Fuji Aamir General Pervez Musharraf, Hero Ya Villain?
فوجی آمر جنرل پرویز مشرف، ہیرو یا ولن؟
چوتھے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف 11اگست 1943ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ 5فروری 2023 کو دبئی کے امریکی ہسپتال میں طویل علالت کے بعد چل بسے۔ روایتی مسلم متھ کے مطابق ان کامعاملہ اب رب العالمین کے ساتھ ہے۔ کچھ غم زدہ یہ بھی بتارہے ہیں کہ مرنے والے کے لئے دعائے مغفرت کی جانی چاہیے اس کے کجوں کا تذکرہ نہ کیا جائے۔
اس طرح کی سہولت کسی بھی مرحوم کے غم زدگان لیتے دیتے رہتے ہیں جیسے تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کو ایک طبقہ مرد مرمن و مرد حق قرار دیتا ہے حالانکہ ان کی گردن پر بلیک ستمبر میں مارے گئے سینکڑوں فلسطینی مردوزن کا خون بھی ہے۔
جنرل پرویز مشرف معروف چھائونی بوائے چودھری نثار علی خان کے بھائی سیکرٹری دفاع جنرل (ر) افتخار علی خان کی سفارش پر آرمی چیف بنائے گئے۔ مشرف افتخار علی خان کے ذاتی دوست تھے۔ انہوں نے 12اکتوبر 1999ء کو نوازشریف حکومت کا تختہ الٹواکر اقتدار پر قبضہ کیا۔
جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی سازشی کھچڑی کئی ماہ سے پک رہی تھی۔ آرمی چیف بنائے گئے تو پرنٹ میڈیا نے صفحہ اول پر فضائل و کرامات کی "بہار" لگادی۔ وہ کارگل ایڈونچر کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ پھر ساری فوجی قیادت وزیراعظم نوازشریف کے پاس پہنچی ان سے درخواست کی کہ معاملہ رفع دفع کرنے کے لئے امریکہ سے بات کی جائے۔
وزیراعظم امریکہ گئے اور منت ترلے سے امریکی قیادت کو آمادہ کیا کہ بھارت اور پاکستان میں کشیدگی کم کرائی جائے۔ کارگل سے پہلے بھی مشرف بھارتی وزیراعظم واجبپائی کو سلیوٹ نہ کرنے پر "شہرت" سمیٹ چکے تھے۔ کہا جاتا ہے (یاد رہے کہ ہماری تاریخ۔ آواز آتی ہے کہا جاتا ہے اور راوی کہتا ہے سے عبارت ہے) کہ بھارتی وزیراعظم واجپائی کے دورہ لاہور کے موقع پر جماعت اسلامی کا احتجاجی شو جنرل پرویز مشرف کے "ساتھیوں" کے تعاون سے منظم کیا گیا تھا۔
دو پڑوسی ملکوں کے مابین سیاسی فضا سازگار بنانے کے خلاف لاہور میں ہوا احتجاج بھی ایک طرح کا ایڈونچر تھا۔ جی ایچ کیو نے منتخب حکومت کو "عملی پیغام" بھجوایا کہ بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کی سیاسی پالیسی سے اتفاق نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں پھر ایک عالمی کانفرنس میں یہی جنرل پرویز مشرف اپنی نشست سے اٹھ کر بھارتی وزیراعظم واجپائی کے پاس گئے سلام کیا ہاتھ ملایا۔
پرویز مشرف کے کارگل ایڈونچر سے پاکستان کو کیا حاصل وصول ہوا یہ ایک الگ المناک داستان ہے۔ انہوں نے 2بار آئین معطل کیا۔ 12اکتوبر 1999ء کو حکومت کا تختہ الٹے جانے کے وقت وہ سری لنکا سے وطن واپس آرہے تھے اسی روز وزیراعظم نوازشریف نے جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف نامزد کیا تھا، بری فوج کے سینئرز نے وزیراعظم کے اس قانونی فیصلے پر سرتسلیم خم کرنے کی بجائے بغاوت کردی۔
بتایا جاتا ہے کہ مشرف سری لنکا جانے سے پہلے وزیراعظم نوازشریف سے ملے اس ملاقات میں جنرل افتخار علی خان (سیکرٹری دفاع) پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف اور وفاقی وزیر چودھری نثار علی خان موجود تھے۔ ملاقات میں"خوب" گلے شکوے ہوئے۔
