Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hamza Bhatti/
  4. Baghi

Baghi

باغی

ویسے تو پاکستان کی سیاست کے بارے میں بات کرنے سے پہلے انور مسعود صاحب کی یہ بات ضرور یاد آتی ہے کہ: "A Common man has no right to discuss Politics"۔ لیکن پھر بھی کسی کسی وقت اس پر بات کرنے کو دل کرتا ہے اب بھلا دل کو انور مسعود صاحب کی یہ بات کون سمجھائے اس کی سمجھ میں تو آنے سے رہی آخر نادان جو ٹھہرا۔

بہرحال پاکستان کی سیاست میں چند ہی ایسے سیاستدان آئے جو واقعی ہی جمہوریت کی پاسداری کی غرض سے اور عوام کے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے میدان سیاست میں آئے۔ نہیں تو زیادہ تر سیاستدان اس بات کے شوقین ہی نہیں کہ جمہوریت کی بہتری کے لیے عوام کی فلاح کے لیے کام کریں وہ اپنے مفادات کے تحت ہی آتے ہیں یا لائے جاتے ہیں۔ اور انہی مفادات کے تحت راستے سے ہٹا بھی دیے جاتے۔ کوئی تھوڑا بہت بھی اگر پاکستانی سیاست کو سمجھتا ہے تو وہ ان باتوں سے یقیناً آگاہ ہو گا۔

آج کل کے جدید دور سیاست میں یہ تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ اسے اقتدار کا مزہ لوٹنے کی آفر ہو اور وہ نا میں سر ہلا دے ویسے بھی یہ انسانی فطرت میں شامل ہے کہ اسے عروج ہی پسند ہے۔ اب وہ دور کہاں جب بابا نوابزادہ نصراللہ خان جیسے سیاستدان سیاست کیا کرتے تھے جن کو دیکھ کے سیاستدانوں کو رشک آتا تھا۔ جو ہمیشہ جمہوریت کے لیے لڑا کرتے تھے۔ وہ اصل جمہور اور جمہوریت کے محافظ تھے مگر بدقسمتی دیکھیں کہ جمہور کو ہی ایسے جمہوریت پسند چہرے اچھے نہیں لگتے ان کو بھی وہی پسند ہیں جن کے منہ سے جمہوریت کی بات سننا گالی سےکم نہیں لگتا۔

آج کی میری تحریر کا موضوع ایک ایسا سیاستدان جن سے لاکھ اختلاف سہی مگر میں انھیں کم از کم اصول پسند اور جمہوریت کا محافظ سمجھتا ہوں۔ آپ یقیناً میری رائے سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ یہ ایسا اصول پسند سیاستدان ہے کہ ایک پارٹی پر جب زوال آیا تو یہ چٹان کی طرح اس برے وقت میں ان کے ساتھ کھڑا رہا۔ اور جنرل مشرف کی ڈکٹیٹرشپ میں اس شخص پر اس قدر تشدد ہوا کہ جس کی مثال نہیں ملتی اس دوران موصوف برین ہیمرج کا شکار بھی ہو گئے تھے۔

ڈکٹیٹرشپ میں جب اس کی پارٹی قیادت بھی موجود نا تھی یہ شخص سینہ تان کر کھڑا رہا۔ لیکن جب ان پر عروج آنا شروع ہوا اور لگا کہ اب اقتدار کے دروازے ان پر کھولنے جا رہے ہیں اصولی اختلاف پر اس مرد مجاہد نے اس جماعت کو خیرباد کہہ دیا جس کے لیے اس نے ڈکٹیٹرشپ کی ماریں کھائیں اور جیلیں کاٹیں۔ پھر وہ دوسری سیاسی جماعت میں شامل ہوئے تو ان کو عروج کی طرف لے جانے میں اہم کردار ادا کیا مگر پھر ایک ایسا موقع آیا کہ جمہوریت کے لیے اسے پھر وہ اقتدار کی طرف جاتی ہوئی جماعت نظریاتی اختلاف پر چھوڑنی پڑی۔ موصوف اس وقت موجود پاکستان کی سب سے بڑی دو جماعتوں کے صدر رہ چکے ہیں۔

پاکستان میں جب بھی یہ نعرہ لگتا ہے کہ "ایک بہادر آدمی" تو جواب ہمیشہ یہی آتا ہے "ہاشمی ہاشمی"۔ ملتان کی سر زمین سے تعلق رکھنے والے اس مردمجاہد کو لوگ مخدوم جاوید ہاشمی کے نام سے جانتے ہیں۔ جاوید ہاشمی ملتان کے ایک گاؤں مخدوم رشید میں یکم جنوری 1948ء کو پیدا ہوئے۔ پہلے ایم اے پولیٹکل سائنس کیا اور پھر فلسفے میں ایم اے کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔ مخدوم جاوید ہاشمی زمانہ طالبعلمی میں جماعت اسلامی کی برادر مگر خود مختار طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کے سرگرم رکن رہے اورسال 1971 میں پنجاب یورنیورسٹی کی سٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہوئے۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد جاوید ہاشمی مولانا مودودی کی خدمت میں حاضر ہوئے جنہیں وہ اپنا مرشد و رہنما تسلیم کرتے ہیں۔ جاوید ہاشمی نے مولانا مودودی سے کہا کہ میں تعلیم اور جمعیت سے فارغ ہوچکا ہوں مگر جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار نہیں کر رہا۔ میرے لیے دعا کریں۔ مولانا مودودی نے فورا دعا کے لیے ہاتھ اٹھادئے۔ اور دعا کی کہ یا اللہ اس نوجوان سے اپنے دین کی خدمت لے لے۔ (بحوالہ جاوید ہاشمی کی کتاب، ہاں میں باغی ہوں)۔

