Khwabon Ki Tijarat
خوابوں کی تجارت
کڑوا سچ یہ ہے کہ ہماری افغان پالیسی "مرے تھے جن کے لئے وہ رہے وضو کرتے" کے مصداق ہی رہی۔ ہم سوویت امریکہ جنگ میں خم ٹھونک کر فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر میدان جنگ میں اترے۔ دنیا بھر کے جہادی سی آئی اے کے جہازوں میں بھر کر لائے گئے اور جہاد کی "بلے بلے" ہوگئی۔ جنرل ضیاء الحق کے اقتدار کو طول دینے کا اس سے سنہری موقع مل ہی نہیں سکتا تھا۔ ہم تورخم بارڈر پر اہل کتاب کے اجتماعات میں نعرہ تکبیر پر جھومتے رہے۔
افغان پالیسی کے دونوں ادوار (ضیاء اور مشرف) نے ہمیں کیا دیا اس پر گفتگو کرنے اور مکالمہ اٹھانے کی بجائے زود رنجی کا شکار ہیں۔ نیلے آسمان کے نیچے یہ بھی ہوا کہ مجاہدین راتوں رات دہشت گرد قرار پائے ہم نے ان دہشت گردوں کے "کھنے سیکے" اور انہوں نے جواب میں اَت اٹھائی جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ لگ بھگ ڈیڑھ دو برس قبل ہمارے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 40سالہ افغان پالیسی کو نادرست قرار دیتے ہوئے اپنے ملکی مفادات میں اس پالیسی کا ازسرنو جائزہ لینے اور بدلتے ہوئے حالات میں حکمت عملی وضع کرنے کی کھلی کھلی باتیں کرڈالیں۔ تالیوں کا شور آسمان کو چھورہا تھا گاہے اب بھی اس بیان کا حوالہ دیا جاتا ہے۔
اصولی طور پر یہ حوالہ درست ہے کیونکہ افغان پالیسی ہی نہیں پوری کی پوری خارجہ پالیسی "تیار" ہوکر آتی ہے۔ دفتر خارجہ کے دفتری بابو اس سے ذمہ داریوں کا رزق اٹھاتے ہیں۔ یہ سلسلہ کب تک یونہی چلتا رہے گا؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس ہے تو وہ "لالہ جی" ہیں کیونکہ اصل طاقت وہی ہیں۔ ہمارے محبوب وزیراعظم نے چند دن اُدھر تواتر کے ساتھ کہا ہم امریکہ کو اڈے نہیں دیں گے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوا کہ کیا امریکیوں نے اڈے مانگے تھے؟ ضمنی سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی اس پوزیشن میں ہیں کہ امریکیوں کو انکار کرسکتے یا کردیا؟
غور طلب امر یہ ہے کہ جس وزیراعظم کے کہنے پر بلوچستان کا گورنر مستعفی نہیں ہوتا کیا وہ امریکہ کو اڈے دینے سے انکار کرسکتا ہے؟ فقیر راحموں کہتے ہیں کامریڈ چنگچی گویڑا کے بعد یہ ایک اور فخریہ پیشکش کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔ امریکیوں نے فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں مانگی بلکہ کہا "2001ء کے انتظام (یہ انتظام یا اجازت 9/11کے بعد امریکہ کو دی گئی) کے تحت ہم فضائی حدود استعمال کریں گے۔ دفتر خارجہ نے اس کی تصدیق کی۔ بس اتنی سی بات تھی۔
وزیراعظم نے وہ سب کیوں کہا جو ان کے اختیار میں ہی نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ "جی کے بہلانے کیلئے غالب یہ خیال اچھا ہے" چلیں ان اطلاعات سے جی بہلالیجئے کہ پاکستان، امریکہ طالبان قطر معاہدہ میں بڑا معاون تھا (یاد رکھئے میں سہولت کار نہیں لکھ رہا جبکہ امریکی یہی کہتے رہے) لیکن امریکیوں نے معاہدہ کی شرائط و تفصیلات پر اسلام آباد کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ وجہ وہی ہے واشنگٹن کا سرکاری موقف یہ ہے کہ"پاکستان ہمارے ساتھ ہے اور نہیں بھی"۔
غالباً اس لئے وزیراعظم نے چند دن قبل کہا تھا کہ "امریکی ہماری قربانیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے ہم پر الزامات لگاتے ہیں "۔
