Pakistan Mein Bankari Shoba, Khwabon Ki Tabeeren Ya Bank Mulazmeen Ki Qurbaniyan?
پاکستان میں بینکاری شعبہ، خوابوں کی تعبیریں یا بینک ملازمین کی قربانیاں؟

پاکستان کی معیشت میں بینکنگ سیکٹر ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ لاکھوں افراد کی زندگیاں اس نظام سے جڑی ہیں، جن میں صارفین بھی شامل ہیں اور وہ لاکھوں بینک ملازمین بھی جو دن رات مالیاتی نظام کے استحکام اور ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ لوگ، جو اس نظام کو اپنے خون پسینے سے چلاتے ہیں، خود بھی محفوظ، مطمئن اور خوشحال ہیں؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
بینکنگ سیکٹر میں آج جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ایک خاموش انسانی المیہ سے کم نہیں۔ آئے روز بڑھتے ہوئے غیر حقیقی اہداف (Unrealistic Targets)، کمزور انفراسٹرکچر، ناکافی تربیت اور کارپوریٹ کلچر کی اندھی دوڑ نے بینکرز کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے۔
چند دہائیاں قبل تک بینکاری ایک معتبر پیشہ سمجھا جاتا تھا، جہاں پیشہ ورانہ مہارت اور انسانی وقار کی قدر کی جاتی تھی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ایک شاخی عملہ (Branch Staff) صبح نو بجے سے شام سات آٹھ بجے تک بینک کی چار دیواری میں قید رہتا ہے، بغیر اس بات کے کہ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور جب دن کے اختتام پر کارکردگی کے اعداد و شمار پیش کیے جاتے ہیں تو ان کی محنت کو سراہے جانے کے بجائے مزید اہداف کا کوڑا ان پر برسایا جاتا ہے۔
یہ اہداف اکثر غیر فطری اور انسانی استعداد سے ماورا ہوتے ہیں۔
ایک بینک ملازم سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف قرضے (Loans)، ڈیپازٹس، ایگری لون، سولر لون بلکہ انشورنس، میوچل فنڈز، کریڈٹ کارڈز اور دیگر مصنوعات کی فروخت میں بھی پیش پیش رہے، خواہ بینک کا بنیادی دائرہ کار اس سے متعلق نہ ہو۔
بینکنگ کا اصل کام، مالیاتی خدمات کی فراہمی اور قرضوں کی تقسیم، کب کا ثانوی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
آج کے بینکر کو سیلز مین بنایا جا رہا ہے، وہ بھی بغیر مناسب تربیت، وسائل یا سپورٹ کے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ مطالعات میں یہ سامنے آیا ہے کہ پاکستان میں بینکاری شعبے سے وابستہ افراد میں ذیابطیس، ہائی بلڈ پریشر، ڈپریشن اور دل کی بیماریوں کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔
ایک بینکر کی زندگی محض ایک اَن کہی تھکن، بے نام سی بے بسی اور اَن دیکھی بیماریوں کا مجموعہ بن چکی ہے۔ یہ مسئلہ صرف جسمانی یا نفسیاتی نہیں، یہ اخلاقی اور سماجی بحران بھی ہے۔
جب ادارے اپنے ملازمین کی عزت نفس، ان کی صحت، ان کی فیملی لائف اور ان کی پیشہ ورانہ ترقی کا خیال نہیں رکھتے تو وہ ادارے زیادہ دیر تک مستحکم نہیں رہتے۔
ورک لائف بیلنس کسی بھی مہذب معاشرے کی بنیادی قدر ہے، مگر ہمارے ہاں کارپوریٹ ادارے اس تصور کو ایک کمزوری سمجھتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ State Bank of Pakistan بطور ریگولیٹر اس صورت حال کا نوٹس لے اور تمام بینکوں پر یہ لازم کرے کہ:
* غیر حقیقی اہداف پر نظرثانی کی جائے۔
* ہر شاخ کو مطلوبہ انفراسٹرکچر، عملہ اور وسائل مہیا کیے جائیں۔
* ملازمین کی صحت، فلاح و بہبود اور ٹریننگ پر سنجیدگی سے سرمایہ کاری کی جائے۔
* انشورنس اور دیگر غیر بینکاری مصنوعات کی فروخت بینک ملازمین کی بنیادی ذمہ داری نہ ہو۔
* فیورٹزم، گروپنگ اور سیاسی دباؤ کا خاتمہ یقینی بنایا جائے۔
* ورکنگ آورز، اوور ٹائم اور چھٹیوں کے نظام کو عالمی معیار کے مطابق لایا جائے۔
یاد رکھیں، معیشت کی عمارت ان ہی مزدوروں کے کندھوں پر کھڑی ہے۔ اگر ہم ان کی عزت نفس، صحت اور فیملی لائف کی قیمت پر اپنے اداروں کو "منافع بخش" بنائیں گے تو یہ نفع وقتی اور تباہ کن ثابت ہوگا۔
میں خود بطور بینکر ان تمام مسائل کا عینی شاہد ہوں اور اپنے تمام بینکار بھائیوں اور بہنوں کی طرف سے اربابِ اختیار، پالیسی سازوں، سٹیٹ بینک اور بینکوں کی اعلیٰ انتظامیہ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ:
کیا ہم اس نظام کو جدید تقاضوں، اخلاقی اقدار اور انسانی ہمدردی کے اصولوں پر استوار کر سکتے ہیں؟
اگر ہم آج اس سوال کا جواب نہ ڈھونڈ سکے تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔۔

