Youngest Billionaire Entrepreneur In The World
ینگسٹ بلینرانٹرپنیوران دی ورلڈ
وہ آج بھی سڑک پر ریڑھی (food cart) سے گول گپے کھا لیتا ہے اور اضافی کھٹا مانگتے ہوئے جھجکتا نہیں۔ ہوم ورک نہ کرنے پر اسے اکثر سکول میں کھڑا بھی رہنا پڑتا ہے۔ وہ آج بھی اپنے پرانے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتا ہے اور ان کے ساتھ ساری جنک فوڈ کھاتا ہے اور ڈھیر ساری مستیاں کرتا ہے۔ وہ آج بھی بڑی تقریبات میں جوس اپنی شرٹ پر گرا لیتا ہے۔ بزنس تقریبات میں لوگ جب اس سے سوال پوچھتے ہیں تو گھبرا جاتا ہے۔ خواتین اینکر جب اس کے صدقے واری جا رہی ہوتی ہیں، اس کی آنکھوں میں شرماہٹ، دیہاتی پن اور کنفیوژن صاف صاف دکھائی دیتی ہے۔
سکول میں جب اسے ٹیچر اور کلاس فیلو، ان کے والدین، ہمسائے، رشتہ دار دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں! کیا وہ ساری زندگی گزارنے کے بعد اس مقام پر پہنچ جائیں گے؟ جواب میں! بے یقینی، گہرا تذبذب اور بالکل نہیں ہوتا ہے۔ وہ اکثر اسکول میں کتاب اور لنچ بکس بھول جاتا ہے۔ لیکن ان سب چیزوں کے باوجود وہ دنیا کا سب سے ینگیسٹ بلینر انٹرپرینور ہے۔ وہ سو کروڑ روپے سے زیادہ کما چکا ہے اور بلنیر کلب میں شامل ہے۔ اس کی عمر 15 سال ہے۔ میں نے اس کی سکسیس سٹوری پہلی بار 2019 میں پڑھی تھی جب وہ 13 سال کا تھا۔
بچے کا نام تلک مہتہ ہے اس نے ایک گجراتی خاندان میں جنم لیا۔ باپ وشال مہتہ بینک منیجر تھا اور ماں کاجل میہتہ ایک ہاؤس وائف تھی۔ یہ ایک عام سا مڈل سٹینڈرڈ گھرانا تھا۔ بچہ فیملی گیٹ ٹو گیدر میں بوریوالی میں اپنے انکل کے ہاں گیا۔ اور وہ اپنی میتھ کی کتاب لے گیا کہ جب فارغ وقت ملے گا تو وہ اپنے پیپر کی تیاری کرلے گا۔
وہ اپنی کتاب انکل کے گھر بھول ایا۔ اگلے دن والد کو کہا کہ دو دن بعد میرا میتھ کا پیپر ہے آپ آفس سے کسی کو بھیج کر میری کتاب منگوا دو۔ باپ نے کہا میں وعدہ نہیں کرتا کوشش کروں گا۔ آج یہی باب بینک چھوڑ کر کر اپنی بیٹے کی کمپنی میں کام کر رہا ہے۔ تلک مہتا نے اپنے انکل کو فون کیا اور انہیں کہا کہ میری کتاب کورئیر کر دیں۔ انکل نے کہا پہلے تو کتاب آج کے دن ڈلیور نہیں ہوگی۔ دوسرا تمہاری کتاب کی قیمت کیا ہے؟ تلک نے جواب دیا دو سو روپے۔تو انکل نے بتایا کہ اگر کتاب تمہیں آج ملے تو کوریئر کمپنی 250 سے 300 روپے لے گی تو اس سے بہتر ہے کہ تم نئی کتاب خرید لو۔
بچہ سوچ میں پڑ گیا کہ یہ ایک بنیادی ضرورت ہے اور بہت سے لوگ 250 سے 300 روپے افورڈ نہیں کر سکتے۔ میرے باپ کے پاس تو پھر بینک میں پین اور ڈرائیور ہے لیکن عام لوگ کس طرح چکی میں پستے ہوں گے اور فی الحال تو میں بھی تین سو روپیہ افورڈ نہیں کر رہا۔ ہندوستان میں کہاوت ہے گجراتی خاندان میں 84 کاروباری خوبیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ اور وہ اسی لئے موٹو کرو چھے (یعنی بڑا کرو) کہتے ہیں، تلک مہتا کہتا ہے اس وقت نہ میں گجراتی بن کر سوچ رہا تھا اور نہ میں کچھ بڑا کرنے کے لیے سوچ رہا تھا۔
میرے ذہن میں ایک ڈیجیٹل کمپنی آ رہی تھی میں جاگتے ہوئے خواب دیکھ رہا تھا۔ اور میں نے اس کی تعبیر کے لیے اپنے پیشن کو فالو کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں ممبئی میں میں ایسی کمپنی بناؤں گا جو اسی دن ڈلیوری کرے لیکن مناسب اور معقول پیسوں میں، کم پیسوں میں ڈیلیوری کے لئے میں پھر سٹک (stuck) ہو گیا۔ میں نے پھر آئیڈیا سوچا (میں نے جب بھی یہ آئیڈیا پاکستان میں کسی کے ساتھ ڈسکس کیا اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔ اور پاکستان میں جن لوگوں کو بھی سمجھ میں آیا۔ وہ کبھی فلاپ نہیں ہوئے انتہائی کامیاب تو ہوئے ہیں اور شہرت، نیک نامی اور عزت کی بلندیوں کو بھی قدرت نے ان کی جھولی میں ڈال دیا)۔
تلک نے سوچا اگروالیم جنریٹ کر لیتے ہیں تو ہائی پرافٹ میں چلے جائیں گے۔ ایک پارسل پر زیادہ نہیں کماتے، زیادہ پارسلوں پر فوکس کرتے ہیں اس طرح جب تعداد بڑھے گی تو پرافٹ خود بخود خود جیب اور بینک میں آئے گا۔ کنزیومر کو جب چالیس روپے ریٹ ملے گا تو وہ انتہائی خوش ہو گا تو سارا کام خود بخود اس کے پاس شفٹ ہو جائے گا۔ پھر اس نے اپنے چچا کے ساتھ آئیڈیا ڈسکس کیا اور چچا کو بتایا کہ یہ سارا سسٹم ٹیکنالوجی بیس ڈریون ہوگا۔
چچا نے کہا کوئی یقین کرے نہ کرے میں تمہارے ساتھ ہوں۔ ممبئی میں ریلوے کی چار مین اور دو سب لائن ہیں۔ Western، Central، Harbour، Trans harbour، Roha line اور Neural poran line۔ تلک نے ان کو 63 ڈگری پر کنسولی ڈیٹ کیا۔
یعنی ممبئی شہر کو 63 حصوں میں تقسیم کرکے تین، تین کلو میٹرز کےسرکل تشکیل دے دیئے۔ جونہی پارسل ایک ہاتھ آتا ہے ایلگروتھم قریب ترین سرکل کو سلیکٹ کرتا ہے پوری چین کو کمانڈ کرتے ہوئے ہر نیکسٹ سٹیپ کو ڈیسائیڈ کرتا ہے۔ ایلگورتھم نے 63 سرکلز کو آپس میں کنیکٹ کر دیا ہے۔ یعنی کوئی آدمی A سے B پوائنٹ تک مال خود لے کر نہیں جاتا وہ الگ الگ سرکل کو پاس آ ن کرتا ہے۔ یعنی اگر وہ A سے B پوائنٹ تک جائے گا اور سفر 50 کلومیٹر کا ہوگا تو وہ صرف اور صرف دو دفعہ ہی جا سکے گا۔ جب کہ سرکل سسٹم میں اسکی پروڈکٹیوٹی بڑھتی ہے اور کاسٹ کم ہوتی ہے اور ایک آدمی دو سو سے زیادہ پارسل ڈلیور کرسکتا ہے۔ یعنی ہر سرکل پر اس کے دو سے چار بندے تک موجود ہوتے ہیں ہر بندے کے پاس تین کلو میٹر کی ٹیرٹیری ہے اور وہ اس سرکل کا ماسٹر ہے۔ پرانے بادشاہ بھی اسی طریقے سے چوکیاں بناتے تھے تا کہ ایلچی یا بادشاہ خود تھکے ہوئے گھوڑے وہاں باندھ کر تازہ دم گھوڑے لے سکے اور منزل مقصود پر پر جلد از جلد پہنچا جائے۔ یعنی ہر بندہ تین کلو میٹر کے اندر دو سو پارسل بانٹ دے گا یا آگے فارورڈ کر دے گا۔ روایتی طریقہ صرف دو پارسل پہنچا سکتا تھا۔ اب اس نے اس پراسس کو ٹیکنالوجی سے کیسے لیس کیا؟ سسٹم کیسے بنایا؟ (آپ کی اکثر کالیں مجھے صرف اس سلسلے میں آتی ہیں تو یہ لائنز غور سے پڑھ لیں)۔
انہوں نے اپنی کمپنی کے نام پر ایک ایپلیکیشن بنائی ہوئی ہے ایپلیکیشن کا نام ہی کمپنی کا نام ہے پیپرز اینڈ پارسل(Paper n Parcel) ہے۔ آپ نے ایپلیکیشن بس موبائل میں ڈاؤن لوڈ کرنی ہے رجسٹر ہوں پھر آرڈر بک کریں۔ پھر جیسے پاکستان میں کریم اور اوبر کے لیے اپنے پک اور ڈراپ لوکیشن ڈالتے ہیں۔ وہ ڈال دیں۔ تو ان کا قریب ترین رائڈر آپ کے ڈور سٹپ پر آئے گا اس کے آنے سے پہلے آپ کو نوٹیفکیشن آئے گا۔ جس میں رائیڈر کی کانٹیکٹ ڈیٹیل اور تصویر بھی آتی ہے تاکہ سیفٹی بلڈ ہو جائے۔ تلک مہتہ کہتے ہیں یہ سسٹم میں نے اس لیے ڈالا کہ بچپن میں جب ماں باپ اس کے گھر میں اکیلا چھوڑ کر جاتے تھے تو اسے سمجھاتے تھے کہ اگر ڈوربیل بجے تو پہلے کی ہول سے جھانک کر دیکھے اگر باہر کورئیر والا ہے، تو کبھی بھی دروازہ نہ کھولے۔
جب پار سل پک ہو جائے گا تو آپ اس کو کانٹینیوس ٹریک بھی کر سکتے ہیں۔ جونہی پارسل ملتا وصول کرنے والا رائیڈر کے موبائل پر سائین کرتا ہے اور بھیجنے والی کسٹمر کو ای میل ریسیو ہو جاتی ہے۔ یعنی سیم ڈے ڈلیوری بھی اور ساتھ میں ثبوت بھی، سب کچھ ایپ پر مل جائے گا۔ اور اگر وصول کنندہ گھر پر نہیں ہے ڈلیوری بوائے اس کے بند دروازے کی تصویر کھینچتا ہے اور کسٹمر کو بھی دیتا ہے اور پارسل واپس نہیں کرتا بلکہ اگلے دن پھر وصول کنندہ کو فون کرکے ٹائم کی سیٹنگ کرتا ہے اور دوبارہ پارسل ڈلیور کرتا ہے۔ اس کے ہیڈ آفس میں صرف پانچ بندے ہیں جو سسٹم واچ کر رہے ہیں۔ اس کے پاس سو کل وقتی ملازم ہیں۔ اور تین سو اس نے ڈبے والوں کو ہائر کیا ہوا۔ ہندوستان میں کھانا ڈبے والے دوپہر میں گھر سے لے کر دفتروں میں ڈلیور کرتے ہیں یہ اضافی آمدنی کے لئے یہ پارسل بھی پاسں آ ن کرتے ہیں۔ ان تین سو بندوں کے ساتھ اس کا باقاعدہ کنٹریکٹ سائن ہوا ہے۔
