Punjab Mein Wapsi
پنجاب میں واپسی
پرکاش ٹنڈن (1911ء-2004ء) وہ پہلا آدمی ہے جسے انگریز نے ہندوستان سے جاتے ہوئے لیور برادرز انڈیا کا مدار المہام بنایا تھا۔ لیور برادرز اُن بڑی دساوری کمپنیوں میں سے ایک ہے جو بٹوارے سے قبل پنجاب کے دونوں حصوں میں برابر کام کر رہی تھیں اور جنھوں نے ہندوستان کے بعد از تقسیم معاشی طور پر مضبوط ہونے میں اہم کردار ادا کیا۔ پرکاش ٹنڈن جیسے کائیاں لوگوں کے روپ میں ہندوستان کو وہ قومی ہیرو مہیا ہوئے جنھوں نے عسکری جنگجوؤوں کے ہیرو ہونے کا قدیم تصور تبدیل کر دیا۔ آج ہندوستان کے ایک بڑی معیشت ہونے میں لیور برادرز جیسی کمپنیوں اور پرکاش ٹنڈن جیسے لوگوں کا کردار ایک دمکتی ہوئی کہکشاں جیسا ہے۔
خوبی کی بات یہ ہے کہ برطانیہ سے چارٹرڈ اکاؤنٹنسی کی تعلیم پائے ہوئے ایک پنجابی صنعتکار کو خدا نے ایسا قلم دیا کہ اُس نے تین جلدوں میں Punjabi Saga کی صورت میں اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کی داستان ایسے دلچسپ اسلوب میں لکھی جس میں متحدہ ہندوستان کی اور ازاں بعد دو سلطنتوں میں انتظامی تقسیم کے بعد انڈیا کی صنعتی و کاروباری ترقی میں پورے پنجاب کا اور پنجابیوں کا کردار الم نشرح نظر آتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ کتاب پرکاش ٹنڈن کی صرف خود نوشت نہیں بلکہ اِس میں نہ صرف پنجاب و ہندوستان بلکہ یورپ و امریکہ کے تاریخی، معاشی، سیاسی و سماجی واقعات کا بھرپور تجزیہ اور اُن پہ مصنف کی بے لاگ رائے موجود ہے۔ دوسری جنگِ عظیم میں کمزور پڑتے انگریز، ہندوستان میں جگہ جگہ برپا ہونے والے احتجاج، گاندھی پر تنقید، طلبہ سیاست کے نقصانات، وغیرہ، کو ایک محبِ وطن باخبر انسان کے الفاظ میں پڑھنا قاری کو ایک اور ہی دنیا میں لیے لیے پھرتا ہے۔ پرکاش دنیا بھر میں پھرا لیکن اپنی پنجابی اصل کو کبھی نہیں بھولا۔
وہ یورپ تو چھوڑیے، امریکہ تک میں اپنے قیام کے دوران میں وہاں مقیم ہندوستانیوں کا نیز لاس اینجلس میں پنجابی آباد کاروں کا خصوصی تذکرہ کرتا ہے۔ پنجابی زبان و لہجوں پر سر گریئرسن (تلفظ: گرے سن) اور سر چارلس لائل وغیرہ کی یاد دلاتے گہرے عالمانہ تبصروں کے ساتھ ساتھ پنجابی ثقافت سے گہری وابستگی کا والہانہ اظہار پورے متن میں نمایاں ہے۔ کتاب کے "اختتامیہ" (ص ﷺ 341-359) میں ایک ایسے عالمِ بشریات و سماجیات سے ہماری ملاقات ہوتی ہے کہ جواب نہیں۔ ص-359 پر پاک بھارت تعلقات اور پنجاب کے مسئلے کے حل کے لیے دیے گئے شفا بخش رابطوں والی تجویز پرکاش کی اپنے وطن ہندوستان اور بالخصوص پنجاب سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
کتاب اور اِس کے تینوں حصوں کی اشاعتی تفصیل مختصراً یہ ہے کہ پرکاش ٹنڈن نے اِس کا پہلا حصہ لکھا جو 1961ء میں Punjabi Century کے نام سے چھپا۔ اِس کے بعد مصنف کے دو دوستوں نے اصرار کیا کہ اِسے خودنوشت کی صورت میں مکمل کیا جائے تو اُس نے مزید دو کتابیں Beyond Punjab اور Return to Punjab لکھ دیں۔ اِس کے ایڈیشن Punjabi Saga کے نام سے چھپتے رہے تاآنکہ 1988ء ایڈیشن (تینوں جلدیں) ڈاکٹر مبارک علی پاکستان لے آئے اور دوستوں کے مشورے سے اِس کے اردو ترجمے کا قرعہ رشید ملک صاحب کے نام نکلا۔ اُنھوں نے پہلے حصے کا ترجمہ "پنجاب کے سو سال" کے نام سے 1993ء میں اور دوسرے کا "بیرونِ پنجاب" کے نام سے 1996ء میں شائع کرایا۔ تیسرے حصے کا ترجمہ شروع کرنے کے بعد وہ اِسے جاری نہ رکھ سکے۔ اُن کی وفات کے بعد تیسرے حصے Return to Punjab کا ترجمہ "پنجاب میں واپسی" کے نام سے برادرم ڈاکٹر محمد اطہر مسعود نے کیا ہے جو اِس وقت پیشِ نظر ہے۔ یہ مکمل تفصیل صفحات 7-9 پر "پیش لفظ" میں موجود ہے۔
