Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hamza Bhatti/
  4. Allah Se Talluq Mazboot Karen

Allah Se Talluq Mazboot Karen

اللہ سے تعلق مضبوط کریں

اسلام سب سے پہلے جو ایک مسلمان سے مطالبہ کرتا وہ اپنے رب پر ایمان لے آنا ہے اور دل سے اس بات کا اقرار کرنا ہے کہ اس کائنات کا نظام وہ خالقِ و مالک ہی چلا رہا ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں اور جو ہر چیز پر قادر ہے۔ ہر معاملے میں اُسی کی حکمرانی ہے اُس کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی حرکت نہیں کر سکتا۔

اللہ کے آخری کلام قرآن پاک میں ہے کہ"زمین اور آسمانوں کی تخلیق اور دن رات کے باری باری آنے میں ان عقل والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو اٹھتے بیٹھے اور لیٹتے ہر حال میں اللہ تعالٰی کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت پر غوروفکر کرتے ہیں۔"

اللہ تعالٰی کو حاصل کرنے کے لیے اور اللہ تعالٰی سے اپنا تعلق مضبوط کرنے کے لیے اللہ تعالٰی کو اولین ترجیح سمجھنا سب سے ضروری عمل ہے۔ ایک انسان جس کا قلب بیدار ہو اور جو صاحبِ بصیرت ہو وہ ہمیشہ رب تعالٰی کو اپنی اولین ترجیح ہی سمجھتا ہے۔ کیونکہ صوفیاء کے مطابق یہ رب تعالٰی کی توہین ہے کہ آپ اپنے حقیقی مالک کو سب سے پہلے نہ سمجھیں۔ اس لیے اپنے خالق و مالک کو ہر معاملے میں اولین ترجیح سمجھنا رب تعالٰی سے آپ کے تعلق کو مضبوط کرتا ہے۔

اللہ تعالٰی سے تعلق مضبوط کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان اپنے رب کے احکام کی اطاعت کرنے میں کوئی کسر نا چھوڑے اور ان کا حق مکمل ادا کرئے اور اپنی خواہشات کو اس کے درمیان حائل نہ ہونے دے اور اللہ تعالٰی کی مقرر کردہ حدود سے آگے نہ نکلے کیونکہ اسی میں انسان کی بھلائی ہے اور دنیا و آخرت میں بہتری ہے۔

حضور نبی کریمؐ ﷺ نے فرمایا"تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہو جائیں۔"۔ انسان کا اپنے رب سے تعلق مضبوط کرنے کا سب سے آسان فارمولا نبی کریمؐ ﷺ کی پیروی ہے۔ کیونکہ خالقِ کائنات خود فرماتے ہیں۔ "جس نے میرے نبیؐ ﷺ کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میری اطاعت کی وہ میرے دائرے میں آ گیا اور جو میرے دائرے میں آ گیا وہ یقیناً عذاب سے بچ گیا۔"

نبی کریمؐ صلی علیہ اللہ وسلم کی اطاعت انسان کو اپنے رب تک پہچاتی ہے اور دنیا و آخرت میں اس کی بھلائی کا سبب بنتی ہے۔ قرآن کریم کا مطالعہ ایک ایسا خوبصورت عمل ہے جو انسان کی دنیا و آخرت کے ہر معاملے میں راہنمائی کرتا ہے۔ اور اُسے سمجھتا ہے کہ بے شک انسان خسارے میں ہے سوائے ان کے جو ایمان لے آئے اور عمل صالح کرتے رہے اور رب کے ہر عمل پر صبر و شکر سے کام لیتے رہے۔

یہ بھی مومن کی ایک نشانی ہے کہ رب تعالٰی کے ہر فیصلے اور تقدیر پر راضی رہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ "مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے اس کے ہر کام میں خیر ہے اور یہ معاملہ صرف مومن کے لیے ہے اگر اُسے خوشی حاصل ہوتی ہے تو شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے اور اگر اسے تکلیف پہچتی ہے تو صبر کرتا ہے اور اِس میں اُس کے لیے خیر ہوتی ہے۔

