Khwabon Aur Wadon Ki Tijarat
خوابوں اور وعدوں کی تجارت
پتہ نہیں ہمارے ہاں خوابوں کی تجارت کا کاروبار ہمیشہ کامیاب کیوں رہا فقیر راحموں کے بقول"چیز وہی بکتی ہے جس کے خریدار ہوں جب لوگ تعبیروں کے حصول کی جدوجید کی بجائے خواب دیکھنا ہی پسند کرتے ہوں تو خواب ہی فروخت ہوں گے"، ویسے ہمارے ہاں صرف سیاسی جمہوری معاشی خواب ہی فروخت نہیں ہوتے کچھ اور اقسام کے خوابوں کی تجارت بھی تاجروں کی نسلیں سنوار دیتی ہے لیکن خریدار، ان کی بات رہنے دیجئے یہ پچھلے خواب چوری ہونے پر پیٹ کاٹ کر نیا خواب خرید لیتے ہیں۔
ایسے خریداروں کی بدولت ہی ہر طرف اور ہروقت رونق لگی رہتی ہے خیر چھوڑئیے یہ ہم نے کیا قصہ شروع کردیا لوگ بنا تعبیر کے خوابوں میں خوش ہیں تو ہمیں یا آپ کو کیا، ہمارے ایک مرحوم استاد قبلہ مگسی صاحب کہا کرتے تھے تعبیروں کے لئے جدوجہد نہ کرنے والوں سے جگالی میں مصروف رہنے والے جانور اچھے ہیں اللہ بخشے کیا خوب شخصیت تھے مگسی صاحب ان جیسے اساتذہ کی بدولت ہی طالبعلم سفر حیات کے مشکل لمحوں میں اپنے حصے کی بات کہہ پاتا رہا۔
خیر ان دنوں ہمارے ہاں تبدیلی کے خواب کی تجارت جاری ہے سوا تین برسوں میں کتنی تبدیلی آئی اس کا اندازہ اس بات سے کر لیجے کہ گزشتہ روز جناب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ "ملک بھر میں شروع کئے جانے والے احساس راشن پروگرام سے غربت میں کمی ہوگی، پسماندہ علاقوں کی ترقی ہمارا مشن ہے، معاشرے کی خوشحالی کا اندازہ نچلے طبقات کے رہن سہن کو دیکھ کر ہی لگایا جاسکتا ہے "
وزیراعظم نے اپنے اس موقف کو پھر دہرایا کہ مہنگائی کا ساری دنیا کو سامنا ہے۔ مزید کہا کہ وہ وقت بھی آئے گا جب لوگ روزگار ڈھونڈنے پاکستان آئیں گے۔ ان کے بقول وہ حیران ہوتے ہیں کہ اس ملک میں نعمتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں سیاحت کو فروغ دے کر سالانہ30سے 40 ارب ڈالر حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
دورز قبل گلگت کے سکردو انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور ایک شاہراہ کے افتتاح کے موقع پر منعقدہ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے جن خیالات کا اظہار کیا ان کے حوالے سے یہ سوال اہم ہے کہ احساس راشن پروگرام پر عمل سے غربت کیسے کم ہوگی؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ چند دن قل وہ ایک تقریب میں کہہ رہے تھے کہ راشن پروگرام کے تحت 50ہزار روپے سے کم تنخواہ لینے والوں کی مدد کی جائے گی۔ اب اگر ان دونوں باتوں کو ملاکر دیکھا جائے تو یہ واضح ہوجاتاہے کہ آسمان کو چھوتی مہنگائی نے ملازمت پیشہ سفید پوش طبقات کا بھی جینا دوبھر کردیا ہے اور وہ اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کیلئے دن بدن زیرِ بار ہوتے جارہے ہیں۔
اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ احساس راشن پروگرام عبوری ریلیف ہے۔ عبوری ریلیف سے غربت میں کمی معجزہ ہی ہوگی۔ غربت میں کمی کا صرف ایک طریقہ ہے وہ کاٹیج انڈسٹری کا فروغ جو کبھی بھی کسی حکومت کی ترجیح نہیں رہا۔ ہر حکومت کسی نہ کسی نام سے عبوری ریلیف پروگرام دیتی رہی ہے یہی اس کے نزدیک اس کی سیاسی زندگی کے دوام میں مددگار ہوتا ہے۔ جبکہ غربت کے خاتمے کے لئے طویل المدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ہم سبھی کو چونکہ شارٹ کٹ پسند ہے اس لیئے ہماری حکمران اشرافیہ شارٹ کٹ کے خواب بیچتی رہتی ہے۔
اسی طرح مہنگائی کا معاملہ ہے۔ حکومت کے اس ضمن میں دو موقف ہیں اولاً یہ کہ یہ عالمی مسئلہ ہے ثانیاً مہنگائی کیوجہ ذخیرہ اندوزی، منافع خوری اور سمگلنگ ہے۔ اصولی طور پر پوچھا تو یہ جانا چاہیے کہ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے ذخیرہ اندوزی، منافع خوری اور سمگلنگ کے خاتمے کے لئے پچھلے سوا تین سال میں کیا اقدامات اٹھائے؟
