Kitab Beeni Ke Maah O Saal
کتاب بینی کے ماہ و سال
اخبار بینی دوسری جماعت کے دنوں سے شروع ہوئی۔ چوک خونی برج سے ٹی بی ہسپتال والی سڑک پر بائیں طرف تین چار دکانیں چھوڑ کر حاجی یار محمد کی دکان ہوا کرتی تھی۔ دودھ، دہی، سوہن حلوہ، فالودہ۔ دودھ دہی سال بھر اور فالودہ سوہن حلوہ موسم میں۔ حاجی چاچا کی دکان پر دو اخبار آتے تھے۔ میں انہیں اخباروں کی سرخیاں پڑھ کر سناتا۔ جو سرخی انہیں اچھی لگتی اس پر وہ کہتے "ہاں بھئی بی بی جی دے پوترآ اے خبر میکوں پڑھ تے سنڑا"۔ گرمیوں میں حاجی صاحب اس منشی گیری پر دہی کا پیالہ حق خدمت عنایت کرتے، سردیوں میں سوہن حلوہ کی دو ڈلیاں اور نصف کپ چائے ملتا۔
گھر میں بھی پڑھنے کا ماحول تھا۔ والدہ صاحبہ اپنے وقت کی بڑی عالمہ تھیں۔ فارغ اوقات میں ذکر میں مصروف رہتیں یا کچھ پڑھتیں۔ چوتھی جماعت میں گھر سے نکل کر کراچی میں آپا سیدہ فیروزہ خاتونؒ کی شفقت بھری آغوش میں پہنچے تو پڑھنے کے شوق میں مزید اضافہ ہوا۔ اس کی دو وجوہات تھیں اولاً یہ کہ گھر سے کچھ بننے کے لئے نکلے ہیں اب بن کر دیکھانا ہے۔ دوسری وجہ ہماری آپا جان تھیں۔ انہیں کتاب بینی کا بہت شوق تھا بیٹھک میں لائبریری بنارکھی تھی یہی لائبریری آپا کا ذریعہ آمدنی تھی۔
گھرمیں دو ہی فرد تھے آپا جان اور ہم۔ سکول سے واپسی ہوتی، کھانا، سکول کا کام، گھنٹہ بھر آرام کے بعد ہم اپنا خوانچہ سنبھالے دکانداری شروع کردیتے۔ آپا کا حکم تھا جونہی مغرب کی اذان سنو گھر کیلئے واپس چل دو۔ ہماری واپسی پر آپا جس ہمارے سکولوں کے کام کو دیکھتیں کہیں کچھ غلط لکھ دیا ہوتا تو اصلاح کرتیں۔ کھانے کے بعد ہمیں اپنی پسند کے بچوں کے رسائل مل جاتے کچھ دیر مطالعہ، پھر آپا سے باتیں، چھٹی جماعت میں پہنچے تو حکم ہوا "راجی میاں اب کل سے خوانچہ لگانے کی بجائے لائبریری پر بیٹھو گے"۔
لیجئے اب ہم سپہر پانچ بجے سے شب 8بجے تک تین گھنٹے لائبریری پر بیٹھنے لگے۔ کرائے پر کتابیں، رسالے وغیرہ دینے واپس آنے والی کتابوں اور رسالوں کو اسی ترتیب کے ساتھ رکھنے کی ذمہ داری تھی۔ ان تین گھنٹوں میں ہمیں کتابوں کے اوراق الٹنے دیکھنے کیلئے وقت مل جاتا اس سے لازمی فائدہ اٹھاتے۔ اسی لائبریری میں ہم ابن صفی سے متعارف ہوئے۔ عمران سیریز، کرنل آفریدی والے جاسوسی ناول خوب پڑھے۔ خواتین کے رسالوں میں سے ٹوٹکوں سے دلچسپی رہی۔ بچوں کے رسالے پڑھنے کی آزادی تھی۔