وزیراعظم کے الفاظ میں (دوغلی پالیسی کا الزام) امریکیوں نے دوغلی پالیسی کا الزام پہلی بار سال 2002ء کے عام انتخابات میں خصوصی انتظام کے ذریعے ایم ایم اے کو خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے کامیاب کروائے جانے کے بعد لگایا تھا۔ امریکہ کا موقف تھا جنرل مشرف کی حکومت انسداد دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے ساتھ کھڑی ہے لیکن ان کے ماتحت اداروں نے افغان طالبان کے فطری اتحادی مذہبی سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل کے امیدواروں کی انتخابی مہم چلائی۔ اپنے الزام کے ثبوت میں امریکی تصاویر اور ویڈیوز پیش کرتے تھے۔
واشنگٹن اب بھی یہی سمجھتا ہے کہ پاکستان کی افغان پالیسی جنرل مشرف والی ہی ہے۔ "امریکہ کے اتحادی بھی ہیں اور طالبان کے معاون و مددگار بھی"۔ ضروری نہیں ہم اس الزام کو درست مان لیں۔ بہرطور یہ امریکہ کا موقف ہے۔ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ برطانوی اخبار "گارجین" نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ"امریکہ کا افغانستان سے آناً فاناً انخلا غیریقینی صورتحال میں پسپائی کے مترادف ہے۔ جوبائیڈن انتظامیہ کے فیصلے نے پاکستان کے لئے سوالات تو پیدا کئے ہی ہیں خدشات بھی کھڑے کردیئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے واشنگٹن اور اسلام آباد میں اعتماد کا فقدان ہے"۔
برطانوی ذرائع ابلاغ کا بڑا حصہ یہ تاثر دے رہا ہے کہ افغان حکومت انخلا کا عمل مکمل ہونے کے بعد مشکل سے 6ہفتے چل پائے گی۔ یہ تاثر اس پروپیگنڈہ مہم کا حصہ ہے جس پر افغانستان کے غیرپشتون نسلی گروپ مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ "ہمارے پڑوسی اور بڑی طاقتیں مخصوص مقاصد کیلئے طالبان کی کامیابیوں کی داستانیں پھیلارہے ہیں۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے ایک حصہ میں افغانستان میں ترکی کے کردار پر بھی تھوڑا بہت لکھا جارہا ہے۔ اسلام آباد میں یہ تاثر کہ ہم ترکی کے ساتھ مل کر افغان عمل میں شریک ہوں گے، جس سوال کو نظرانداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ترکی افغانستان میں اپنے کردار کے لئے بھارت کے مقابلہ میں پاکستان کو ترجیح دے گا؟
یہ سوال یکسر نظرانداز کئے جانے والا نہیں اس کے پس منظر میں بہت کچھ ہے۔ سوشل میڈیا پر خلیفہ اردگان کی جعلی پوسٹوں سے جی بہلانے والے تو یہ بھی تسلیم نہیں کرتے کہ ترکی اور اسرائیل میں سفارتی روابط بھی ہیں اور سالانہ 4ارب ڈالر سے زائد کی تجارت بھی۔ یہاں ایک دلچسپ بات عرض کردوں منگل کے روز بدخشاں میں افغان سکیورٹی فورسز نے طالبان کو آڑے ہاتھوں لیا لیکن ہمارے ذرائع ابلاغ کو یہ سب دیکھائی نہیں دے رہا۔
چلیں اس امر پر غور کریں کہ کمانڈر اسماعیل خان (صوبہ ہرات کے گورنر ہیں) کے نمائندوں نے پچھلے ایک ہفتہ کے دوران، احمد شاہ مسعود کے صاحبزادے کے علاوہ، رشید دوستم اور شیعہ ہزارہ قبیلے کے عمائدین سے ملاقاتیں کی ہیں۔ یہ ملاقاتیں ظاہر ہے بلاوجہ تو نہیں ہوئی ہوں گی۔ عظمت مجددی کہتے ہیں، افغان آرمی کی مدد کے لئے طالبان مخالف قوتوں کا اتحاد بنانے کی کوششیں ہورہی ہیں ان کوششوں کو روسی حمایت حاصل ہے۔
یہاں اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا بدلتے ہوئے حالات میں روس اور چین الگ الگ افغان پالیسی اپنائیں گے؟