اور واصف علی واصف صاحب نے بھی کہا نہ کہاللہ کسی انسان پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ بیمار اور لاغر روحیں ہمیشہ گلہ کرتی ہیں، صحتمند ارواح شکر۔ زندگی پر تنقید خالق پر تنقید ہے اور یہ تنقید ایمان سے محروم کر دیتی ہے۔ رب تعالٰی سے تعلق میں مضبوطی کے لیے دعا کا عنصر بھی قابلِ ذکر ہے۔آپؐ ﷺ نے فرمایا "دعا عبادت کی روح ہے"۔

دعا رب سے باتیں کرنے اور اُسے دکھ سنانے کا ذریعہ ہے۔ لوگوں کے سامنے اپنے دکھوں کا اظہار کرنے کی بجائے اپنے خالق و مالک کے سامنے اپنے حالات بیان کریں جو بے شک سب سے بہتر مددگار ہے۔ رب تعالٰی ہمارے دلوں کے راز جانتا ہے مگر وہ ہماری زبان سے اس کا اقرار سننا چاہ رہا ہوتا ہے کیونکہ یہ عمل رب تعالٰی کو بہت پسند ہے کہ اُس کا بندہ اُس سے بات کرے۔

ایک بزرگ سے کسی نے کہا کہ آپ ہر وقت اللہ تعالٰی کی عبادت میں مشغول ہوتے ہیں قحط کے دن ہیں اپنے رب سے بارش کی دعا کریں دیکھتے ہیں آپ کی دعا قبول ہوتی ہے۔ اُس بزرگ نے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر دعا مانگنا شروع کر دی اور بے دھڑک رونے لگے اس وقت تک روتے رہے جب تک کہ بادل نہ آگئے اور پھر بادلوں کے آتے ہی سجدہِ شکر ادا کیا۔ وہ شخص کہنے لگا آپ کے پاس ایسا کون سا فارمولا ہے کہ اتنے قلیل وقت میں بارش کے آثار نہ ہونے کے باوجود بادل آ گئے۔ تو بزرگ کہنے لگے کہ بیٹا اپنے خالق و مالک سے تعلق اس طرح مضبوط کرو کہ ایک بچہ جس طرح ضد کر کے اپنی ماں سے بات پوری کروا لیتا ہے اور وہ تو بےشک ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرنے والا ہے تو اسی طرح اپنے رب سے اپنی بات منوا لیں۔ صرف تعلق میں مضبوطی کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ اپنے آپ میں سے نکل آنا بھی بنیِ آدم کو اپنے رب کے قریب لے جاتا ہے۔ یعنی اپنی میں سے نکل آنا کہ میں سب کچھ ہوں اور اس خیال سے غافل ہو جانا کہ ایک دن یہ میں مٹی میں مل جائے گئی۔ ایک درویش فقیر جنگل میں رہتا تھا ایک دن ہارون الرشید جو اس وقت حکمران تھا کا گزر جنگل سے ہوا۔ ہارون الرشید نے درویش فقیر سے کہا کیا مانگنا چاہتے ہو مانگو اس نے کہا تم مجھے کیا دے سکتے ہو اللہ دینے والا ہے اس کے علاوہ کوئی اس قابل نہیں جو کچھ دے سکے۔

