Rishton Ki Baqa, Qarabat Dari, Sila Rehmi Aur Ehsan Ka Ahya
رشتوں کی بقاء، قرابت داری، صلہ رحمی اور احسان کا احیاء

قرآن کہتا ہے: "وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالُأَرُحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيُكُمُ رَقِيبًا"۔ (النساء: 1)
"اللہ سے ڈرو جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتہ داریوں کا خیال رکھو۔ بے شک اللہ تم پر نگران ہے"۔
یہ آیت آج ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے پر مجبور کرتی ہے۔ معاشرے کی سب سے مضبوط اکائی، یعنی خاندان، جس کی بنیاد محبت، صبر، صلہ رحمی اور ایثار پر رکھی گئی تھی، اب مفادات، خود غرضی اور وقتی تعلقات کی دیمک سے کھوکھلا ہوتا جا رہا ہے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کے دور میں رشتہ داریاں صرف مفادات تک محدود ہو چکی ہیں۔ انسان جب تک فائدہ پہنچا رہا ہو، اس کی قدر ہے۔ جب اس کا فائدہ ختم ہو جائے تو چاہے وہ سگا بھائی ہو یا بوڑھے ماں باپ، اس کی حیثیت صفر ہو جاتی ہے۔
آج ہمیں جس دکھ کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ بھائی، بھائی سے زیادہ اجنبی بن چکے ہیں۔ اولاد، والدین سے زیادہ دوستوں پر اعتبار کرتی ہے۔ بیٹیاں ماں کی نصیحتوں کے بجائے انسٹاگرام کے انفلوئنسرز کو فالو کرتی ہیں۔ بیٹے باپ کی عزت کے بجائے سوشل سرکلز میں پزیرائی کے طلبگار ہیں اور یہی المیہ اس زوال کی سب سے بڑی وجہ ہے جو ہمیں اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "لَا يَدُخُلُ الُجَنَّةَ قَاطِعٌ"۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
"قطع رحمی (رشتہ توڑنے والا) جنت میں داخل نہیں ہوگا"۔
یہ کوئی عام جملہ نہیں، بلکہ ایک سخت وعید ہے۔ مگر آج ہم کتنا آسانی سے اس حد کو پار کر لیتے ہیں۔ معمولی بات پر بہن بھائیوں سے بول چال بند، ذاتی اختلاف کی وجہ سے سالوں سے تعلق ختم، والدین کی ناپسندیدہ بات پر زبان درازی، غرض ہر ہر تعلق اپنے مفاد کے ترازوں پر تولا جا رہا ہے۔
قرآن کریم میں بار بار قرابت داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین کی گئی ہے۔ فرمایا گیا: "إِنَّ اللَّهَ يَأُمُرُ بِالُعَدُلِ وَالإِحُسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الُقُرُبَى"۔ (النحل: 90)
"اللہ عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے"۔
یہ تینوں چیزیں اگر کسی معاشرے میں قائم ہو جائیں تو وہ معاشرہ امن، محبت اور خوشحالی کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ مگر آج ہم ان میں سے کسی ایک پر بھی مکمل طور پر عمل نہیں کرتے۔
ہم اکثر کہتے ہیں کہ ہمیں لوگوں سے امید نہیں رکھنی چاہیے، صرف اللہ پر بھروسا کرنا چاہیے۔ یہ بات بجا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ہم خود کسی کے لیے وہ "امید" بننے کو تیار ہیں؟ جب ہر شخص دوسروں سے بھلائی کی امید چھوڑ دے اور خود بھی کسی کے کام نہ آئے، تو معاشرہ صرف مفادات کے جنگل میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
