Qalam Ka Halaf, Fikri Bedari Ka Naya Baab
قلم کا حلف، فکری بیداری کا نیا باب

قلم کی دنیا بڑی عجیب ہے۔ یہ وہ کائنات ہے جہاں لفظ دل سے نکل کر ضمیر کی صدا بن جاتے ہیں۔ کبھی یہ سچ کے محافظ بنتے ہیں، کبھی ظلم کے خلاف اعلانِ بغاوت اور کبھی خوابوں کے معمار، اہلِ قلم ہمیشہ سے وہ لوگ رہے ہیں جنہوں نے سماج کے نبض پر ہاتھ رکھا، اس کے دکھ اور درد کو محسوس کیا اور پھر اسے لفظوں میں ڈھال کر قوم کے شعور کا حصہ بنا دیا۔
یاد رکھیے! قلم محض لکڑی یا سیاہی کا مجموعہ نہیں، یہ ضمیر کی آواز اور سچائی کی ترجمانی کا استعارہ ہے۔ اہلِ قلم ہمیشہ معاشرے کے حساس ترین لوگ رہے ہیں، جو ظلم دیکھ کر چپ نہیں رہتے اور سچ دیکھ کر خاموش نہیں ہوتے۔ ان کا دل سماج کی دھڑکن کے ساتھ جڑا ہوتا ہے اور ان کے الفاظ وہ آئینہ ہوتے ہیں جس میں قوم اپنی اصل صورت دیکھتی ہے۔
پاکستان کالمسٹ ایسوسی ایشن کی گوجرانوالہ میں ہونے والی تقریبِ حلف برداری بھی ایک ایسی ہی کہانی تھی، جہاں قلم نے اپنا نیا عہد اٹھایا۔ یہ محض ایک تنظیمی تقریب نہیں تھی، بلکہ ایک فکری عہدِ نو کی بنیاد۔ وہاں موجود ہر لکھاری کے چہرے پر ایک عزم نمایاں تھا، جیسے ہر لفظ نے فیصلہ کر لیا ہو کہ اب وہ خاموش نہیں رہے گا۔
مجھے ہمیشہ یقین رہا ہے کہ قوموں کی اصل طاقت نہ تلوار میں ہے، نہ تخت میں، بلکہ قلم میں ہے۔ تلوار جسموں کو فتح کرتی ہے، قلم ذہنوں کو اور جب ذہن بدل جائیں تو تقدیریں بھی بدل جاتی ہیں۔
اسی یقین کے ساتھ جب میں نے اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے وابستگی اختیار کی، تو یہ صرف ایک عہدہ سنبھالنے کا لمحہ نہیں تھا، بلکہ ایک فکری سفر کا آغاز تھا۔
بطور سینئر نائب صدر اس عظیم کارواں کا حصہ بننا میرے لیے ایک اعزاز سے زیادہ ایک ذمہ داری ہے اور میں یہ حقیقت تسلیم کرتا ہوں کہ مجھے اس قلمی جہد کی طرف راغب کرنے کا سہرا عتیق انور راجہ صاحب کے سر جاتا ہے۔
وہ صاحبِ کتاب، حساس دل کے شاعر اور سماج کی نبض پر انگلی رکھنے والے کالم نگار ہیں۔ ان کی گفتگو اور تحریروں نے مجھ جیسے درجنوں لوگوں میں لکھنے کا حوصلہ جگایا۔ انہی کی تحریک سے میں نے قلم کو صرف اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ اصلاح کا ہتھیار سمجھا۔
تقریبِ حلف برداری کا منظر آج بھی ذہن میں تازہ ہے، ہال میں موجود اہلِ قلم کے چہرے، نعت کی خوشبو سے مہکتی فضا اور وہ لمحہ جب صدرِ ایسوسی ایشن چوہدری سجاد مشتاق مہر نے فرمایا: "کالم نگاری محض تجزیہ نہیں، ایک امانت ہے"۔
یہ جملہ جیسے ہر لکھنے والے کے دل پر نقش ہوگیا۔ واقعی، لفظ صرف لکھے نہیں جاتے، وہ احساس سے جنم لیتے ہیں اور جب احساس سچائی سے جڑ جائے تو وہ تحریر تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے۔