اسی دوران کراچی کے ایک مقامی اخبار "اعلان" کے بچوں کے صفحے کے لئے کہانیاں لکھنا شروع کردیں۔ قسمت اچھی تھی پہلی کہانی بعنوان "محنت کش بچے" شائع ہوگئی۔ کہانیوں کے انعامی مقابلے میں شرکت ضرور کرتے ایک بار اخبار والوں نے 5روپے منی آرڈر کے ذریعے بھجوائے اس انعام پر آپا بہت خوش ہوئیں۔ اب انہوں نے پہلے سے بڑھ کر اپنے لاڈلے پر توجہ دینا شروع کردی۔ کوئی ناول، تاریخی کتب یا کسی دوسری کتاب میں سے کچھ پڑھ کر سنانے کا حکم دیتیں۔ ہم پڑھتے درمیان میں اصلاح کرتی رہتیں۔
انہی دنوں ہم قرۃ العین حیدر، سعادت حسن منٹو، شورش کاشمیری سے ان کی کتابوں کی معرفت متعارف ہوئے۔ یہ کتاب دوستی کا آغاز بھی تھا اور ہمارے لکھنے پڑھنے کی شروعات بھی۔ پچھلی نصف صدی سے کچھ اوپر کے عرصہ میں بساط اور ظرف کے مطابق جو پڑھ سکتے تھے وہ پڑھا۔ آپا جان کی محبت، تربیت اور شفقت سے ملی کتاب دوستی زندگی کا حصہ ہے۔ ایک بات ہم نے اپنی آپا کی ہمیشہ گرہ سے باندھ کر رکھی کہ جو دستیاب ہو وہ پڑھ لو۔ رائے تقابلی مطالعے کے بعد بنائو پہلے اس پر خود غور کرو اور پھر رائے کا اظہار۔
یوں ہم نے سیدی ناصر مکارم شیرازی، ابوالکلام آزاد، سید سبط حسن، شوکت صدیقی، سعادت حسن منٹو، قرۃ العین حیدر، واجدہ تبسم کو پڑھا اور خوب، عصمت چغتائی، فیض و قاسمی، غالب و اقبال، جو دستیاب ہوسکا پڑھا ضرور۔ ذاتی طور پر ہمیں سوانح عمریاں بہت پسند ہیں آج بھی کتاب خریدنے جاوں تو پہلی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی سوانح عمری مل جائے۔ عصری موضوعات کے ساتھ دیگر کتب بھی پڑھتا رہتا ہوں۔ حسین بن منصور حلاج، سرمد اور حافظ شیرازی نے بہت متاثر کیا۔ شاہ لطیف بھٹائیؒ، سیدی بلھے شاہؒ، شاہ حسینؒ اور خواجہ غلام فریدؒ محبوب ہوئے۔
دو طرح کا مطالعہ اب زندگی ک حصہ ہے ایک روزی روٹی کے لئے حرف جوڑنے میں معاون بننے والا اور دوسرا جہالت کے اندھیروں میں گم ہونے سے محفوظ رکھنے والا۔ میں آخری سانس تک اپنی آپا جان کا ممنون و مشکور رہوں گا کہ انہوں نے میری تربیت کی اور مقصدِ زندگی سے روشناس کروایا۔ پچھلے چالیس پنتالیس برسوں کے دوران جرائد و اخبارات میں ادارتی شعبہ کے مختلف منصبوں پر خدمات سرانجام دیں۔ بنیادی شناخت اداریہ نویس کی ہے کالم اپنے شوق سے لکھتا ہوں۔
ان دونوں کاموں کی خوراک مطالعہ ہے اس کا سلسلہ جاری ہے۔ جب کوئی نوجوان دریافت کرے کہ زندگی کے معاملات سے بچے وقت میں کیا کیا جائے تو عرض کرتا ہوں مطالعہ کیجئے۔ مطالعہ ہی آپ میں وسعت قلبی پیدا کرے گا ورنہ لکیر کے فقیر بنے سفر حیات طے کرتے رہیں گے آپ کے عصر کو دولے شاہ کے چوہوں کی نہیں ارتقا پر یقین رکھنے والوں کی ضرورت ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کچھ نہ کچھ پڑھتے ضرور رہیں تاکہ دوسروں کی آراء میں جینے کی بجائے خود عصری شعور کے ساتھ اپنی رائے دے سکیں۔