آپ نے اس کا فول پروف سسٹم ملاحظہ کر لیا۔ وہ اپنے سسٹم کو ٹیکنالوجی ڈریون کہتا ہے تلک مہتہ کہتا ہے یہ بیک ٹو بیک آئی ٹی سسٹم میں نے 8 ماہ کی مدت میں بنایا تھا۔ وہ پوری رات بیٹھ کر سوچتا تھا کہ ٹیکنالوجی کس طرح ایمپرو اور ایڈوانس کرنی، آپریشن کس طرح سینکرونایز کرنا ہے۔ صبح ٹیم کو ایپمپلیمنٹ کا کہہ کر سکول چلے جاتا۔ اسکول کے بعد پھر کرکٹ کھیلنے چلا جاتا ہے، شام کو پتہ چلتا کہ اس سسٹم میں کوئی خامی، لوپ ہول یا مکمل ہی بیٹھ گیا ہے تو وہ پھر رات کو بیٹھ جاتا اپنے بورڈ میمبرز کے ساتھ پھر حل نکالتا، اس کی بورڈ میٹنگ رات 12 بجے سے صبح پانچ بجے تک ہوتی تھی۔
رات کو بو رڈ میٹنگ اور صبح اسکول میٹنگ۔ جب کئی راتیں جاگنے کے بعد بھی مسئلہ حل نہ ہوا تو اس نے گیواپ کرنے کا سوچ لیا۔ جس دن اس نے یہ منصوبہ ختم کرنے کا سوچا تھا اسی دن اس نے ایک موٹیویشن ویڈیو دیکھ لی اور پھر ایک نئے سرے سے ایک نئے عزم حوصلے اور امید کے ساتھ کام شروع کر دیا۔ دنیا کی نمبر ون کوریئر کمپنی فیڈکس یہ کہتی ہے۔۔
When it is absolutely. Positively has to be there overnight
یہ فیڈ کس کی گائیڈ اور پنچ لائن ہے۔ جب کہ اس کی کمپنی کی گائیڈ لائن اور موٹو ہے
Same day pickup. Same day delivery.
یہ آج بھی روز سکول جاتا ہے شام کو اپنا کام دیکھتا ہے ہے ویک اینڈ پر سارا ٹائم بزنس کو دیتا ہے اب یہ پورے انڈیا میں پھیلا رہا ہے۔ فنڈنگ اور ایکسپینڈنگ کی ٹریننگ بھی لے رہا ہے۔ اپنی کمپنی سے سے دو سے پانچ لاکھ روپے تک کی سیلری ہر مہینے لیتا ہے۔
میں نے ایک بار اس کا انٹرویو دیکھا تھا اس نے دو منٹ میں انٹرویو ختم کردیا۔ ہوسٹ نے اس سے کامیابی کا راز پوچھا اور مستقبل میں آپ کیا کرنا چاہتے ہیں اس کا ABC پلین کیا ہے یہ پوچھا؟ تلک مہتا نے کہا میں نے نپولین بوناپارٹ سے صرف ایک لائن کی ایک ہی سٹریٹجی سیکھی تھی!
آپ کی فوج ہمہ وقت ہتھیاروں سے لیس، حملے کے لیے تیار اور جیت کے لیے پرعزم ہونی چاہیے، میں نے صرف یہی کیا میں نے رائٹ لوگوں کی رائٹ ٹیم منتخب کی ان کا سیم مائنڈ سیٹ بنایا کہ وہ جیتنے کے لئے بنے ہیں۔ اور مستقبل کہ پلان کے بارے میں یہ کہا اس حکمت عملی کے بعد مجھے مستقبل میں کسی اور سٹیر یٹجی کی ضرورت نہیں۔
پس نو شت:- سیشن میں یہ واقعہ میں نے بہت مختصر اور تیزی سے سنایا تھا۔ اس لئے اوپر آج اس کمی اور کوتاہی کا ازالہ کردیا۔
مزید پس نوشت:- یہ سٹوری 2019 میں نےاپنے دوست جو ٹی سی ایس کے سی او ڈی کے کنٹری ہیڈ کو سنائی۔ انہوں نے الحمدللہ اسی سال لاہور میں اپنا آن لائن کا کام شروع کیا اور تھیوری لیپرڈ کو سنا دی۔ بعد میں مجھے لیپرڈ کے برانچ مینیجر نے بتایا ہمیں 2021 میں ہمارا ٹریننگ سیشن ہوا ہے۔ جس میں تلک مہتہ کا یہ ماڈل ہمیں پڑھایا گیا۔