وزیراعظم کہہ رہے تھے کہ مجھے خبریں مل رہی ہیں کہ منتخب حکومت کو رخصت کرنے کی باتیں ہورہی ہیں میڈیا میں موجود فوج اور جہاد کے حامی کہہ رہے ہیں کہ کارگل کی جنگ سرینگر فتح کرنے سے نصف گھنے کی دوری پر تھی لیکن سول حکومت پیٹھ دکھاگئی۔ حکومت کی بزدلی کی وجہ سے سینکڑوں قربانیاں رائیگاں گئیں۔
جنرل مشرف کا کہنا تھا کہ حکومت بری فوج کی قیادت تبدیلی کی تیاریوں میں ہے ضیاء الدین بٹ کو آئی ایس آئی کا سربراہ لگاتے وقت بھی ان سے رائے نہیں لی گئی۔ دوطرفہ گلے شکوے ہوئے ایک دوسرے کو امیدیں دلوائی گئیں مگر اس ملاقات کا نتیجہ 12اکتوبر 1999ء کو برآمد ہوا۔
جنرل پرویز مشرف ملک کے چیف ایگزیکٹو بن گئے۔ پی سی او آگیا، نواز شریف کے خلاف طیارہ اغوا کرنے کا کیس بن گیا۔ مشرف کے خلاف نوابزادہ نصراللہ خان کی کوششوں سے اے آر ڈی نامی سیاسی اتحاد بنا پچھلے دس گیارہ برسوں سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) سیاسی اتحادی بن گئے۔
ہوائی جہاز کے اغوا والے کیس میں نواز شریف کو سزا ہوئی۔ دسمبر 2000ء میں نوازشریف امریکہ سعودی عرب اور قطر کی مشرکہ کوششوں سے دس سال کے معاہدہ جلاوطنی پر خاندان سمیت ملک چھوڑ گئے۔ پھر چوتھے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے تیسرے فوجی آمر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک عدد ریفرنڈم کروایا اور پانچ سال کے لئے صدر بن بیٹھے۔
نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر ظفر علی شاہ کی رٹ درخواست کے فیصلے میں اور بھی بہت کچھ لکھا ہے لیکن اہم ترین یہ کہ اس فیصلے میں جنرل مشرف کو آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار "عطا" کردیا گیا۔ ریفرنڈم کے ذریعے صدر بن جانے کے بعد انہوں نے خود کو ایک لبرل شخص کے طور پر پیش کیا۔ آئی ایس پی آر کے وفادار و زیربار صحافیوں نے ان کا امیج بنایا وہ جناح صاحب کے بعد دوسرے آزاد خیال سربراہ قرار دیئے جانے لگے۔
2002ء میں انہوں نے عام انتخابات کروائے اس سے قبل جنرل سید تنویر نقوی نیا بلدیاتی اور احتساب کا نظام دے چکے تھے۔ نوازشریف کے باغیوں کی مسلم لیگ ہم خیال اب پاکستان مسلم لیگ قائداعظم بن گئی۔ فاروق لغاری کی ملت پارٹی ق لیگ کے تالاب میں پھینک دی گئی۔
لاکھ کوششوں اور ملاملٹری الائنس (ایم ایم اے متحدہ مجلس عمل) بنوانے کے باوجود مرادیں پوری طرح بھر نہ آئیں۔ پیپلزپارٹی میں سے محب وطن تلاش کئے گئے۔ سرور روڈ لاہور کینٹ کے تھانے میں مخدوم سید فیصل صالح حیات کی تذلیل نے انہیں توڑدیا اور وہ رائو سکندر اقبال کی پیپلزپارٹی پیٹریاٹ میں چلے گئے۔
تین پی والی پیپلزپارٹی سے چار پی والی پیپلزپارٹی برآمد ہوئی۔ ڈاکٹر شیر افگن صرف اس لئے محب وطن ہوگئے کہ انہیں شکوہ تھا محترمہ بینظیر بھٹو نے ان سے تعزیت نہیں کی۔ ہر محب وطن کا اپنا اپنا شکوہ تھا۔
یوں اعظم طارق کے ووٹ کو ملاکر میر جبل خان ظفر اللہ جمالی پاکستان کے وزیراعظم بن گئے (یاد رہے جمالی جب وزیراعظم بنے تو وہ ایک مقدمے میں مفرور تھے)۔ ایم ایم اے کے امیدوار مولانا فضل الرحمن تھے اور پیپلزپارٹی کے "فاضل رکن ملتان" مخدوم شاہ محمود قریشی۔
وزیراعظم کے انتخابات کے پارلیمانی عمل میں تحریک انصاف کے واحد رکن قومی اسمبلی عمران خان نے ملا ملٹری الائنس کے امیدوار مولانا فضل الرحمن کو ووٹ دیا۔ پرویز مشرف 9/11سے قبل پاکستان کی مذہبی جماعتوں میں کشمیری جہاد کے گارڈ فادر سمجھے جاتے تھے۔ 9/11 کے بعد وہ ایک دوسرے درجہ کے امریکی افسر (نائب وزیر خارجہ) کے ٹیلیفون پر ڈھیر ہوگئے۔
