Kuch Taza Aur Purane Qissay
کچھ تازہ اور پرانے قصے
میاں شہباز شریف کی جانب سے ظہرانے کی دعوت پر سابق صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو پہنچے۔ سیاستدانوں کا آپس میں ملنا جلنا سیاسی عمل کا حصہ ہے۔ ظہرانے میں کل 5افراد تھے۔ شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو۔ یہ ملاقات سیاسی طور پر اس لئے اہم ہے کہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے ٹوٹنے کے بعد پی پی پی اور (ن) لیگ میں پیدا ہوئی سیاسی دوریوں میں ممکن ہے کچھ کمی آجائے۔ اس ملاقات پر چند وفاقی وزراء نے جو "جملہ گیری" فرمائی اس پر نرم سے نرم الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ"دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ"۔
حزب اختلاف کے رہنماوں کی ملاقات کو "جرائم پیشہ افراد کی ملاقات" قرار دینے و الے وہی صاحبان ہیں جو پچھلے دور کی کرپشن اور دوسرے معاملات پر گرفت میں آنے سے بچنے کیلئے ہر دور میں "آرام" کے ساتھ نئی حکومت کے "ٹرک" پر سوار ہوجاتے ہیں۔ خیر سیاست کی دکان ہو یا وزارت کا "چھاپہ"، دونوں پر گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لئے سیلز مین بازار سے گزرنے والے خریداروں کو متوجہ کرنے کے لئے آوازیں بھی لگاتے ہیں اور اپنے مال کے خالص ہونے کے دعوے بھی اُچھالتے ہیں۔
مثلاً آپ شیخ رشید احمد کو لے لیجئے، طلباء سیاست میں ایک جعلسازی سے آگے آئے، ان کا دعویٰ ہے کہ وہ متحدہ پاکستان کی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر رہے ہیں۔ حالانکہ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن سال 1975ء میں متحدہ مسلم لیگ کی ذیلی طلباء تنظیم کے طور پر بنائی گئی اس کے لئے اس وقت کی آل پاکستان مسلم لیگ کے چیف آرگنائزر محمد حنیف رامے کی تجویز کی پیرپگاڑا کی سربراہی میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ کی سنٹرل کمیٹی کے اجلاس میں منظوری دی گئی تھی، شیخ رشید احمد، مرحوم چودھری ظہور الٰہی کی معرفت ایم ایس ایف کا صدر بنناچاہتے تھے لیکن انتخابات سے ایک رات قبل مسلم لیگ ہائوس ڈیوس روڈ میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس کی وجہ سے شیخ رشید احمد مرکزی صدارت کے امیدوار کی حیثیت سے دستبرداری لکھ کر دے گئے۔
بعدازاں 1977ء میں تحریک استقلال میں گئے پی این سے تحریک استقلال کے کوٹے میں پنجاب اسمبلی کا ٹکٹ لیا، 1977 کے مارشل لا کے دوران کچھ عرصہ جنرل ضیاء الحق کے پیارے رہے پھر 1985ء کی قومی اسمبلی میں آزاد اپوزیشن کا حصہ بنے۔ پیپلزپارٹی میں شمولیت کے لئے ہاتھ پائوں مارے مگر کامیاب نہ ہونے پائے۔ مسلم لیگ میں چلے گئے۔ جنرل پرویز مشرف کی مسلم لیگ (ق) میں بھی بھرتی ہوئے آج کل عوامی مسلم لیگ نامی جماعت کے مالک ہیں اور پی ٹی آئی کے اتحادی۔ ہمیشہ خود کو جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر3اور 4کا بندہ قرار دیتے ہیں۔ جس کے ساتھ ہوں اسے ولی اور مخالف کو شیطان ثابت کرنے میں " ڈبل پی ایچ ڈی" ہیں۔
شیخ صاحب کی داستان بہت طویل ہے مختصر یہ کہ جس شخص کا نام تک اس کا اپنا نہ ہو وہ دوسروں پر "جملہ گیری" کرتا ہوا اچھا نہیں لگتا۔ کسی کو شک ہے تو گارڈن کالج راولپنڈی کا ریکارڈ دیکھ لے یا پھر ہمارے مہربان بزرگ سید علی جعفر زیدی کی کتاب"باہر جنگل اندر آگ" پڑھ لے۔ معاف کیجئے گا جناب شیخ کا قصہ کچھ زیادہ طویل ہوگیا ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔
پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کے قائدین کی ظہرانے پر ہوئی ملاقات کی وجہ سے ایک مجاہد صحافی کے منہ سے باقاعدہ "جھاگ" نکل رہی ہے۔ پچھلے کم از کم ایک سال سے پیپلزپارٹی کو کوسنے میں مصروف یوٹیوبرز کی حالت تو بہت پتلی ہے اکثر کو ڈاکٹرز نے ناقابل علاج قرار دے کر پیروں فقیروں سے رجوع کرانے کے لئے کہا ہے۔ سیٹھی صاحب کی چڑیا نے "عقد ثانی" کرلیا ہے باقیوں کے ہاں بھی دھول اڑ رہی ہے۔
اسی لئے تو کہتا رہتا ہوں کہ بطور صحافی پسندناپسند کفر ہے نازندیقیت بس توازن رکھنا ضروری ہے۔ ہمارے مجاہد صحافی نے لکھا"اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں "، ایک دل جلے نے نیچے تین سطروں میں داستانِ جہاد اور خدمات کا تذکرہ کردیا۔ صحافی ہتھے سے اکھڑ گیا۔ چلیں چھوڑیں یہ ان دونوں کا معاملہ ہے دونوں ایک دوسرے کو 32 برسوں سے تو جانتے ہی ہیں۔
