Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hamza Bhatti
  4. Adam Bardasht

Adam Bardasht

عدم برداشت

سہیل اور عابد دو دوست ہیں۔ ایسے پڑھے لکھے دوست جو روزانہ کسی نہ کسی موضوع پر فکری بحث کرتے ہیں تاکہ وقت بھی اچھا گزر جائے اور ایک دوسرے کے علم و فکر میں بھی اضافہ ہو جائے۔ سہیل آج بہت اداس لگ رہا تھا عابد نے سہیل سے اداسی کی وجہ پوچھی تو سہیل نے شعرانہ انداز میں گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔

برداشت کی حدوں سے مرا دل گزر گیا
آندھی اٹھی تو ریت کا ٹیلہ بکھر گیا

تحریک جب جمود کے سانچے میں ڈھل گئی
ایسا لگا کہ خون رگوں میں ٹھہر گیا

عابد یار میں نے آج یونیورسٹی آتے وقت ایسا ایک منظر دیکھا کہ جسے دیکھنے کے بعد مجھے کافی دکھ ہوا کہ ہمارا معاشرہ کس قدر عدم برداشت میں مبتلا ہو چکا ہے۔ دو نوجوان مخالف سمت میں ایک دوسرے کی طرف آ رہے تھے میری نظر ان پر تب پڑی جب وہ ایک دوسرے سے ٹکرائے اور اس کے بعد تقریباً پندرہ منٹ تک دونوں کی جانب سے اس قدر بد زبانی ہوتی رہی کہ اللہ تعالیٰ معاف کرے۔ معلوم نہیں ہمارا یہ معاشرہ اس قدر تنگ نظر کیوں ہوتا جا رہا ہے حالانکہ برداشت ہی وہ چیز ہے جو انسان کو معتبر بناتی ہے۔

سقراط کی درس گاہ کا صرف ایک اصول تھا، اور وہ تھا برداشت، یہ لوگ ایک دوسرے کے خیالات تحمل کے ساتھ سُنتے تھے، یہ بڑے سے بڑے اختلاف پر بھی ایک دوسرے سے الجھتے نہیں تھے، سقراط کی درسگاہ کا اصول تھا اس کا جو شاگرد ایک خاص حد سے اونچی آواز میں بات کرتا تھا یا پھر دوسرے کو گالی دے دیتا تھا یا دھمکی دیتا تھا یا جسمانی لڑائی کی کوشش کرتا تھا اس طالب علم کو فوراً اس درسگاہ سے نکال دیا جاتا تھا۔

سقراط کا کہنا تھا برداشت سوسائٹی کی روح ہوتی ہے۔ سوسائٹی میں جب برداشت کم ہو جاتی ہے تو مکالمہ کم ہو جاتا ہے اور جب مکالمہ کم ہوتا ہے تو معاشرے میں وحشت بڑھ جاتی ہے۔ اس کا کہنا تھا اختلاف دلائل اور منطق پڑھے لکھے لوگوں کا کام ہے۔ یہ فن جب تک پڑھے لکھے عالم اور فاضل لوگوں کے پاس رہتا ہے اُس وقت تک معاشرہ ترقی کرتا ہے۔ لیکن جب مکالمہ یا اختلاف جاہل لوگوں کے ہاتھ آ جاتا ہے تو پھر معاشرہ انارکی کا شکار ہو جاتا ہے۔

وہ کہتا تھا۔ "کوئی عالم اُس وقت تک عالم نہیں ہو سکتا جب تک اس میں برداشت نہ آ جائے۔ وہ جب تک ہاتھ اور بات میں فرق نہ رکھے"۔

عابد کہتا ہے یار یہ چیزیں تو بڑی واضح بیان کر دی گئی ہیں دین اسلام میں جس کے ہم پیروکار ہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے اپنا غصہ روکا اللہ تعالیٰ اس کے عیوب پر پردہ ڈال دے گا، جو شخص اپنے غصے کے مطابق عمل کرنے کی طاقت کے باوجود اپنے غصے کو پی گیا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے دل کو امید سے بھر دے گا۔ (السلسلۃ الصحیحۃ، ۲۰۹)

سہیل ہر چیز واضح تو ہے مگر اس کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس عدم برداشت کی ایک بڑی وجہ محبتوں کا کم ہونا حسد اور لالچ کا پروان چڑھنا بھی ہے۔ آج کل برداشت تو اس قدر کم ہے کہ سکول میں استاد بچے کو سمجھانے کے لیے تھوڑی بہت سختی کر دے تو صبح تک اس کی شکایت پرنسپل تک پہچ جاتی ہے اور اس کی انکوائری شروع ہو جاتی ہے۔