پاکستان افغانستان کی طالبان حکومت کے خلاف امریکی اتحاد میں شامل ہوگیا۔ ان کے دور میں متعدد فرقہ پسند مذہبی جماعتوں اور ان کے جرائد اور لشکروں پر پابندی لگی۔ انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ایٹمی فارمولوں کے عالمی "سوداگر" کے طور پر پیش کیا۔
ان کے حکم پر لال مسجد آپریشن ہوا۔ آپریشن سے ایک شب قبل کہاں ہے حکومت کہاں ہے قانون چیخنے والے آپریشن شروع ہوتے ہی انسانی حقوق کے علمبردار بن گئے۔ لال مسجد آپریشن کے بعد پروپیگنڈے کی وہ خاک اڑائی گئی کہ دہشت گرد معصوم اور ریاست مجرم بن گئی۔
ان پر کئی بار قاتلانہ حملے بھی ہوئے۔ اپنے تئیں عقل کل کمانڈو صدر نے اپنے ہی نائب اشفاق پرویز کیانی اور امریکی سفارتکاروں کے بچھائے جال میں پھنس کر سپریم کورٹ کے پی سی او چیف جسٹس افتخار چودھری کو معطل کردیا اس پر وکلاء کی تحریک چلی سیاسی جماعتیں صرف مشرف کی نفرت میں اس تحریک کو افرادی قوت اور وسائل فراہم کرنے لگیں۔
اکبر بگٹی ان کے دور میں قتل ہوئے۔ بینظیر بھٹو نے اپنے قتل سے قبل امریکی صحافی مارک سیگل کو جوای میل بھیجی اس میں اپنے قتل کا ذمہ دار جن لوگوں کو ٹھہرایا اس میں مشرف بھی شامل تھے۔
مشرف بینظیر این آر او آج بھی بڑی پھبتی اور گالی ہے۔ اس این آر او کا سب سے زیادہ فائدہ ایم کیو ایم کو ہوا۔ سپریم کورٹ اور خود پارلیمنٹ نے اس پر جو کہا وہ ریکارڈ پر ہے کسی مرحلہ پر ایم کیو ایم کے این آر او فیض یافتگان کے خلاف کارروائی نہ ہوئی۔
ان کے دور میں ہی قبائلی علاقوں میں مقیم ان جہادی گروپوں کے خلاف کارروائی شروع ہوئی جو ماضی میں افغانستان سے لاکر یہاں بسائے گئے تھے۔ ان سابق جہادیوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں بنالی تھیں۔ جزا و سزا کے اپنے قانون اور جیلیں بھی۔ اپنی کتاب "سب سے پہلے پاکستان" میں انہوں نے ڈالروں کے عوض امریکہ کو مطلوب جہادیوں کی حوالگی کا اعتراف کیا۔
سپریم کورٹ کے حکم پر ان کے خلاف لال مسجد کا مقدمہ درج ہوا۔ یہ مقدمہ درحقیقت افتخار چودھری کی ان سے نفرت کا "پھل" تھا۔ وہ نواب اکبر بگٹی اور محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث قرار دیئے گئے۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل نے بلوچستان میں جو آگ لگوائی اس کے شعلے آج آسمان کو چھورہے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنے حامیوں کے ذریعے اس بات کو آگے بڑھوایا کہ بینظیر بھٹو کے قتل میں آصف زرداری ملوث ہے۔ ان (پرویز مشرف) کے حکم پر بینظیر بھٹو کے قتل والی جگہ کو دھویا گیا یہاں تک کہ درختوں اور قریبی عمارتوں کی دیواروں تک کو فائر بریگیڈ کی گاڑیوں سے پھینکے گئے پانی سے دھودیا گیا۔
بتایا گیا کہ پانی کا استعمال جائے وقوعہ سے کسی کیمیکل کے اثرات مٹانے کے لئے تھا۔ سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی اس فیصلے کے بعض پیراگراف انصاف سے زیادہ طالبانی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ لاشوں کو پھانسی چڑھانا طالبان کی سنت ہے سوات میں طالبان نے مردوں کو قبروں سے نکال کر پھانسیاں دی تھیں۔
مشرف 12مئی 2007ء کی شام اسلام آباد میں مکے لہراتے ہوئے کہہ رہے تھے "دیکھی میری طاقت"۔ 5فروری کو دبئی کے امریکی ہسپتال میں جہاں وہ عرصے سے زیرعلاج تھے وفات پاگئے۔