ہاشمی صاحب کی تصانیف میں: ہاں میں باغی ہوں (2005ء) اور تختہ دار کے سائے تلے(2007ء) شامل ہیں۔ ہاشمی صاحب نے اپنے سیاسی سفر کے دوران غلطیاں بھی کافی کی مگر انسان ہونے کے ناطے غلطیوں کی زد میں آ جانا فطری عمل ہے۔ مثلا ہاشمی صاحب جب جمہوریت کی مضبوطی کی بات کرتے ہیں تو آوازیں آتی ہیں کہ ہاشمی صاحب آپ جیسے بندے جو جنرل ضیاء الحق جیسے ڈکٹیٹر کی کابینہ کا حصہ رہے ہوں وہ کس منہ سے جمہوریت اور اس کی مضبوطی کی بات کرتے ہیں۔ مگر یہ بات بھی تاریخ کاحصہ ہے کہ جب پارلیمینٹ میں جنرل ضیاءالحق مرحوم بطور صدر تقریر کرنے آئے تو جماعت اسلامی کے ایک رکن نے کھڑے ہو کر بات کرنا چاہی تو صدر مملکت نے انھیں روک دیا جس پر جاوید ہاشمی کھڑے ہوگئے اور کہا جنرل صاحب آپ اس ہاوس میں اجنبی ہیں یہ تو ہاوس کے ممبر ہیں جن کو آپ تقریر کرنے سے روک رہے ہیں۔ اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اسی جاوید ہاشمی نے 1985 کے غیر جماعتی انتخاب کے بعد جنرل ضیاءالحق مرحوم کے مخالف گروپ کے نامزد اسپیکر سید فخر امام (جو آجکل عمران خان کی کابینہ کا بھی حصہ ہیں) کو اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر ووٹ دیا اور کامیاب کرویا۔ جو ایک ڈکٹیٹر کے خلاف بغاوت تھی۔

کسی بھی سیاستدان کو کلین چٹ دینا تو بہت مشکل کام ہے ہاں مگر اس کی جہدوجہد کا اعترف کرنا بطور سیاسی طالب علم ہم جیسوں کے فرائض میں شامل ہے۔ اگر یہ غلطیاں کرتے ہیں تو اس کی سزا بھی تو ان ہی کو ملتی ہے۔ پھانسی بھی تو ذالفقار علی بھٹو کو ہی دی گئی۔ قتل بھی تو ظہور الہی، بے نظیر بھٹو اور نواب اکبر خان بگٹی کو ہی کیا گیا۔ جیلں اور ماریں بھی تو یہی کھاتے ہیں۔ لیکن ان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے کو گرانے میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ جمہوریت کے حق میں مارے گئے نعرے بھول جاتے ہیں۔

اور جب نوابزادہ نصراللہ خان اور ان کے شاگرد مخدوم جاوید ہاشمی جیسے سیاستدان ان جیسوں کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرتے ہیں تو ان کا انجام کوئی خاص اچھا نہیں ہوتا ہاں مگر سیاست کو سمجھنے والے اور اس جمہوریت کے حامی جو ہمارے قائد اعظم محمد علی جناح ہمیں دے گئے جو ان کا نظریہ تھا اس نظریے کے حامی ان جیسوں کی قدر ضرور کرتے ہیں اور ان کی جمہوریت کے لیے جہدوجہد کا کم از کم اعترف ضرور کرتے ہیں۔ صاحب بصیرت جاوید ہاشمی سے اس بات پر ضرور خفا ہیں کہ جس راستے پر وہ آجکل ہیں وہ ان جیسے جمہوریت پسندوں کا راستہ نہیں۔

جمہوریت کو ہمیشہ سے نوابزادہ نصراللہ خان اور جاوید ہاشمی جیسے جمہوریت پسند سیاستدانوں کی ضرورت رہی ہے اور آگے بھی رہے گئی جو چور دروازے سے آنے والوں کی ہمیشہ مخالفت کرتے رہے ہیں۔ عوام کے نمائندوں کو عوام ہی منتخب کرے تو اصل جمہوریت قائم ہوتی ہے۔ ورنہ یہ نام کی ہی جمہوریت ہے وہ جمہوریت نہیں جس کا خواب میرے پیرومرشد حضرت علامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا اور بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح جس حقیقی جمہوریت کی ہم سے توقع کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے حبیب حضرت محمدﷺ کے صدقے سب کی رہنمائی فرمائے۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Aisa Kyun Hai?

By Azam Ali