Sir Syed Aur Ilmi o Adabi Sarqa
سر سید اور علمی و ادبی سرقہ
سر سید نے 1887ء میں اپنی تمام تصانیف کو یکجا "تصانیفِ احمدیہ" کے نام سے شائع کیا۔ اِس میں"آثار الصنادید" موجود نہیں ہے۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ اُنھوں نے "آثار الصنادید" کے پہلے ایڈیشن کو اپنی کتاب کبھی نہیں کہا نہ لکھا۔ چونکہ پہلے ایڈیشن کا اسلوب بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ سر سید کا نوشتہ نہیں ہے اِس لیے یہ بات سوا سو سال پہلے حالی نے بھی نوٹ کی تھی۔ اگر کسی کو سر سید کی زندگی میں یہ خیال آیا ہوتا تو وہ وضاحت کے لیے پوچھ لیتا۔
میرے خیال میں یہ بات اُس وقت واضح تھی اِس لیے اِسے نہ کسی نے پوچھا اور نہ سر سید پہ بڑے بڑے الزام تراشنے والوں میں سے کسی نے اِس کی بابت کچھ لکھا۔ سر سید کو متنازع خیالات کی وجہ سے بہت مخالفت کا سامنا رہا چنانچہ اُن کے مخالفین نے اُن پر ہر طرح کے الزامات لگائے۔ اگر سر سید پلیجرزم کے بھی مرتکب ہوئے تھے تو یہ بات اُسی وقت سامنے آجاتی۔
حالی نے "حیاتِ جاوید" میں شبلی کے پلیجرزم کے ثبوت دیے ہیں۔ اگر سر سید نے پوری زندگی ایسا کچھ بھی کیا ہوتا تو شبلی اپنے جواب مضمون میں اُسے ضرور ذکر کرتے اور یہ بات ریکارڈ پر آجاتی۔ شبلی نے تو حالی کی بات کا جواب بھی نہیں دیا اور یوں گویا تسلیم کیا کہ حالی نے درست نشان دِہی کی ہے۔
اصل میں دو باتیں سمجھنے کی ہیں۔ پہلی یہ کہ کسی بھی قوم یا علاقے کی تاریخ یا تاریخی آثار پر جمع کیا ہوا مواد اور اُس سے متعلق اشاعتی کام پبلک ڈاکومنٹ ہوتا ہے جس سے ہر کوئی اپنی ضرورت کے مطابق فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اردو میں سے مثال لیجیے تو "تاریخِ ارض القرآن" میں سید سلیمان ندوی نے سر سید احمد خاں کے پہلے خطبۂ سیرت سے بلاحوالہ چیزیں لکھی ہیں۔ سر سید نے جہاں سے یہ مساحتی ڈیٹا لیا تھا اُس کا حوالہ البتہ اُن کے فٹ نوٹس میں بتکرار موجود ہے۔ میں نے اپنی مرتبہ "الخطبات الاحمدیہ" میں اِس کی بابت لکھا ہے۔
دوسری بات یہ کہ انگریزوں سے سیکھی ہوئی اچھی چیزوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم میں سے پڑھے لکھے لوگ اب سورس اور پرائمری سورس کے بارے میں پہلے کی نسبت زیادہ محتاط ہونے لگے ہیں۔ یہ حساسیت خوش آئند ہے۔ تاہم جو لوگ سو سوا سو سال قبل اِس بارے میں زیادہ محتاط نہیں ہوئے تھے اُنھیں شک کا فائدہ دینا چاہیے۔ واضح رہے کہ میں یہ عمومی بات کر رہا ہوں نہ کہ سر سید کے لیے لائسنس مانگ رہا ہوں۔ جسے سر سید کی سورسز اور پرائمری سورسز سے متعلق حساسیت کا علمی مطالعہ کرنا ہو وہ ایک بار "الخطبات الاحمدیہ" کا انگریزی ورژن (اشاعت: 1869ء) توجہ سے دیکھ لے۔ اگر یہ مہیا نہ ہو تو اردو ترجمہ (اشاعت: 1887ء) ہی کے مطالعے سے شادکام ہولے۔
ڈاکٹر اطہر فاروقی کے تدوین کردہ حفیظ الدین احمد کے دہلی کی قدیم عمارات پر لکھے مخطوطے کی اشاعت پر بہت مبارک۔ یہ معرکے کا کام ہے اور ادبی دنیا پر اُن کا احسان کہ ایک قدیم تر چیز پر سلیقے کا کام کیا اور دنیا کے سامنے لے آئے۔
جو مخطوطہ کبھی شائع ہی نہ ہوا ہو اُس سے استفادے کا یا اُس کا ذکر کسی کتاب میں نہ ہونے کی بنیادی وجہ اُس کی دستیابی کے مسائل ہیں۔ یہ بات یقینی ہے کہ ایک مسودہ جو آج تاریخی ورثے کے طور پر لندن کی برٹش لائبریری میں محفوظ ہے، دو سو سال پہلے وہ ایک ذاتی ملکیتی چیز تھا نہ کہ کسی لائبریری میں رکھا تھا۔ خود نوشتہ نوٹس کا ہر ایک کی یا کسی مخصوص محقق کی پہنچ میں ہونا آج کی تیز ترین اطلاعیاتی ٹیکنالوجی کے موجود ہوتے ہوئے بھی محال ہے۔ دو صدی قبل یہ یقینًا دشوار تر تھا۔ اِن بدیہی مشکلات کے موجود ہوتے ہوئے کسی پر پلیجرزم والی شق نافذ کرنے سے پہلے ضرور دیکھ لینا چاہیے کہ اُس شخص کے حینِ حیات کسی نے اُس پر ایسا کوئی تحفظ ظاہر کیا ہے یا نہیں۔