جہاں تک گلگت بلتستان میں فروغ سیاحت کے ذریعے بھاری زرمبادلہ کمانے کی بات ہے یہ بھی انہوں نے پہلی مرتبہ نہیں کی بلکہ اقتدار میں آنے سے قبل بھی وہ سیاحت کے فروغ پر زور دیتے رہے ہیں لیکن کیا سیاحت کے لئے ہمارے ہاں کا ماحول سازگار ہے اور یہ بھی کہ ان کی حکومت نے اب تک اس حوالے سے کیا حکمت عملی اپنائی؟
ہم اگر غور کریں تو وزیراعظم تواتر کے ساتھ یہ کہتے دیکھائی دیتے آرہے ہیں کہ غربت کا خاتمہ اور پسماندہ علاقوں کو ترقی دینا ہمارا مشن ہے۔ کیا بہت ادب کے ساتھ یہ دریافت کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ حکومت کے سوا تین سال کے اب تک کے عرصہ میں پسماندہ علاقوں میں کتنے ترقیاتی منصوبے مکمل ہوئے اور غربت میں کتنی کمی ہوئی؟
دوسری طرف ہمارے چار اور صورتحال یہ ہے کہ یوٹیلٹی بلز میں ہونے والے مسلسل اضافے نے لوگوں کی زندگی اجیرن بنارکھی ہے۔ ابھی کل ہی وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 3سو سے 7سو یونٹ بجلی ماہانہ استعمال کرنے والوں پر "بجلی گراتے" ہوئے فی یونٹ قیمت میں 95پیسے اضافہ کرنے کی منظوری دی ہے، جبکہ چند دن قبل اکتوبر کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام پر فی یونٹ 4روپے 75پیسے اضافہ کیا گیا جو صارفین سے دسمبر کے بلوں میں وصول کیا جائے گا۔
غور طلب امر یہ ہے کہ کیا وزیراعظم نہیں سمجھتے کہ بجلی، گیس اور پٹرولیم کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے بھی مہنگائی بڑھتی ہے نیز یہ کہ اکتوبر کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز صارفین سے وصول کرتے وقت یہ امر مدنظر رکھنے کی ضرورت کیوں محسوس نہ کی گئی کہ عالمی منڈی میں تیل کی فی بیرل قیمت 88ڈالر 64 ڈالر کی سطح پر آجانے کے بعد پٹرولیم اور بجلی کے صارفین بھی ریلیف کے حقدار تھے۔
چند دن قبل پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جو کمی کی گئی وہ اضافی قیمت میں کمی ہے حکومت چاہتی تو صارفین کو دس سے بارہ روپے کا ریلیف دے سکتی تھی، باردیگر ادب سے یہ عرض کروں کہ اہل اقتدار کو یہ سمجھنا ہوگا کہ صرف تقاریر سے لوگوں کے حالات نہیں بدلتے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدہ پر عمل کی صورت میں حکومت کو ترقیاتی بجٹ میں لگ بھگ 200 ارب کی کمی کرنا ہوگی۔
اس طور یہ کہا جائے کہ منی بجٹ اصل میں مزید 360ارب روپے کی وصولی کا پروگرام ہے تو یہ غلط نہ ہوگا اس میں بھی 140 اشیاء پر 17فیصد سیلز ٹیکس کے نفاذ کی تجویز ہے۔ اسی طرح غیرترقیاتی بجٹ میں بھی 20ارب روپے کی کٹوتی کی جانی ہے۔ آئی ایم ایف کی ہدایت پر ایک طرف ترقیاتی و غیر ترقیاتی مدوں سے حکومت 220ارب روپے کی کٹوتی کرے گی اور دوسری جانب 360ارب کے نئے ٹیکس لگائے گی لیکن اس کے باوجود یہ دعویٰ ہے کہ حکومت ملک میں غربت ختم کرنے اور پسماندہ علاقوں میں تعمیروترقی کے اہداف کے حصول کو اپنا مشن سمجھتی ہے؟
مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ وعدے اور دلکش اعلانات سنتے سنتے سوا تین سال گزرگئے، مالیاتی شعبہ سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم کے اپنے بعض دوست معاشی حوالے سے مختلف کہانیاں بیان کررہے ہیں۔ ملکی ترقی کمزور طبقات اور پسماندہ علاقوں کے لئے دردمندی کا اظہار اپنی جگہ لیکن صرف دردمندی سے مسائل حل ہوتے ہیں نہ ان کی سنگینی میں کمی آتی ہے۔
ان حالات میں اگر شہریوں کا ایک بڑا طبقہ یہ سوال کرتاہے کہ افغانستان میں انسانی المیہ پر دنیا کو متوجہ کرتی حکومت اپنے شہریوں کی حالت زار کو دیکھنے کی زحمت کیوں نہیں کرتی تو اس کا برا منانے کی بجائے ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو اصلاح احوال کا ذریعہ بن سکیں۔
حرف آخر یہ ہے کہ معاشی طور پر ہم ایک بند گلی میں پھنس چکے ہیں بہتر یہی ہوگا کے عوام کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ وہ بھی خوابوں اور وعدوں کی دنیا سے باہر نکل کر حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے خود کو تیار کریں۔