Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Talkh Nawai

Talkh Nawai

تلخ نوائی

بہت دنوں بعد یہ کیفیت بنی ہے کہ کچھ لکھنے کو جی آمادہ نہیں، کئی بار قلم کاغذ سنبھالا چند حرف جوڑے پھر کاٹ دیئے۔ ایسا کبھی کبھی ہوتا ہے۔ قلم مزدوری یہ ہے کہ روز لکھا جائے۔ سمجھ لیجئے کہ اسی سے پیٹ کا دوزخ بھرنے میں مدد ملتی ہے۔ نہیں لکھیں گے تو کیا کریں گے؟ خود مجھے اس سوال کا جواب اس لئے بھی نہیں آتا کہ اس کے سوا اور کوئی کام بھی تو نہیں آتا۔ سیاسی موضوعات نصف درجن کے قریب ہیں۔ افغانستان بھی ایک موضوع ہے۔

ادھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی ایک رپورٹ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی افغانستان سے پاکستان پر حملے کرسکتی ہے۔ ہمارے کچھ طبقات کے مجاہدین اسلام و افغانستان نے گزشتہ روز قندھار کے علاقے کے سادہ مزاج مزاحیہ فنکار نذر محمد کو سفاکی کے ساتھ قتل کردیا ہے۔ اداسی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ اس سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ستر ہزار سے زائد پیارے دہشت گردی میں مرواچکنے والی قوم کا بڑا حصہ دہشت گردوں کا حامی ہے۔ آپ نذر محمد کی گرفتاری اور اس پر تشدد کی ویڈیوز دیکھیں پھر اس کے وحشیانہ قتل کی داستان الم پڑھیں اور تبرک کے طور پر قاتلوں کے پاکستانی ہم خیالوں کے تبصرے پڑھیں امید ہے کہ اٹھارہ طبق روشن ہوجائیں گے۔

دہشت گرد اسے (نذر محمد) کو گھر سے گرفتار کرکے لے گئے۔ ہم خیالوں نے کسی جنگ کے بارڈر سے پکڑوادیا۔ کچھ نے امریکی ایجنٹ قرار دیااور کچھ نے کسی ایسے خفیہ لشکر کا ہرکارہ جو طالبان سے بھی زیادہ سفاک ہے، عجیب خفیہ لشکر تھا جس نے اپنے ہرکارے اور امریکی ایجنٹ کو آسانی سے گرفتار ہونے دیا اور پھر قتل بھی۔ لیکن آپ کا فرض ہے کہ الباکستانی "مومنین" کے ارشادات پر آنکھیں بند کرکے ایمان لائیں ورنہ ایمان اور حب الوطنی دونوں بھرشٹ ہوسکتے ہیں۔

ویسے یاد کیجئے طالبان نے جب سوات پر قبضہ کیا تھا تو کیا کیا ستم نہیں ڈھائے تھے۔ شکر کریں میرا اور آپ کا شہر سوات نہیں بنا جہاں ایک بیوہ معلمہ اور اس کی نرس بیٹی کو مجاہدین سے شادی نہ کرنے کے جرم میں پہلے رات بھر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا پھر قتل کردیا گیا تو اس کے بعد ملا ف، ضل اللہ کے دستخطوں سے اعلامیہ جاری ہوا کہ "مجاہدین نے دو جسم فروش عورتوں کو کیفرکردار تک پہنچادیا"۔

اسی سوات میں مدفون ایک بزرگ کی نعش قبر سے نکال کر کھلے عام لٹکائی گئی یہیں ایک سے زائد پولیس والوں کو بجلی کے کھمبوں سے لٹکاکر پھانسی دی گئی۔ کتنا حوصلہ ہے ان لوگوں کا جو درندوں کو اسلام کا چہرہ بناکر پیش کرتے ہیں وہ دن بھول گئے جب سوات کے لوگوں کو حکم ملا تھا ہر خاندان ایک لڑکی مجاہد سے بیاہ کے لئے دے۔ یا لڑکا جہاد کے لئے، دونوں نہ ہوں تو 50ہزار روپے دے۔ کسی دن سوچیں یہ اعلانات ایک دن ملتان، لاہور، فیصل آباد یا ایسے ہی کسی اور شہر کی مساجد سے ہونے لگیں تو آپ اور آپ کے خاندان کی حالت کیا ہوگی؟