میڈیا کا کردار بھی اس میں اہمیت کا حامل ہے، میڈیا پر بھی اس قسم کی چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں جس میں عدم برداشت کے عناصر واضح موجود ہوتے ہیں۔ میڈیا پر ہر وقت عدم برداشت ہی نمایاں ہوتی ہے ایسی خبریں چلائی جاتی ہیں جس میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ بھائی نے بھائی کو قتل کر دیا، بیٹے نے باپ کو مار دیا، باپ نے کمسن بچوں کو قتل کر دیا اور غیرت کے نام پر قتل وغیرہ وغیرہ اور رہی سہی کسر ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف بدزبانی کر کے نکال دیتے ہیں۔

عابد حالانکہ لیڈر جو ہوتا ہے وہی تو قوم کو اخلاقیات کا درس دیتا ہے اور اس کی اصلاح کرتا ہے یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔

سہیل سیاست میں عدم برداشت تو شروع سے ہی چلتی آ رہی ہے۔ جب ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناحؒ کا الیکشن ہو رہا تھا تو ایوب خان سے اسی عدم برداشت نے کیا کیا نہیں کروایا کہ وہ یہ تک بھول گئے کہ انہی کی بدولت ہمیں یہ آزاد مملکت ملی ہے اور اپنے حواریوں سے محترمہ کے خلاف کس قدر نازیبا حرکات کروائیں۔

اسی الیکشن کا ایک واقعہ ہے جو بیان کرتے بھی شرم محسوس ہوتی مگر تاریخ کا حصہ ہے کہ گوجرانوالہ کے ایک سیاستدان جو ایوب خان کے حمایتی تھے غلام دستگیر خان (جن کے صاحبزادہ خرم دستگیر خان ن لیگ کے سینئر رہنما اور آجکل توانائی کے وفاقی وزیر بھی ہیں ) انھوں نے ایک کُتِیا کے گلے میں چراغ ڈال کر گوجرانوالہ کی سڑکوں پر گھومایا یاد رہے چراغ محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان تھا۔

اس کے بعد بھٹو صاحب کا دور بھی عدم برداشت سے بھرپور تھا۔ بھٹو صاحب نے اپنے تمام سیاسی مخالفین کو طرح طرح کے منصوبے بنا کر ان کی آواز کو دبایا، مخالفین تو دور کی بات ہے بھٹو صاحب کو اپنی پارٹی میں سے بھی کسی فرد کا اختلاف رائے کرنا برداشت نا ہوتا تھا۔ بھٹو صاحب اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف مولانا مفتی محمود کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ میرا بس چلے تو اس ملا کو میں ٹرین کے نیچے دے دوں اور مفتی صاحب جواباً بھٹو صاحب کی پھانسی کے لیے دعائیں کیا کرتے۔ اس کے بعد نوے کی سیاست میں جو عدم برداشت دیکھی گئی اس کی تو تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

عابد میاں ہمارا تو معاشرہ اس قدر تنگ نظر ہو چکا کہ کسی کو اپنا نظریہ بیان کرنے تک کی آزادی نہیں اس سے بڑھ کر عدم برداشت کیا ہو گی؟

سہیل میرے مطابق تو اس کا یہی آسان حل ہے کہ محبتوں کو پھیلایا جائے نفرتوں کا خاتمہ کیا جائے۔ بات کرتے وقت زبان کا استعمال تہذیب کے دائرے میں کیا جائے۔ دلوں کو موم کیا جائے اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑا جائے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری کلام قرآن حکیم میں دیا ہے۔

عابد میاں ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ آج کل معاشرے کے 90 فیصد مسائل کی جڑ عدم برداشت ہے۔ صبر و تحمل، ملنساری، خندہ پیشانی جیسے اوصاف ہمارے درمیان سے رخصت ہو چکے ہیں۔ آج اگر کوئی ہمیں ایک بات کہے تو ہم اسے چار باتیں سناتے ہیں، اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دینے کو شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ذرا سی بات پر ہوش و حواس سے بےگانہ ہو کر مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔

حالانکہ ہم تو اس نبی ﷺ کی اُمت ہیں، جنہوں نے طائف کی گلیوں میں سنگریزوں سے لہولہان ہو کر بھی بد دعا کے لیے دست دراز نہ کیے۔ ہم تو ان کے اُمتی ہیں جنہوں نے اپنے جان سے عزیز چچا جان کا کلیجہ چبانے والی ہندہ کو بھی معاف کر دیا، جنہوں نے غالب ہو کر بھی دشمن کو امان دی۔ لہٰذا ہمیں بھی معاف کرنا اور برداشت کرنا سیکھنا ہو گا کیونکہ یہ ہمارے معاشرے کی بقا کے لیے نہایت ہی ضروری ہے۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Pur Aman Ehtijaj Ka Haq To Do

By Khateeb Ahmad