Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hafiz Safwan
  4. Pakistan Ki Muqami Zuban Urdu Kyun Hai

Pakistan Ki Muqami Zuban Urdu Kyun Hai

پاکستان کی مقامی زبان اردو کیوں ہے

جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اردو پاکستان کی مقامی زبان نہیں ہے اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ زبانیں بے جان یادگاریں یا پتھر کے مجسمے نہیں ہوتیں جو صرف ایک جگہ پر قائم ہوں۔ زبان نامیاتی وجود رکھتی ہے اور بیک وقت کئی کئی پہناووں میں جلوہ گر ہوتی ہے۔

اگر سندھ کی بیٹی سسی لوہار اپنے والد کے قتل کے خلاف بغیر کسی کے مجبور کیے ہوئے اردو میں احتجاج کرتی ہے تاکہ پورا پاکستان اُس کے خاندان پر ہونے والے ظلم کو سنے، اگر سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس، جناب غلام نبی میمن، صوبے میں ڈکیتیوں یا امن و امان کی صورتِ حال پر کسی زور زبردستی کے بغیر بریفنگ اردو میں دیتے ہیں، اگر شاہین شاہ آفریدی، جو ایک پشتو بولنے والا پختون ہے، ٹی وی رپورٹرز کو اردو میں انٹرویو دیتا ہے، اگر منظور پشتین پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں اجتماعات سے اردو میں خطاب کرتا ہے، اگر سردار اختر مینگل اردو میں یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ قومی اسمبلی سے مستعفی ہو رہا ہے، اگر مہرنگ بلوچ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے بارے میں ٹی وی کیمروں کے سامنے اردو میں احتجاج کرتی ہے۔

اگر کچے کے بلوچ ڈاکوؤوں کا ترجمان سارے اہلِ وطن کے لیے اپنا پیغام اردو میں ریکارڈ کراتا ہے، اگر پنجاب میں ایف آئی آرز اردو میں درج کی جاتی ہیں، اگر پنجابی قوم پرست دانشور سوشل میڈیا پر اردو میں طویل پوسٹیں لکھتے ہیں کہ اردو کو پاکستان کی قومی زبان نہیں ماننا چاہیے، اگر عبدالستار ایدھی، جن کی مادری زبان گجراتی تھی، پورے پاکستان سے اپنی کاوشوں کے لیے چندہ اردو میں مانگتے تھے، اگر گجراتی اور میمنی بولنے والے میمن، خوجا اور بوہری لوگ باقی پاکستانیوں سے کاروبار کرنے کے لیے اردو زبان استعمال کرتے ہیں، اگر کشمیری باشندے پاکستان میں آکر رہنے لگتے ہیں اور وہاں پر کسی کی طرف سے دباؤ کے بغیر اردو میں لوگوں سے معاملات کرتے ہیں۔

اگر پاکستان کے مختلف علاقوں کے لوگ سیاحت کے لیے مری، نتھیا گلی، سوات، کاغان، گلگت، چترال، سکردو، کیلاش وغیرہ جاکر وہاں کی مقامی آبادی کے ساتھ اردو میں بات کرتے ہیں اور اُن کے درمیان کوئی کمیونیکیشن گیپ نہیں آتا، اگر ریڈیو اور ٹیلی وژن چینلز پر نشریات کی بنیادی زبان اردو ہے، اگر بے شمار یوٹیوب چینلز جو پنجابی، سندھی، پختون اور بلوچ لوگ چلاتے ہیں اُن پر موجودہ سیاسی صورتِ حال پر اردو میں گفتگو اور بحث کی جاتی ہے، اگر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران اپنی تقاریر اردو میں کرتے ہیں چاہے اُن کا تعلق پاکستان کے کسی بھی علاقے سے ہو، اگر صدر اور وزیرِ اعظم قوم سے اردو میں خطاب کرتے ہیں خواہ اُن کی آبائی یا علاقائی زبان کوئی بھی ہو۔

اگر یومِ آزادی پر پریزیڈنسی میں منعقد کی جانے والی سویلین اور فوجی حکام کو اعزازات دینے کی تقریب اردو میں منعقد کی جاتی ہے، اگر سپریم کورٹ میں گفتگو اور دلائل انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی دیے جاتے ہیں، اگر پاکستان کی مسلح افواج کی پریڈز میں دی جانے والی ہدایات اردو میں دی جاتی ہیں، اور تینوں سروسز چیف اپنے اہلکاروں سے اردو میں بات کرتے ہیں، اور اِن سب باتوں پر اپنے نظریات سے متاثر قوم پرستوں کے علاوہ کسی کو نہ حیرت ہوتی ہے نہ اعتراض، بلکہ لوگ اِسے ایک معمول کا عمل سمجھتے ہیں، تو پھر بلاشبہ اردو پاکستان کی مقامی زبان بن چکی ہے۔

سر چارلس لائل اور سر گریئرسن وغیرہ جیسے ماہرینِ زبان کے لسانی نظریات کو تسلیم کریں تو ممکن ہے کہ اردو موجودہ پاکستان کی سرزمین سے باہر پیدا ہوئی ہو، لیکن پچھلی پون صدی میں یہ پاکستان کی زبان بن گئی ہے۔ پاکستان کی شہریت رکھنے والوں نے اِس زبان کو اپنا لیا ہے اور زبان نے اِس سرزمین کو اپنا لیا ہے۔ اب یہ زبان پاکستان کی زمین سے جڑ گئی ہے اور اب خواہ اِس کا رسمِ خط بدل لیا جائے تب بھی اِسے دیس نکالا نہیں ملے گا۔

جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اردو پاکستان کے لیے غیرملکی ہے یا یہ آبادی کے محض آٹھ فیصد کی زبان ہے وہ اپنے خودساختہ متعصب نظریات کے زیرِ اثر ایسا کہتے ہیں۔ یہ لوگ اردو سے روگی نفرت میں پاکستان میں اردو کے قبولِ عام اور پورے ملک میں اِس کے استعمال کی طرف سے جان بوجھ کر اندھا بن کر اِسے دیکھنے سے انکاری ہیں۔ ایسے روگیوں کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔ اِن کو اِن کے حال پر چھوڑ کے مثبت اور تعمیری کاموں میں لگنا چاہیے۔ جب سورج نکل آتا ہے تو سب کو روشنی دیتا ہے۔ جب پاکستان میں موٹروے بننا شروع ہوئی تھی تو اوکسفرڈ سے تعلیم پائی ہوئی وزیرِ اعظم نے بھی اِس کی مخالفت کی تھی۔ آج موٹروے بن چکی ہے تو اِسے سبھی استعمال کر رہے ہیں۔ اِسی طرح اردو اب پاکستان کی زبان بن چکی ہے جسے سبھی استعمال کر رہے ہیں۔

Check Also

Na Milen Ke Bharam Qaim Rahe

By Rauf Klasra