اصولی طور پر کم از کم دہشت گردوں کے حامیوں کو آگے بڑھ کر دونوں ہاتھوں سے ثواب لوٹنا چاہیے۔ ان حامیوں کی مختلف اقسام ہیں۔ ایک برانڈ کے حامی کو میں بھی جانتا ہوں اس نے کبھی عید نماز بھی نہیں پڑھی لیکن طالبان کے اسلام اور نظام کو ہی وہ مسلمانوں کی نجات کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ طالبان کے پاکستانی حامیوں کا ایک بڑا حصہ خود امریکہ، آسٹریلیا اور یورپی ممالک میں مقیم ہے اور یہ فریب زدہ لوگ افغانستان اور ہمارے لئے خالص اسلامی نظام چاہتے ہیں۔

میں اکثر سوچتا ہوں کہ یہ خالص اسلامی نظام کے محب یورپ اور امریکہ کی پرآسائش زندگیاں ترک کرکے وطن واپس کیوں نہیں آتے اور طالبان کے اسلام کو عملی شکل دینے کے لئے جدوجہد کیوں نہیں کرتے۔ جب بھی اس بارے سوچا جواب یہی ملا یہ منافق ہیں۔

کڑوا سچ یہ ہے کہ منافقین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی نے سوات سے وزیرستان تک انسانیت کے ساتھ جو کھلواڑ کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ چند دن قبل افغانستان میں پاکستانیوں کے "مجاہدین" نے دو تین موبائل ٹاور اڑادیئے۔ ایک اعلامیہ جاری کیا کہ بیوہ، طلاق یافتہ اور 18سال سے زائد عمر والی بچیوں کی فہرست مہیا کی جائے تاکہ ان کا مجاہدین سے نکاح کروایا جائے۔ بلخ کے علاقے سے خواتین سے بھری دو کوسٹریں اغوا کرکے لے گئے ان قابل احترام خواتین کا اب تک پتہ نہیں چل سکا۔

ہمارے یہاں نظام اسلام کے پرجوش حامی تو دولت اسلامیہ العراق والشام کی محبت میں بھی مرمرجاتے رہے۔ جہادی نکاح برائے جہاد کے لئے بہت ساروں نے خدمات سرانجام دیں۔ ایک ٹی وی اینکر اور لاہور میں خواتین کے لئے قائم ایک دینی تربیتی ادارے سے تعلق رکھنے والی بعض خواتین کی داعش کے مجاہدین کی خدمت کے لئے شام جانا تو ایک بڑی خبر تھی۔ باقاعدہ مقدمہ بھی درج ہوا تھا گمشدگی کا۔

یہ سب لوگ بعد میں افغانستان کے راستے وطن واپس آئے انہیں پاک افغان بارڈر پر طورخم کے مقام سے کس نے کلیئر کروایا؟ معاف کیجئے گا میں نہیں لکھ سکتا جانتے سب ہیں۔ کیا کسی کے خلاف کوئی قانونی کارروائی ہوئی۔ کافر تہذیب میں گردن تک دھنسے یورپی ممالک نے داعش کے لئے عراق اور شام جانے والوں کی شہرتیں منسوخ کردیں۔ یہاں ہمیں بتایا گیا نورین لغاری قوم کی بیٹی ہے۔ قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی بھی ہے لیکن ملالہ یوسفزئی کا نام آتے ہی قوم کے بڑے حصے کے دہنوں کی حالت گٹروں جیسی ہوجاتی ہے۔

پیارے قارئین! ان تندوتلخ باتوں پر معذرت خواہ ہوں ہمارے چار اور کا سچ یہی ہے۔ حملہ آور لشکروں کو نجات دہندہ سمجھنے والوں سے تہذیب نفس کی توقع عبث ہے۔

بات کڑوی ہے لیکن عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں۔ جس خطے کے لوگ اپنے دھرتی زاد ہیرووں کو ڈاکو اور حملہ آور لٹیروں کو نجات دہندہ اور ہیرو سمجھتے ہوں ان سے خیروبھلائی کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے یہی وہ وجہ ہے جب دہشت گردوں کے لئے اپنے چار اور کے سکہ بند مسلمانوں کی سمندر جیسی محبت دیکھتا ہوں تو کانپ اٹھتا ہوں لیکن کیا صرف میرے کانپ اٹھنے سے مسئلہ حل ہوجائے گا۔

Check Also

Baray Maidan Ka Khilari

By Muhammad Saqib