روفیسر عبدالماجد المشرقی نے کہا: "صحافت محض خبر نگاری نہیں بلکہ کردار سازی کا فن ہے"۔
ان کی بات گویا پوری محفل کی روح بن گئی۔ واقعی، جب کردار مضبوط ہو تو قلم خود بخود مقدس بن جاتا ہے۔
کسی دوست نے تقریب میں نہایت خوبصورت جملہ کہا: "تحریر ایسی ہو کہ لکھنے کے بعد تاسف یا افسوس نہ ہو"۔
یہ جملہ دراصل ہر لکھاری کے لیے رہنما اصول ہے، کہ وہ لکھنے سے پہلے اپنے دل کو تولے، اپنے ضمیر کو پرکھے اور پھر لفظ کو صفحے کے سپرد کرے۔
اہلِ قلم کے اس اجتماع میں یہ بات بار بار دہرائی گئی کہ ہمارا قلم محض ردِعمل کا ذریعہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ عمل کی بنیاد بننا چاہیے۔
ہمیں وہ تحریریں لکھنی ہوں گی جو صرف تنقید نہیں بلکہ تعمیر کا باب کھولیں۔ جو صرف خبر نہیں بلکہ شعور پیدا کریں۔ جو صرف مایوسی نہیں بلکہ امید جگائیں۔
آج میڈیا، سوشل نیٹ ورکس اور مصنوعی ذہانت کے دور میں لفظوں کا وقار پہلے سے زیادہ اہم ہوگیا ہے۔ شور بہت ہے مگر سچائی کی آواز کم۔
ایسے میں لکھنے والا اگر دیانتدار ہے تو وہ ایک پوری نسل کا رہنما بن سکتا ہے اور اگر قلم مصلحت کا شکار ہو جائے تو اندھیرا صرف خبر کے صفحے تک نہیں رہتابلکہ وہ ضمیر پر بھی چھا جاتا ہے۔
آج جب معاشرہ شور، فتنہ اور اطلاعاتی ہجوم میں گم ہوتا جا رہا ہے، سچ کہنا اور لکھنا ایک جہاد بن چکا ہے "جہاد بالقلم"!
خاص طور پر اس دور میں جب حق گوئی کرنے والے صحافی زیرِ عتاب ہیں اور آزادیِ رائے کو دبا دیا گیا ہے، ہر لکھنے والا ایک سپاہی ہے جو لفظوں کے محاذ پر کھڑا ہے۔
یہ وہ دور ہے جب خاموشی گناہ بن جاتی ہے اور بولنا فرض، یہی وہ لمحہ ہے جب پاکستان کالمسٹ ایسوسی ایشن نے اپنی سمت طے کی۔ یہ تنظیم اب محض قلم کاروں کا حلقہ نہیں، ایک فکری تحریک بن چکی ہے۔ یہاں تحریر محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ضمیر کی صدائے بازگشت ہے۔
ہم نے طے کیا ہے کہ اپنے قلم کو مفاد کے نہیں، مقصد کے تابع رکھیں گے۔ ہم لکھیں گے، چاہے کسی کو ناگوار گزرے، مگر سچائی کے لیے لکھیں گے۔ گوجرانوالہ کی اس فکری شام نے ایک نئی روشنی دی ہے۔ وہ روشنی جو عہد کرتی ہے کہ قلم کو نعرے سے نکال کر عمل کی صفِ اول میں لے آیا جائے۔
یہ حلف دراصل اعلان تھا کہ اب اہلِ قلم خاموش تماشائی نہیں رہیں گے، بلکہ معاشرے کے فکری معمار بنیں گے۔
میں دل کی گہرائیوں سے دعا کرتا ہوں۔ یا اللہ، ہمارے لفظوں کو سچائی کا پہرہ دار بنا۔ ہمارے قلم کو جرات عطا فرما اور ہمارے وطن کو علم و شعور کی روشنی سے منور کر دے۔ کیونکہ قلم جب بیدار ہوتا ہے تو قومیں راستہ پا لیتی ہیں اور جب اہلِ قلم متحد ہو جائیں تو تاریخ نئے باب رقم کرتی ہے۔