کتاب میں پرکاش ٹنڈن کی انگریزی مشرقی برطانوی محاورے کی ہے جو اُس نے دورانِ طالبعلمی اپنے قیامِ برطانیہ میں محنتِ شاقہ سے سیکھی تھی۔ اُس نے اپنی مادری زبان و لہجے کی قربانی دے کر لنکا شائر کے برطانوی لہجے پر اِس قدر عبور حاصل کیا تھا کہ ہندوستان میں تعینات وہ نوجوان انگریز افسر جو ایک عرصے تک چھٹی نہ مل سکنے کے باعث گھر نہ جاسکے ہوتے وہ اُس کی گفتگو سنتے تو وطن کو یاد کرکے اُن کی آنکھیں نم ہوجاتیں۔ پرکاش ٹنڈن کا ذخیرۂ الفاظ بے حد وسیع ہے اور اندازِ بیان تکلمانہ اور اُس نے بین السطور مزاح اور خوشگواریت کا التزام رکھتے ہوئے انگریزی کے عام الفاظ خاص اُن معنی میں استعمال کیے ہیں جنھیں خالص اہلِ زبان اپنے روزمرے میں برتتے ہیں۔
اِس نکتے سے اہلِ نظر خوب جان سکتے ہیں کہ اِس کتاب کے درست اردو ترجمے کے لیے کس درجہ کی کاوش اور دونوں زبانوں کا کس سطح کا محاورہ و روزمرہ جاننا ضروری ہوگا۔ راقم کو یہ بات بیان کرتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ جنابِ رشید ملک کے اور ازاں بعد جنابِ اطہر مسعود کے، کیے ہوئے اردو ترجمے میں دونوں زبانوں پر استادانہ گرفت کا یہ گُن برابر موجود ہے۔ بلکہ ملک صاحب کے کیے ہوئے ترجمے کے کئی ایک مقامات کو جنابِ اطہر مسعود نے جس جانفشانی سے نظرِ ثانی کرکے اُنھیں چست تر بنایا ہے اور کئی ایک کھانچے پُر کیے ہیں وہ اُن کی زباندانی پر دال ہے۔
ڈاکٹر محمد اطہر مسعود نے موسیقی کے فارسی متون پر تحقیقی کام کیا ہے۔ اُن کے کیے ہوئے فارسی فکشن کے تراجم کے متعدد مجموعے اردو ترجمے کے میدان میں معروف اضافہ ہیں جن کے کم و کاست سے اہلِ علم خوب واقف ہیں۔ قدیم و جدید انگریزی پر اُن کی دسترس کا مشاہدہ بھی پچھلے دو عشروں سے کیا جا رہا ہے۔ "پنجاب میں واپسی" کی صورت میں انگریزی سے اردو میں یہ ترجمہ کرکے اُنھوں نے اپنی ترجمہ دانی کا ایک ایسا شاہکار پیش کیا ہے جس کا لفظ لفظ پنجابی ثقافت و روزمرہ کی بھرپور نمائندگی کر رہا ہے۔
مجھے اِس ترجمے کی تعمیر کو بہت قریب سے متواتر دیکھنے کا موقع ملا۔ اِس میں کتنے ہی ایسے الفاظ و محاورے موجود ہیں جن کا منبع جنابِ بشیر احمد قریشی کی کتابستان والی اور جنابِ شان الحق حقی کی اوکسفرڈ والی ڈکشنریاں ہیں۔ یہ ڈکشنریاں وہ مہان بنیادیں ہیں جنھوں نے پرکاش ٹنڈن کے متن کے رواں دواں انگریزی میں لکھے تکنیکی، انتظامی اور ثقافتی پہلوؤوں کو "متن سے وفادار" رہتے ہوئے ترجمہ کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ کسی کسی موقع پر جنابِ یعقوب میراں مجتہدی کی سہ جلدی انگریزی-اردو ڈکشنری نے بھی مشایعت کی۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے کہیں لکھا تھا کہ "قاری ہی نقاد ہوتا ہے۔ " میں پورے اطمینان سے کہہ سکتا ہوں کہ برادرم محمد اطہر مسعود کی خِلقی عالمانہ مہارت کی سہولت کاری کے لیے انگریزی-اردو ترجمہ کے متذکرۂ بالا منابع جس فنکاری سے استعمال ہوئے ہیں اُس کی داد صرف قاری دے سکتا ہے۔ امید ہے کہ قاری کو اِس ترجمے میں کہیں دبدھا یا لفظی ترجمے والی بدذوقی و کم کوشی کی جھلک بھی نہیں ملے گی۔
اہم تر خبر یہ ہے کہ "پنجابی ساگا" کے اِس تیسرے حصے کی اشاعت کے ساتھ ہی کتاب کے تینوں حصوں کے یکجا ترجمے پر کام بھی مکمل ہونے کو ہے۔ راقم کو ذاتی طور پر علم ہے کہ اِس میں جنابِ رشید ملک کے کیے ہوئے ترجمے پر نظرِ ثانی اور کاپی پیسٹروں کی کم سوادی کے سبب در آنے والی متعدد خرابیوں کو دور کرنے کے لیے بہت کھکھیڑ اٹھائی گئی ہے۔ "پنجابی ساگا" کا یہ یکجا ترجمہ دیر تک زندہ رہنے والی کاوش ہوگا۔
ڈاکٹر محمد اطہر مسعود نے اپنی اِس کاوش کو بجا طور پر جنابِ رشید ملک کے نام معنون کیا ہے اور اُنھیں "پنجاب کا بیٹا" لکھا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اطہر مسعود خود بھی اور مصنف پرکاش ٹنڈن بھی، "پنجاب کے بیٹے" کے لقب کے جائز مستحق ہیں۔ اِس بڑی منزل کے سر ہونے پر پنجاب کے اِن تینوں بیٹوں کو بہت مبارک۔