Kya Qanoon e Qisas o Dayyat Islami Hai?
کیا قانونِ قصاص و دیت اسلامی ہے؟
یہ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور کے آخری دنوں کی بات ہے یا طیارے کے حادثے کے کچھ دن کے بعد کی۔ غالبًا 12 ربیع الاول کو ایک اسلامی قانون پاس ہوا جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ اگر بس یا ٹرک ڈرائیور حادثے میں کسی کی جان لے گا تو ڈرائیور کے خلاف قتل کا مقدمہ بنے گا اور وہ خوں بہا ادا کرے گا۔ سارے ملک کے بس اور ٹرک ڈرائیوروں نے ہڑتال کر دی۔ تین چار دن پہیہ جام رہا۔ پھر اِس پہیہ جام ہڑتال میں ریلوے ڈرائیور بھی شریک ہوگئے۔ سارے ملک کا کباڑہ ہوگیا۔ حکومت نے قانون واپس لے لیا اور فوری طور پر قانون میں ترمیم ہوئی۔ ترمیمی قانون کا لبِ لباب یہ تھا کہ حادثے کی صورت میں ٹرک یا بس ڈرائیور پر نہیں بلکہ ڈرائیور کو ملازمت دینے والی کمپنی پر مقدمہ ہوگا اور وہ دیت ادا کرے گی۔
میں قائدِ اعظم یونیورسٹی میں داخل ہوا تو کچھ دن کے بعد اسلام آباد میں نئے نئے بننے والے دوست ایک شام میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یونیورسٹی میں آج بعد مغرب فلاں اسلامی جماعت کا اجتماع ہے۔ اِس میں فیصل مسجد انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے وہ پروفیسر صاحب (نام نہیں لکھ رہا) درسِ قرآن دیں گے جنھوں نے قصاص و دیت کا قانون بنایا ہے۔ میں فوراً تیار ہوگیا۔ شام کو اُن کا درسِ قرآن سنا۔ درس میں اُنھوں نے قانونِ دیت پر خوب خوب بحث فرمائی۔ بعد میں نماز اور کھانا وانا ہوا۔
وہ غالبًا میرے کمرے میں تشریف لائے۔ میں نے اُن سے عرض کیا کہ واضح بتائیے کہ پہلا والا قانون اسلامی تھا یا دوسرا والا؟ وہ گڑبڑائے تو عرض کیا کہ آپ نے اسلام کا قانونِ قصاص و دیت بنایا۔ عوام اُس اسلامی قانون کے خلاف سڑکوں پہ آگئی۔ حکومت نے آپ سے کہا کہ قانون بدل دیجیے۔ آپ نے اسلامی قانون بدل دیا۔ حکومت نے آپ کے تبدیل کردہ مسودے کو اسلامی قانون کہہ کر نافذ کر دیا۔ آپ بتائیے کہ آپ نے پہلے اسلامی قانون بنایا تھا جسے حکومت کے کہنے پہ بدلا، یا بعد میں اسلامی قانون بنایا؟ محترم کی سٹی گم ہوگئی۔
اُن پروفیسر صاحب سے بعد میں ایک آدھ ملاقات رہی اور کبھی کبھی فون پہ بھی رابطہ رہا۔ غالبًا کچھ سال پہلے اُن کا انتقال ہوچکا ہے۔
عرض یہ کرنا ہے کہ نہ کوئی قانون اسلامی ہوتا ہے اور نہ کوئی پروسیجر۔ مجھے یہ بات معلوم ہوئے آج 35 برس سے زیادہ ہوگئے ہیں۔ حکومت جس بھی چیز کو اسلامی کہہ کر پیش کرنا چاہتی ہے، اُسے اسلامی بناکر پیش کرنے والے ہر مسلک اور ہر مدرسے اور ہر یونیورسٹی سے مل جاتے ہیں۔ خدا بھی وہی کیا کرتا ہے جو حکومت چاہا کرتی ہے۔
حکومت سے یہاں مراد وہ لوگ ہیں جو اصل میں حکومت ہوتے ہیں نہ کہ ملازمت پہ رکھے گئے وزیر مشیر۔ کیا آپ لوگ بھول گئے ہیں کہ آسیہ کو باہر بھیجنے کا فیصلہ ہوگیا تھا۔ پھر وہ باہر چلی بھی گئی۔ قانون بھی موجود ہے اور شمعِ رسالت کے پروانوں کی جماعتوں کے اکابر بھی۔ کسی کی چوں چوں سننا تو چھوڑیے، کسی کے ماتھے پہ پسینہ بھی آیا؟
تو پیارے بچو، نتیجہ اِس کہانی کا یہ نکلا کہ قرآن کی آیت فعال لما یرید کا درست مطلب سمجھنے کی کوشش کیا کرو۔ اطاعتِ اولی الامر بھی سمجھ میں آجائے گی۔