Karsaz Sarak Hadsa
کارساز سڑک حادثہ
پاکستانیوں کی نفسیات اور خصوصًا سڑکی نفسیات کی ابتری کی وجہ سے روزانہ سیکڑوں نہیں ہزاروں ٹریفک حادثے ہوتے ہیں اور بلامبالغہ سیکڑوں لوگ اِن حادثات میں مرتے ہیں۔ ہم لوگ ایسی خبروں کے عادی ہیں لہٰذا اِن سے ہمارے روزمرہ کاموں یا اجتماعی معاملات میں کوئی حرج واقع نہیں ہوتا۔
کارساز میں 20 اگست کو ہونے والا حادثہ بھی ایک عام واقعہ ہوتا اگر کوئی عام عورت چھوٹی سی گاڑی چلاتی ہوئی ایک باپ بیٹی کو کچل دیتی۔ یہ واقعہ صرف اِس لیے ٹاک آف دا ٹاؤن بنا ہے کہ قاتلہ نتاشہ ایک مالدار خاندان کی کھاتی پیتی عورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کس و ناکس اُسے برا بھلا کہہ کر اپنا خبثِ باطن نکال رہا ہے۔ کوئی اُس کے اثاثوں کی فہرست دکھا رہا ہے تو کوئی اُس کے عہدوں کی۔ کسی کو اُس کی گاڑی کی قیمت کی یاد آ رہی ہے۔ کسی کو اِس پر تکلیف ہے کہ اُسے پولیس سٹیشن میں جوتے کیوں نہیں مارے گئے اور ائیرکنڈیشنر والے کمرے میں کیوں بٹھایا گیا۔ ہر طرف ایسی ہی پوسٹوں کا طومار نظر آ رہا ہے۔
واضح رہنا چاہیے کہ قاتلہ نتاشہ کوئی عادی مجرم نہیں ہے۔ ایک حادثہ ہوا ہے جس میں اُس کی غلطی یہ ہے کہ اُس نے موٹرسائیکل کو پیچھے سے ٹکر ماری ہے۔ یہ قانون نہیں ہے لیکن عام تسلیم کیا جاتا ہے کہ پیچھے سے ٹکر مارنے والا مجرم ہوتا ہے۔ کارساز سڑک حادثے میں اگر سو فیصد غلطی بھی نتاشہ کی ہے اور سڑک کے درمیان میں موٹرسائیکل چلاتے پاپڑ فروش عمران صاحب اور اُن کے پیچھے بیٹھی اُن کی بیٹی آمنہ کا بالکل کوئی قصور نہیں ہے تب بھی نتاشہ قاتل ہونے باوجود عادی مجرم نہیں ہے۔ عادی مجرم کے جرم میں اور حادثاتی موت میں فرق ہے۔ ہمارا قانون بھی اِسے تسلیم کرتا ہے۔
ہمارے قانون میں چونکہ قصاص اور دیت دونوں راستے موجود ہیں اِس لیے قانون کی جون سی شق پر عمل کرنا اِس وقت زیادہ فائدہ مند ہوا اُس پہ عمل کرلیا جائے گا۔ چنانچہ خواہ جان کے بدلے جان لینے والی شق پر عمل ہو یا خوں بہا دینے والی شق پر، یہ دونوں قانونًا اور شرعًا درست ہوں گے۔ سوشل میڈیا پر شور مچاکر اور غربت بیچ کر عوام کے ذہنوں کو مسموم کرنا نہایت بری حرکت ہے۔
رہی بات مذہب کی۔ تو واضح رہنا چاہیے کہ مذہب جتنا غریبوں کا ہے اُتنا ہی امیروں کا بھی ہے۔ غریبوں کے لیے بعض احکامات مختلف ہیں اور امیروں کے لیے مختلف۔ خدا نے دین پر چلنے کے لیے امیر کو غریب ہونے کی یا غریب کو امیر ہونے کی شرط نہیں رکھی۔ اگر امیر قاتل دیت دے دے تو وہ بھی دین پر اُتنا ہی عمل کر رہا ہے جتنا کوئی غریب قصاص لے کر۔ ہم نے ریمنڈ ڈیوس کیس میں دیت والی فقہی شق پر عمل کرکے ثابت کیا ہے کہ اسلام ہر دور میں اور صورتِ حال میں بہترین مذہب ہے۔ امیر ہو یا غریب، اسلام کے پاس سب کے بھلے کے لیے احکامات موجود ہیں۔ خدا عمل کی توفیق دے۔