ہارون الرشید کہنے لگا کہ تم نہیں جانتے میں کتنی بڑی سلطنت کا مالک ہوں۔ فقیر کہنے لگا اچھا تو اگر تم اس جنگل میں راستہ بھول جاؤ اور اس شدت کی پیاس تمہیں لگے کہ تمہیں اگر پانی میسر نہ آئے تو تم زندہ نہ رہ سکو گے تو تم اپنی بقا کے لیے کیا کرو گے۔ ہارون الرشید کہنے لگا اپنی آدھی سلطنت اس کے نام کر دوں گا جو مجھ تک پانی پہچائے گا۔ فقیر نے کہا اگر وہ پیا گیا پانی تم سے نکالا نہ جائے۔ تو اس کے بدلے کیا کرو گے ہارون الرشید کہنے لگا باقی آدھی سلطنت بھی دے دوں گا۔ تو فقیر کہنے لگا جس کی سلطنت کی قیمت صرف ایک پیالہ پانی حاصل کرنے اور اُسے خارج کرنا ہو وہ مجھے کیا دے میں تو اُس سے مانگوں جو ہر چیز پر قادر ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ موت پر پختہ یقین بھی رب سے قربت بخشتا ہے۔میری تحریروں میں اکثر موت زیرِ بحث ہوتی ہے۔ جو میری موت کے بارے میں تجسس کی وجہ ہے اور دلی تسکین کا ذریعہ ہے۔آپؐ ﷺ نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ:"وہ شخص سمجھدار ہے جو موت کو کثرت سے یاد کرے اور اس کی بہتر سے بہتر تیاری کرے"۔

حضرت عمرِ فاروقؓ فرماتے ہیں کہ: "موت سب سے بڑی نصیحت ہے"۔ موت اللہ تعالٰی کی بیان کردہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جس کا اللہ کے سوا کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ یعنی اس قادرِ مطلق کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ اس کو موت کس جگہ اور کیسے آئے گی۔

حضرت سلیمانؑ کے پاس اکثر ملک الموت حضرت عزرائیلؑ تشریف لے آتے تھے ایک دن ان کی محفل میں تشریف لے آئے تو ایک شخص کو بار بار دیکھ رہے تھے وہ بڑا پریشان ہوا کہ ملک الموت مجھے اتنے غور سے کیوں دیکھ رہے ہیں وہ گھبرایا اور حضرت سلیمانؑ سے کہا مجھے ہندوستان لے جاہیں حضرت سلیمانؑ نے ایک جن سے کہا وہ اُسے ہندوستان لے گیا جب وہ چلے گے تو سلیمانؑ نے عزرائیلؑ سے پوچھا کہ تم اس کو اتنے غور سے کیوں دیکھ رہے تھے تو وہ کہنے لگے کہ میں حیران تھا کہ اللہ تعالٰی نے مجھے حکم دیا کہ اس شخص کی جان ہندوستان میں قبض کرنی ہے اور یہ یہاں کیا کر رہا ہے۔ لہذا اُس قادرِ مطلق کے سوا کسی کو معلوم نہیں کہ آپ کب اور کہاں موت کا سامنا کریں گے۔

انسان کے اختیار کے بارے حضرت مولا علیؑ شیرِ خدا سے کسی نے دریافت کیا کہ مجھے کس حد تک اختیار حاصل ہے۔ مولاعلیؑ نے فرمایا اپنی ایک ٹانگ اُٹھاو اس نے اٹھائی فرمایا دوسری اُٹھاو کہا نہیں اٹھا سکتا فرمایا بس تیرا اتنا ہی اختیار ہے۔ اس لیے اپنے اختیار اور موت کو کثرت سے یاد کرنے والا کبھی اپنے خالق و مالک کی یاد سے غافل نہیں ہو سکتا اور اپنے خالق و مالک کو کثرت سے یاد کرنے والا ہمیشہ رب تعاٰلی کے نزدیک رہتا ہے۔

اور سچا عاشق تو اس بات کا متحمل ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے محبوب کی قربت اختیار کرنا چاہتا ہے اس لیے عشقِ حقیقی کی راہ تو اپنے خالق و مالک کی قربت سے ہی حاصل ہو گی۔ اللہ رب العزت ہم سب کو اپنا ذکر کرنے اور اپنے حقیقی خالق و مالک سے تعلق مضبوط کرنے کی توفیق دے اور اسلام پڑھنے اور سب سے بڑھ کر اس پر عمل کرنے اور اسے پھیلانے کی توفیق عطا فرما ۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Kya Irani Mazhab Bezaar Hain?

By Syed Jawad Hussain Rizvi