اگر آج ہم گھروں کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ ماں باپ اپنے کمروں میں تنہا بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور بچے الگ دنیا میں گم۔ بھائی بہنوں کی باہمی گفتگو صرف ضرورت تک محدود ہے۔ مہینوں ہو جاتے ہیں کہ کسی سے خیر خبر نہ لی گئی ہو، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مَن كَانَ يُؤُمِنُ بِاللَّهِ وَالُيَوُمِ الآخِرِ فَلُيَصِلُ رَحِمَهُ"۔ (بخاری و مسلم)
"جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے رشتہ داروں سے تعلق جوڑ کر رکھنا چاہیے"۔
آج اگر کوئی اپنی مصروفیت کے باعث رشتہ داروں سے دوری اختیار کرتا ہے تو اس کی مصروفیت درحقیقت اس کے دل کی سختی ہے۔ جو شخص اپنوں کے لیے وقت نہیں نکال سکتا، وہ کسی کے لیے بھی مخلص نہیں ہو سکتا۔
سوشل میڈیا نے جہاں بہت کچھ جوڑا ہے، وہاں بہت کچھ توڑا بھی ہے۔ ہم روزانہ سینکڑوں لوگوں کی پوسٹس دیکھتے ہیں، ان پر لائکس اور تبصرے کرتے ہیں، لیکن اپنے قریبی رشتہ دار کو فون نہیں کرتے۔ ہم انسٹاگرام پر تصویریں دیکھ کر دعائیں دیتے ہیں، لیکن اپنے بھائی کی پریشانی کا علم نہیں رکھتے۔
یہ سب اس لیے ہے کہ ہمیں کبھی سکھایا ہی نہیں گیا کہ رشتے نبھانا بھی ایک فن ہے، ایک علم ہے، ایک عمل ہے۔ جس طرح پڑھائی، نوکری، یا کاروبار کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے، ویسے ہی رشتوں کے لیے بھی خلوص، برداشت، قربانی اور دعا کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہمیں ضرورت ہے کہ ہمارے اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں اخلاقیات کے ساتھ ساتھ رشتوں کے آداب اور خاندان کے نظام پر بھی مضامین شامل کیے جائیں۔ ہمیں بچوں کو صرف سائنس، حساب یا تاریخ نہیں پڑھانی، بلکہ یہ سکھانا ہے کہ نانی کا احترام کیا ہوتا ہے، ماموں سے گفتگو کا سلیقہ کیا ہے، بھائی کے ساتھ بیٹھ کر کھانے میں کیسی برکت ہوتی ہے اور ماں باپ کی دعائیں کس طرح تقدیر بدل سکتی ہیں۔
اگر ہم آج اپنی نسل کو رشتوں کی اہمیت نہ سکھا سکے، تو کل وہ ہمیں بھی انہی پرکھوں کی طرح بھول جائیں گے جن کے نام فقط شجرہ نسب میں رہ جاتے ہیں۔
رسول کریم ﷺ کا ایک اور فرمان ہے: "لَيُسَ الُوَاصِلُ بِالُمُكَافِي، وَلَكِنَّ الُوَاصِلَ الَّذِي إِذَا قَطَعَتُ رَحِمُهُ وَصَلَهَا"۔ (بخاری)
"صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو احسان کے بدلے احسان کرے، بلکہ وہ ہے جو تعلق توڑے جانے پر بھی تعلق جوڑے"۔
یہی وہ کردار ہے جو آج ہمارے معاشرے سے مفقود ہو چکا ہے۔ ہمیں وہ افراد چاہییں جو خود پہ بھاری دل لیے، اپنوں کے دروازے پر دستک دیں، چاہے جواب میں خاموشی ہی ملے۔ ہمیں وہ مائیں، وہ باپ، وہ بیٹے، وہ بیٹیاں، وہ بھائی، وہ بہنیں چاہییں جو رشتہ نبھانے کو انا سے مقدم سمجھیں۔
ہمیں منبروں میں، مساجد میں، جمعے کے خطبات میں، اسکول اسمبلیوں میں، یونیورسٹی لیکچرز میں اور سوشل میڈیا پر ایک بار پھر رشتوں کی اصل روح، ان کی حفاظت اور ان کے حقوق کا شعور عام کرنا ہوگا۔ ہمیں صرف "رابطے" نہیں جوڑنے، بلکہ "تعلق" بحال کرنا ہے۔
یہی وہ وقت ہے کہ ہم رشتوں کو پھر سے عبادت کا درجہ دیں اور اپنے بچوں کو یہ سبق دیں کہ رشتے محض خون کے نام پر نہیں، بلکہ محبت، خدمت، دعا اور احسان کے تقاضوں پر قائم رہتے ہیں۔ اگر ہم نے آج بھی اصلاح نہ کی تو اگلی نسلیں شاید ہمارے جنازے پر بھی آنے کو بوجھ سمجھیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں رشتوں کی قدر کرنے، صلہ رحمی کرنے اور احسان کا رویہ اپنانے کی توفیق دے۔

