیم اسلامی کی تشکیل کے بعد آپ نے اپنی تمام توانائیاں تحقیق و اشاعت اسلام کے لیے وقف کردی تھیں۔ آپ نے 100 سے زائد کتب تحریر کیں جن میں سے کئی کا دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ آپ نے قرآن کریم کی تفسیر اور سیرت نبوی ﷺ پر کئی جامع کتابیں تصنیف کیں۔ عالمی سطح پر آپ نے مفسر قران کی حیثیت سے زبردست شہرت حاصل کی۔ بلا مبالغہ ان کے سیکڑوں آڈیو، ویڈیو لیکچرز موجود ہیں جن کے دنیا کی کئی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں۔ بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اسلام کا صحیح تشخص ابھارنے میں وہ اہم ترین کردار ادا کیا جو تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔
ڈاکڑ اسرار احمد کے خطبات سے ماخوذ 5 کتب: ملفوظات ڈاکٹر اسرار احمد، اصلاح معاشرہ کا قرانی تصور، نبی اکرم سے ہماری تعلق کی بنیادیں، توبہ کی عظمت اور تاثیر، حقیقت و اقسام شرک، قرآن کے ہم پر پانچ حقوق۔
ڈاکٹر اسرار احمد پڑھے لکھوں کے لیڈر تھے۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے بہت سے لوگوں کی زندگیاں تبدیل کر دی۔ ایسا عظیم مقرر میں نے نہیں سنا جس کی آواز انسان پر اس قدر سحر طاری کر دیتی ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ چند سال پہلے میرے ایک عزیز نے مجھے ایک موضوع پر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کا ایک وڈیو کلپ دیکھایا۔ میں اس وقت سے پہلے ڈاکٹر صاحب کو نہیں جانتا تھا اور اس کا پچھتاوا مجھے بہت عرصہ تک رہا کہ میں اس علم کے سمندر سے پہلے کیوں واقف نا تھا۔ کاش کے وہ اس وقت حیات ہوتے تو میں انھیں ملنے کی ضرور کوشش کرتا۔ وہ نوجوان نسل پر زیادہ ضرور دیتے کے وہ صراط مستقیم پر چلیں کیونکہ اپنی جوانی میں ہی وہ مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رح سے بہت متاثر تھے۔ ان کی شاعری کو اکثر اپنی تقاریر میں پڑھا کرتے تھے۔
ڈاکٹر اسرار احمد کافی عرصےتک دل کے عارضے اور کمر کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ اور بالآخر مؤرخہ 14 اپریل 2010ء کو 78 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کو گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے پسماندگان میں ان کی بیوہ، چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔
ڈاکٹر صاحب امّت مسلمہ کے لئے ہر لحاظ سے ایک فکر مند قائد کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ آپ کی پیشین گوئیاں لفظ بہ لفظ ثابت ہوئیں، یہ آپ کی کمالِ دور اندیشی و دوربینی کا ایک مظہر ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ بات نوے کی دہائی میں کی تھی کہ ممکن ہے کئی عرب ممالک اسرئیل کو تسلیم کر لیں ان کے دنیا سے جانے کے تقریباً دس سال بعد یہ بات بلکل درس ثابت ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کے کچھ نظریات سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ اسلام کی اصل تصویر اگر کسی عالم نے (فرقہ واریت جیسی لعنت سے پاک) پیش کی ہے تو ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم ان میں ایک ہیں۔ میں اپنی مثال دے سکتا ہوں کے میرے دین کی طرف زیادہ رغب ہونے میں ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے بیانات کا بہت اہم کردار ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے پیارے محبوب حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے صدقے ہر معاشرے کو ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم جیسا سچا عاشق رسولﷺ، عظیم لیڈر، مبلغ، عالم دین اور رہنما عطا کرے اور ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنائے (امین)