سوشل میڈیا پر (ن) لیگ کے متوالے اور پیپلزپارٹی کے جیالے (اکثریت میں) بھی اس ملاقات کو لے کر ایسی ایسی کہانیاں لکھ رہے ہیں کہ اگر ان کے قائدین پڑھ لیں تو سیاست چھوڑ چھاڑ کر کوئی اور کام دھندہ شروع کرلیں۔ دونوں طرف سے یہ دعوے کئے جارہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل نہ ہوسکنے یا ڈیل کرنے کے لئے ایک دوسرے کا سہارا لیا جارہا ہے۔
ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ پی پی پی اور (ن) لیگ کے قائدین کی ملاقات کے بعد سوشل میڈیا پر "اَت" اٹھائے متوالے اور جیالے تربیت یافتہ سیاسی کارکن نہیں بلکہ ان میں سے اکثر صرف دوسرے سے نفرت کی بنیاد پر کسی ایک سیاسی جماعت کے حامی کے طور پر خود کو پیش کرتے ہیں اس لئے ایسے مجاہدین کی گولہ باری پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔
بات تو ان کی درست ہے کیونکہ سیاسی کارکن اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ سیاست میں مستقل دوستیاں اور دشمنیاں نہیں ہوتیں۔ اہم ترین مثال اے این پی اور پیپلزپارٹی کے قائدین میں ایک دوسرے کے لئے پایا جانے والا احترام اور سیاسی ہم آہنگی ہے۔ بھٹو صاحب کے دور میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگی اس پابندی کے ریفرنس کو اُس وقت کی سپریم کورٹ نے درست قرار دیا۔
نیپ والوں پر حیدر آباد سازش کیس کے عنوان سے بغاوت کا مقدمہ چلا۔ جنرل ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا۔ فوجی صدر کے حکم پر حیدر آباد سازش کیس کا مقدمہ ختم ہوا۔ خان عبدالولی خان نے پہلے احتساب پھر انتخابات کا موقف اپنایا۔ یہاں تک کہا گیا کہ "قبر ایک ہے اور بندے دو" مگر اگلے برسوں میں یہ بھی ہوا کہ جب جنرل حمید گل اسلامی جمہوری اتحاد بنوانے کے دنوں میں ولی باغ جاکر خان عبدالولی خان سے ملے اور اپنی پیشکش کے جواب میں انہیں جو جواب ملا وہ اس ملک کی سیاسی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہے۔
نیپ کی جگہ لینے والی اے این پی میں بلاشبہ آج بھی بھٹو صاحب کے لئے بازاری جملے استعمال کرنے والے موجود ہیں مگر اسی اے این پی کے تربیت یافتہ سیاسی کارکنوں کا انداز تکلم انہیں دوسروں سے ممتاز بھی بناتا ہے۔ (ن) لیگ کی یہ حقیقت بہرطور مسلمہ ہے کہ یہ جماعت بھٹو اور پیپلزپارٹی کی دشمنی پر قائم ہوئی۔ عشرے اسی نفرت بھری سیاست میں بیتائے اس جماعت نے اس لئے اس کے ہمدردوں اور مجاہدوں میں سیاسی کارکنوں کا سا رویہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ پیپلزپارٹی کا ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ نفرت کا جواب نفرت سے دے کر اپنے مورچے میں رونق برقرار رکھی جاسکتی ہے یا یہ کہ "توں توں میں میں " سے ہی سیاست کی گرما گرمی کا پتہ چلتا ہے۔
مکرر عرض ہے سیاست میں دوستیاں اور دشمنیاں مستقل نہیں ہوتیں لیکن بدقسمتی سے ایک دوسرے کے خلاف اڑائے گئے الزامات مستقل ہوتے ہیں مثال کے طور پر جھگڑے کی پراپرٹی کے کاروبار کی وجہ سے قتل ہونے والے شخص کو اگر مخصوص مفادات کے لئے نظریہ پاکستان کا مجاور اخبار شہید جمہوریت بناکر پیش کرے اور نصف صدی سے وہ "شہید جمہوریت" کہلائے تو بہت مشکل ہے کہ آپ اصل بات بتائیں اور لوگ غور کرنے پر آمادہ ہوں۔
بار دیگر معذرت ہم اپنے اصل موضوع سے پھر اِدھر اُدھر ہوگئے۔ اس میں ہم سے زیادہ فقیر راحموں کا قصور ہے جو اس تحریر کے لکھے جانے کے دوران وقفے وقفے سے "لقمے" دے رہا ہے۔ ویسے ہمیں ان پپلوں پر حیرانی ہوتی ہے جو زرداری اور بلاول کے جاتی امراء جانے کو جمہوریت کا حُسن قرار دیتے ہیں مگر سید یوسف رضا گیلانی کا بطور ضلع ناظم ملتان والا وہ اشتہار تلاش کرکے لے آتے ہیں جس میں ریفرنڈم کی حمایت کی گئی تھی۔
عین ممکن ہے کہ انہیں یہ معلوم ہو یا نہ ہو کہ جس شخص نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر ہارون مینشن کراچی صدر میں واقع اپنے دفتر میں مٹھائی تقسیم کی تھی وہ بعد میں پیپلزپارٹی کا وزیر قانون اور پارلیمانی امور بھی رہا تھا۔
کالم کے دامن میں گنجائش ختم ہوئی باقی باتیں پھر سہی۔